نفرت کا ابلتا ہوا زہر
بڑے پیمانے پر مذہبی ، نسلی ، مسلکی ، علاقائی اور دوسری نفرتیں آج سے نہیں ہزاروں برس سےانسانوں میں پرورش پاتی رہی ہیں۔
کم عمری کے دن تھے جب والد کی کتابوں میں چند پراسرار کتابیں نظر آئیں ۔ اندر چھپی ہوئی تصویروں میں وہ لوگ تھے جو سفید لبادے پہنے ہوئے تھے، ان کے سروں پر مخروطی ٹوپیاں تھیں اور چہروں پر نقاب تاکہ پہچانے نہ جاسکیں ۔ ان کتابوں نے تجسس پیدا کیا، انھیں الٹ پلٹ کر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ وہ گروہ تھا جو کوکس کلاں کہلاتا تھا۔ انیسویں صدی میں اس گروہ کی داغ بیل پڑی، کچھ دنوں منظر عام پر رہا لیکن چند برس بعد گوشہ گمنامی میں چلا گیا ۔
پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد ایک بار پھر یہ گروہ امریکا میں ابھر آیا اور اس نے پہلے کی طرح سفید فام امریکیوں کی بالادستی کی بات کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ سفید فام امریکی ایک برتر اور خالص نسل ہیں ۔ انھیں اخلاقی معیار پر پورا اترنا چاہیے، مذہبی اعتبار سے وہ کیتھولک ہوں اور انھیں شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہیے ۔ یہ لوگ 'اعلیٰ اخلاقی معیار' کا نام لیتے تھے لیکن ان کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے تھے اور انھوں نے بے شمار امریکی نوجوانوں کے ذہن میں برتری کا خبط پیدا کیا ۔ ایسی تنظیمیں یا گروہ وقت کے ساتھ ہی پسپا ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دنیا جس نظام فطرت کے تحت چل رہی ہے اس میں نفرت اور تعصبات کی گنجائش نہیں ۔ یہی نقطۂ نظر ایڈولف ہٹلر کا بھی تھا، اس نے جرمنوں میں نسلی تفاخر کی جو آگ بھڑکائی ، وہ آخرکار ساری جرمن قوم کو خاکستر کرگئی ۔
بڑے پیمانے پر مذہبی ، نسلی ، مسلکی ، علاقائی اور دوسری نفرتیں آج سے نہیں ہزاروں برس سے انسانوں میں پرورش پاتی رہی ہیں اور انھوں نے اپنے اپنے زمانے میں انسانوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا ہے ۔ آج کی دنیا میں بھی ہمیں مختلف بنیادوں پر کینسر کی طرح پھیلتی ہوئی نفرتوں کا سامنا ہے ۔ دوسروں سے نفرت کرنے والے لوگوں کی تفصیلات جاننے کے لیے اب ہمیں کتابوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ انٹرنیٹ کا بحرِ ذخار ہمیں کیسی خوفناک تفصیلات بتاتا ہے ۔ انسانوں سے نفرت کو اپنا ایمان بنانے والے سفید فام امریکیوں کی سب سے بڑی ویب سائٹ کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان امریکی لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک سیلاب ہے جو امڈ آیا ہے اور وہ اپنے تشخص کی تلاش میں ہے ۔ یہ ویب سائٹ 1995میں کوکس کلاں کے ایک سابق لیڈر نے قائم کی ۔ ان لوگوں کے سب سے پسندیدہ سماجی گروہ 'یونین آف نیشنل سوشلسٹس' اور 'ایڈولف ہٹلر کے چاہنے والے اور حمایتی' ہیں ۔ یہ نام اس بات کا اشارہ ہے کہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے کتنے متشدد نظریات رکھتے ہیں ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے نظریات کو چھپانا تو دور کی بات ہے ، ان کا برملا اظہار کرنے میں کسی قسم کا خوف یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے ۔ اس گروہ میں خواتین کی شمولیت بھی حیرت انگیز طور پر بڑھی ہوئی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایسے گروپ میں شامل لڑکیوں اور عورتوں کا تناسب 30 فیصد سے زیادہ ہے ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ افریقی النسل امریکی ہیں جو امریکیوں کے خلاف جرائم یعنی قتل، ڈکیتی اور چھوٹی موٹی چوریوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ 'کوکس کلاں' کے یہ جانشین میکسیکی باشندوں کی بھاری پیمانے پر امریکا آمد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے امریکا پر 'قبضہ' کرلیا ہے ۔ یہ ہم جنس پرستوں اور نسائی تحریک سے جڑی ہوئی عورتوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور گزشتہ صدی میں امریکا آکر آباد ہوجانے والے یہودیوں کے سخت مخالف ہیں ۔
سفید فام انتہاپسندوں کی نئی نسل جو مختلف ناموں سے نفرت پھیلانے میں مصروف ہے ، ان سے پہلے 50 اور 60 کی دہائی میں 'کوکس کلاں' نے اس دور کی شہری حقوق کی تحریک کے علاوہ سفید فام اور رنگ دار امریکیوں کے درمیان حد بندیاں ختم کرنے اور انھیں انسانی بنیادوں پر یکساں حقوق دینے کی مہم کے خلاف بھی جارحانہ کارروائیاں کی تھیں ۔ اس گروہ کے کئی افراد ان رنگ دار اور سفید فام افراد کے قتل میں ملوث رہے جو مساوی حقوق اور انصاف کی بات کرتے تھے ۔ ان میں سے کئی کو سزائیں ملیں ۔ ان ہی لوگوں میں سے چند نے 1997 میں دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی کا منصوبہ بنایا جو کامیاب نہ ہوسکا اور اس میں ملوث کئی افراد گرفتار ہوئے ۔ انھوں نے امریکی شہر برمنگھم کے ایک بیپٹسٹ چرچ میں عبادت کرنے والے بچوں کو بم مار کر ہلاک کیا ۔ اس کے بعد انھیں دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی مہم چلی جس میں یونیورسٹیوں کے کئی پروفیسر شریک تھے ۔
