آن لائن ایف آئی آر کا اندراج

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 5 جنوری 2015
advo786@yahoo.com

[email protected]

کراچی پولیس نے آن لائن ایف آئی آر کے اندراج کا آغاز کردیا ہے۔ اے آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ ماضی میں پولیس افسران جرائم کی شرح میں اضافہ اور اس کے اندراج کے باعث اپنی کارکردگی کے خوف سے عوام کی شکایات یا FIR کے اندراج سے کتراتے تھے جس کی وجہ سے FIR کے اندراج کے سلسلے میں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ انھوں نے بتایاکہ آن لائن FIR جیسے آسان ذریعے کی کمی بڑے عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔

جس کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کی داد رسی کے لیے کراچی پولیس نے اس طریقہ کار کو وضع کیا ہے تاکہ عوام کو یہ شکایت نہ رہے کہ جب وہ پولیس اسٹیشن جاتے ہیں تو ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ آن لائن FIR کا اندراج سے شہریوں کی مدد کی جاسکے گی، اس کے تحت آن لائن FIR کے لیے مدعی کو ایک سادہ فارم میں اپنے بارے میں اور جو واقعہ پیش آیا ہو اس کے بابت تمام معلومات دینی ہوگی ۔

جس کے بعد قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایف آئی آر کا اندراج کیا جائے گا اور اس طرح سے وہ جرائم جو ریکارڈ پر نہیں آتے تھے ان کا بھی اندراج ہوسکے گا۔ AIG پولیس نے بتایاکہ اس حوالے سے ہم نے ایک سماجی ادارے سے معاہدہ کیا ہے جو ہماری معاونت اور شہریوں کے حوالے سے رہنمائی کریگا۔ جھوٹی FIR درج کروانے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی۔ آن لائن FIR کے لیے ویب سائٹ www.karachipolice.gov.pk سے فارم ڈاؤن لوڈ کرینگے اور اس کی اطلاع 021-99225533 ایس ایم ایس 0300-8293335 فیکس نمبر 021-99225533 اور ای میل [email protected] پر دی جاسکے گی۔

کراچی پولیس کا آن لائن FIR کا اندراج کا اقدام ایک مستحسن فیصلہ ہے جس سے قانون پسند اور پولیس سے خوف زدہ شہریوں کو بڑی سہولت میسر آئے گی۔ اس سہولت کا دائرہ پورے سندھ اور پاکستان بھر تک میں وسیع ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں جرم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ لیکن FIR کی شرح جرم کی شرح کے تناسب سے بہت کم ہے۔

شہری اس کے اندراج میں اس لیے دلچسپی نہیں لیتے کہ پہلے تو FIR درج کرانا بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور اگر درج کرا دی بھی جائے تو ہونے والے نقصان کا ازالہ یا برآمدگی تقریباً ناممکن ہوتی ہے اور شہری تھانوں اور عدالتوں کے چکر کاٹتے رہ جاتے ہیں۔ تھانے کے ایس ایچ او اور دیگر عملے کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح FIR کے اندراج کو روکا جائے کیوں کہ FIR کے اندراج کے بعد پولیس قانونی کارروائی کے لیے پابند ہوجاتی ہے۔ کام چوری، کام کی زیادتی اور جرائم کی شرح کم سے کم دکھانے کے لیے پولیس ایسا کرتی ہے۔

FIR (First information Report) یا ابتدائی رپورٹ پولیس کی تحریر کردہ دستاویز ہوتی ہے، FIR کسی متاثرہ فرد کی طرف سے دائر کی جاتی ہے، پولیس خود بھی درج کرسکتی ہے یا واقعہ دیکھنے والا یا اس کی معلومات رکھنے والا شخص یا کسی متاثرہ شخص کا کوئی رشتے دار یا دوست وغیرہ ایف آئی آر درج کرا سکتا ہے، جس کے بعد آگے  کی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ جھوٹی FIR درج کرانے پر مدعی کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، کرمنل پروسیجر کوڈ کے تحت کوئی بھی فرد تھانے جاکر کوئی شکایت کرے تو تھانیدار کا فرض ہے کہ اس کا اندراج تھانے کے روزنامچے میں کرے گا۔

اگر شکایت سے جرم قابل دست اندازی پولیس ہونا ظاہر ہو تو وہ مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر تفتیش اور ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جسے رجسٹر رپورٹ میں درج کرنے کا پابند ہوتا ہے، FIR مدعی کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے اس کی تائید کے بعد اس پر مدعی کے دستخط لے کر ایک کاپی اس کو فراہم کی جاتی ہے۔ باقی کاپیاں عدالت اور پولیس ایس پی کو ارسال کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد پولیس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ جرم کی تحقیقات کرے، جائے وقوع کا معائنہ کرے، شواہد اکٹھا کرے، مجرموں کو گرفتار کرے، لڑائی کے مقدمات میں ہتھیار چوری کے مقدمات میں مال مسروقہ، اغوا قتل کے مقدمات میں مغوی، لاش کو برآمد کرے، چالان عدالت میں بھجوائے۔

