تھر میں موت ناچ رہی ہے مور خاموش ہیں

وطن عزیز پاکستان کا ایک حصہ تھرپارکر کے نام سے معروف ہے یہاں ایک عرصہ سے ایک رقص جاری ہے۔


Abdul Qadir Hassan November 15, 2014
[email protected]

اخباروں میں چھپی کتنی ہی خبریں ہیں جو کالم کا موضوع ہیں اور کتنے ہی سیاسی رہنما ہیں جو بذات خود ہر وقت کسی کالم کا موضوع رہتے ہیں لیکن گزشتہ ایک عرصے سے ایک موضوع میرے سر پر سوار ہے جس پر لکھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی لیکن خوشحال یا دو وقت کی روٹی والے پاکستانیوں کی مجھ سمیت بے حسی نے آج اسی موضوع پر لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کا ایک حصہ تھرپارکر کے نام سے معروف ہے یہاں ایک عرصہ سے ایک رقص جاری ہے۔

اس علاقے کے مشہور موروں کا رقص نہیں موت کا رقص۔ میرے کتنے ہی بچے اپنے تھر کو دیکھنے سے پہلے اور اپنے ارد گرد ناچتے موروں کا رقص دیکھنے سے پہلے اپنی معصوم آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لیتے ہیں قدرت نے ان کی بدقسمتی یا بعض انسانوں کی آزمائش کے لیے ان بچوں کو ہم سب کے لیے عبرت بنا دیا ہے۔ حیرت ہے کہ ارب پتی لوگوں کے پاکستان میں کچھ پاکستانی بچے بھوک سے مر جاتے ہیں اور اس سے بھی بڑی حیرت یہ ہے کہ کچھ با اختیار لوگ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔

کبھی کہتے ہیں کہ یہ بچے بھوک سے مرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ نہیں غربت سے مرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ نہیں یہ پیدائش کے وقت مر جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ بس مر جاتے ہیں تو ہم کیا کریں۔ یہ اس ضلع کے بلکہ اس صوبے کے سب سے بڑے حاکم وزیر اعلیٰ صاحب کی باتیں ہیں جو میڈیا کے شور و غل بند کرنے کے لیے یہاں اپنی کابینہ کا اجلاس کرتے ہیں اور شان و شوکت ملاحظہ ہو کہ ان کے ہمراہ 95 گاڑیاں بھی سفر کرتی ہیں اتنی دھول اڑاتی ہیں کہ کئی بچے اس گرد و غبار میں سانس بند ہونے سے ہی مر جاتے ہیں۔

تھر کے یہ بچے کیوں مرتے ہیں ان کے وزیر اعلیٰ نے ان کی موت کے متعدد اسباب بیان کر دیے ہیں اور عین ممکن ہے ان کے زرخیز ذہن میں ابھی اور اسباب بھی ہوں جن کی پردہ کشائی وہ بوقت ضرورت بعد میں کرتے رہیں گے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان کے یہ بچے اگر پاکستانی ہیں یعنی میرے اور آپ کے بچے ہیں تو کیا پاکستان میں فاقے اور غربت نے اتنا عروج پا لیا ہے کہ اس پر قابو پانا ممکن نہیں رہا اور ہمارے کروڑ پتی نہیں ارب پتی حضرات اپنے خزانوں پر زہریلے سانپ بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ ان سانپوں کی پھنکار سے پورا ملک گونج رہا ہے اس ملک کی حکمرانی بھی ان کے خزانوں میں بند ہے اور انھوں نے ان خزانوں کی مدد سے ملک بھر میں مزید لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ حکمران آفت زدہ پاکستانیوں کی جب مالی امداد کا اعلان کرتے ہیں اور میڈیا میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے تو اس امداد میں ان کے خزانوں کی ایک پائی بھی شامل نہیں ہوتی۔ سرکاری خزانوں سے یہ امداد دی جاتی ہے یعنی عوام کے خزانے سے عوام کی مدد کی جاتی ہے فی الحقیقت یہ لوگ ان قومی خزانوں کے منشی یا کسی دوسرے کارندے کا کردار ادا کرتے ہیں مگر نام اپنا لکھواتے ہیں کیونکہ یہ اختیار ان کے پاس ہے۔

آپ حکمرانوں کی اس کارگزاری اور سخاوت کو کسی لطیفے کے طور پر بیان کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ہے ہی لطیفہ کروڑوں روپوں پر ہونے والے ان حکمرانوں کے غیر ملکی دورے اور ملک کے اندر ان کے ٹھاٹھ باٹ تھر کے ان پاکستانی بچوں کو نئی زندگی دے سکتے ہیں اور ان کے اعمالنامے میں بھی کوئی نیکی درج کر سکتے ہیں۔