'کوکس کلاں' عروج و زوال کے مختلف مرحلوں سے گزری اور آج وہ مختلف ناموں سے امریکا میں کام کررہی ہے ۔ اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ تنظیمیں اپنی سرگرمیوں سے درحقیقت امریکی ایکتا کو تہس نہس کررہی ہیں ۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی انتہاپسند مذہبی تنظیموں نے بھی ان سفید فام امریکی تنظیموں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے افراد کا خیال ہے کہ وہ نسلی اعتبار سے 'خطرے' میں ہیں ۔ امریکی حکومتوں نے دنیا بھر کے لوگوں کے لیے امریکا کے دروازے کھول کر یہ امکان پیدا کردیا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد سفید فام امریکی کہیں اقلیت میں نہ بدل جائیں ۔ ان کو صرف افریقیوں سے ہی نہیں ایشیا کے لوگوں سے بھی 'خطرات' ہیں ۔ اس ذہنیت کے لوگ ایشیائیوں کو 'بہ طور خاص' نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ان میں برصغیر کے لوگوں کے ساتھ چینی، جاپانی، ویتنامی، کوریائی اور ملائی سب ہی شامل ہیں ۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ نائین الیون کے بعد ان تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہوا لیکن بارک اوباما جب پہلی مرتبہ امریکی صدر کے طور پر منتخب ہوئے تو ان لوگوں میں صف ماتم بچھ گئی ۔ وائٹ ہاؤس جو اب تک سفید فام امریکیوں کے لیے ایک 'مقدس' عمارت تھی اس میں رنگ دار صدر منتخب ہوکر پہنچ گیا تھا اور اب اپنی دوسری صدارتی مدت بھی پوری کررہا ہے ۔
وہ مرد اور عورتیں جو اس نوعیت کی انتہاپسند تنظیموں کے رکن ہیں یا ان سے گہری وابستگی رکھتے ہیں ان کا تعلق غریب طبقے سے نہیں ہے ۔ یہ بات اس لیے زور دے کر کہی جاتی ہے کہ کچھ عرصے تک یہ فرض کیا جاتا رہاہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں سیاہ فام امریکیوں یا ترک وطن کر کے امریکا آنے والے ایشیائیوں کی وجہ سے ملازمتوں میں کمی کا سامنا ہے ۔ تاہم اس بارے میں جب گہرائی میں جا کر تحقیقات کی گئیں تو اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا معاملہ نہیں بلکہ سفید فام نسل کی برتری اور بالادستی کا خبط ہے جس نے ان لوگوں کو ذہنی طور پر بیمار کر رکھا ہے ۔ امریکا میں یہ بیماری انیسویں صدی کے نصف آخر میں پھیلی ، کبھی عروج کو پہنچی اور کبھی زوال کا شکار ہوئی لیکن اس کے جرثوموں کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے زیر اثر نوجوان مرد اور لڑکیاں زیادہ آتے ہیں ۔
اپنے سے مختلف اور کمزور انسانوں سے نفرت، انھیں ختم کردینے کی خواہش اور ان کے ساتھ سفاکانہ اور توہین آمیز رویے اختیار کرنے کا رجحان شرفِ انسانیت سے گرا ہوا ہے ۔ ایک ایسے سماج میں جہاں حقوق انسانی کی مساوات اور انصاف کی بات کی جاتی ہو ، وہاں اس نوعیت کے انتہاپسند رجحانات کی موجودگی اور ان میں اضافہ ایک افسوسناک بات ہے ۔
اس بارے میں ایک امریکن ماہر معاشیات ڈیوڈ ووٹز کا کہنا ہے کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کچھ لوگ یہ رجحان کیوں رکھتے ہیں؟ اور اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ وہ کہتا ہے کہ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہم اس سلسلے میں کیا کرسکتے ہیں؟ اس جواب کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم اپنے اردگرد پھیلی ہوئی منافرت انتہاپسندی اور متشدد رویوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے پاس بھی کوئی ایسا جواب نہیں کہ جسے ہم دیانت داری سے دے سکیں ۔
گزشتہ چند دہائیوں کے درمیان ہم نے لوگوں کے ذہنوں کو مختلف بنیادوں پر زہر آلود کرنے والے دیکھے ہیں ۔ ان میں صرف وہی نہیں جو غربت کے مارے ہوئے ہیں، پچھلے دنوں ہم نے اپنی خوشحال اشرافیہ کودیکھا ہے جس کے لبوں سے صرف نفرت کا زہر ابلتا ہے ۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اس عمل میں خطرناک شدت پیدا ہوئی ہے ۔ یہ زہر ہمارے روادار سماج کو جس طرح مسموم کررہا ہے ، اس کے مظاہر ہم سب نے دیکھے اور سنے ہیں ۔ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر سطح پر نفرت کا یہ پھیلاؤ ہمیں کہاں لے جائے گا ۔
اب سے پہلے ہم ان لوگوں کو روتے تھے جو پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی محرومیوں کا انتقام کبھی مذہب اور کبھی رسم و رواج کے نام پر لیتے تھے لیکن اب ہمارے خوش حال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات بھی اس 'کارِ خیر' میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ کاش انھیں کوئی بتائے کہ نفرت ، مزید نفرت کو جنم دیتی ہے اور سماجی انصاف کے لیے بدکلامی اور کذب سے اوپر اٹھ کر ہی کچھ کرنا پڑتا ہے ۔