تفتیش کا مقصد جرم کے ثبوت و شواہد اکٹھا کرنا ہوتا ہے لیکن عام طور پر تفتیش یا پولیس ریمانڈ کا مطلب ملزم کی مارپیٹ کی قانونی اجازت سمجھا جاتا ہے اور پولیس روایتی طور پر ایسا کرتی بھی ہے۔ وکلا بھی عدالتوں میں ملزمان کے پولیس ریمانڈ کی مخالفت میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ اگر ملزمان پولیس کے حوالے کردیے گئے تو ان پر مزید جرم لاد دیے جائیں گے۔ ایسا ہوتا بھی ہے، کیوں کہ ہماری پولیس میں نااہلیت اور کرپشن کا غلبہ ہے، ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں کہ بے قصور شہریوں کے علاوہ کمسن اور شیر خوار بچوں تک کی FIR کاٹ دی گئی، پولیس لاش، مغوی، مسروقہ مال واردات میں استعمال شدہ ہتھیار، شریک ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی تشدد کرنے کا راستے اختیار نہیں رکھتی۔

ایسا عمل کرنا یا گھروں میں کودنا گالم گلوچ خاندان کے دیگر افراد کو گرفتار کرنا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے، جب ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ پولیس نے تشدد کا نشانہ تو نہیں بنایا، اگر ملزم تشدد کی شکایت کرتا ہے تو عدالت اس کا میڈیکل کرنے کا حکم دیتی ہے، تھانہ میں ملزم کو گھر سے کھانا اور بستر لانے اور وکلا اور گھر والوں سے ملاقات کا حق بھی حاصل ہوتا ہے، پولیس جب قابل دست اندازی پولیس جرم میں کسی ملزم کو گرفتار کرتی ہے تو اس کو اس کی وجوہات سے آگاہ اور 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنے کی پابند ہوتی ہے لیکن پولیس کی جانب سے بے قصور شہریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ عدالتی چھاپوں کے ذریعے اپنے غیر قانونی طورپر زیر حراست لوگوں کی بازیابی کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

FIR درج کرانے کا کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ اگر متعلقہ تھانہ FIR درج نہیں کرتا تو پولیس کے افسران بالا کو اس کی شکایت کی جاسکتی ہے۔ اگر پھر بھی کارروائی نہ کی جائے تو متاثرہ شہری سیشن کورٹ میں کرمنل پٹیشن داخل کرکے داد رسی حاصل کرسکتا ہے، عدالتوں میں روزانہ اس قسم کی درجنوں درخواستیں دائر ہوتی ہیں۔ پولیس کی حالیہ آن لائن FIR درج کرنے کی سہولت سے شہریوں کو فوری اور سستی داد رسی کی سہولت میسر آسکے گی۔ جس سے وہ وکلا کی فیسوں اور دیگر اخراجات اور پولیس کو رشوت دینے اور FIR کے اندراج میں تعطل سے بھی

بچ سکیں گے اور عدالتوں پر غیر ضروری کام کے دباؤ میں بھی کافی ناکامی واقع ہوگی۔ FIR کے اندراج کے سلسلے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے بعض مجرم صرف اس بنیاد پر قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے پر کامیاب ہوجاتے ہیں کہ FIR کے اندراج میں تاخیر کردی جاتی ہے کیوں کہ FIR کے اندراج میں چند گھنٹوں کی تاخیر بھی ملزم کے حق میں جاتی ہے۔ FIR میں خاص طور پر ایک کالم اس سے متعلق ہوتا ہے کہ اگر FIR کے اندراج میں تاخیر کی گئی ہے تو اس کی وجہ تحریر کی جائے۔

کراچی پولیس نے آن لائن FIR کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کو مستقل مزاجی سے جاری رکھا جائے اور اس کا سلسلہ بتدریج پورے ملک تک وسیع ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں پیش آنے والی قباحتوں اور رکاوٹوں کا بھی سدباب ہونا چاہیے کیوں کہ اس نظام کو ناکام بنانے کے لیے بہت سی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ ہمارے سرکاری محکموں کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ کے ڈی اے کے ریکارڈ کو بھی کمپیوٹرائزڈ کیا گیا تھا لیکن 2000 میں Y2K کے کمپیوٹر وائرس دنیا میں کہیں اثر انداز نہیں ہوا، ماسوائے کے ڈی اے کے جس کے بعد یہ جواز بناکر یہ