مجبور ہو جاتا ہوں پرانی مثالیں دینے پر۔ ایک شہزادہ میاں بیوی عید کی آمد پر پریشان ہو گئے۔ ایک بادشاہ کی بیٹی اور ایک بادشاہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ دیکھو عید آ رہی ہے اور بچیوں کے پاس صرف پرانے کپڑے ہیں میرے پاس تو اب کچھ بھی نہیں آپ ہی ان کے لیے نئے کپڑوں کا بندوبست کریں۔ اس بادشاہ کی جیب بھی خالی تھی چنانچہ وہ بیت المال میں پہنچے یعنی کسی کو اپنے حضور طلب نہیں کیا خود حاضر ہو گئے اور اپنی ایک مہینے کی تنخواہ ایڈوانس کی درخواست کی۔

بیت المال کے نگران نے عرض کیا کہ امیر المومنین آپ اس خزانے کے مالک ہیں جو حکم ہو گا اس کی تعمیل ہو گی۔ میں آپ کی ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس دے دیتا ہوں لیکن آپ ایک بات بتائیں کہ کیا آپ اس ایڈوانس کی واپسی یعنی ایک ماہ تک زندہ رہیں گے تا کہ ہم اسے وصول کر سکیں۔ یہ سن کر وقت کا یہ بادشاہ سر جھکا کر چلا گیا اور گھر جا کر بیوی سے کہا کہ بچیوں کے کپڑے دھو کر انھیں عید پر پہنا دینا نئے کپڑوں کا بندوبست نہیں ہو سکا۔ یہ بادشاہ تھا عمر بن عبدالعزیز جو ایک شاہی خاندان سے تھا اور ان کی بیگم بھی اسی شاہی خاندان سے تھیں۔

اپنے وطن کے مادی وسائل اور عمومی خوشحالی دیکھ کر میں حلفاً کہتا ہوں کہ آج بھی ہمارے حکمران اگر دیانت دار ہو جائیں اور عمر بن عبدالعزیز نہ بنیں معقول حکمران ہی بن جائیں جو دنیا کے کئی ملکوں میں آج بھی موجود ہیں تو کسی پاکستان کے بچے بڑے کے بھوک سے مرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جرمنی جو کل تک ہم سے مدد لیتا تھا آج اپنا حال برا کر کے اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ منہ پرے کر لیتا ہے۔ ہمارے ہاں روزانہ کے چوری ڈاکے عام ہیں اور قتل و خونریزی ایک معمول بن گیا ہے حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے لیکن ہمارے نہ مال محفوظ ہے نہ کسی کی جان کو امان حاصل ہے اور یہ سب کچھ برملا ہے اور حکمرانوں کو اس کا ہم عام آدمیوں سے زیادہ پتہ ہے مگر یہ محاورہ ایک حقیقت بن گیا ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

انتظامی لحاظ سے تھر کا ضلع سندھ میں ہے اور حکومت سندھ کی پہلی ذمے دار ہے مگر یہاں کے حکمرانوں کی آپ نے سیاست بازی کے سوا اور کوئی سرگرمی سنی ہے ہاں وہ ان بچوں کی موت پر لطیفہ گوئی ضرور کرتے ہیں اور اپنی انتہائی سنگدلی ظاہر کرتے ہیں اور جب کبھی باہر کے شور و غل سے مجبور ہو کر اس علاقے کی خبر لیتے ہیں تو ان کے جلو میں 95 موٹر کاروں کا ایک جلوس ہوتا ہے یہ ان مرنے والے بچوں کے والدین کا دل جلانے والی بات ہے۔ بے شرمی نہ بھی کہیں تو بے حسی کی انتہا ہے کہ انتہائی نادار پاکستانی ان کے سامنے مر رہے ہیں اور وہ قیمتی گاڑیوں کے قافلے لے کر ان مردہ بچوں کی خبر گیری کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔

انھیں کسی انسان کے بھوک بیماری اور بے کسی سے مر جانے کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ میں پھر اس حکمران کا ذکر کرنے پر مجبور ہو رہا ہوں جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ ملک شام کے ایک چرواہے کی بکری بھیڑیا مار گیا۔ چرواہے نے اس کا ماتم شروع کر دیا اتنا کہ اس کے بیٹے نے آ کر کہا کہ بابا یہ تو ہمارے ساتھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ آپ اس قدر رو پیٹ کیوں رہے ہیں۔

اس پر اس کے باپ نے جواب دیا کہ بیٹا میں بکری کو نہیں اس کے محافظ کو رو رہا ہوں جو اس وقت فوت ہو گیا ہے اور یہی وہ وقت تھا جب امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز کی دور دمشق میں وفات ہو گئی تھی۔ کیا تھر کے پاکستانی بچے کسی حکمران کی ذمے داری نہیں ہیں یوں تو وہ ہم سب کے بچے ہیں لیکن کسی حکمران کی ذمے داری عام آدمی سے بہت ہی زیادہ ہے۔ یہ وہ محروم بچے ہیں جنہوں نے نہ تھر کے صحرا کی بہار دیکھی اور اس میں ناچتے ہوئے مور دیکھے۔ صرف خوفناک بلکتی ہوئی موت دیکھی۔ خدا ہم سب پر رحم کرے اور ہمیں اس بے حسی کی سزا سے محفوظ رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں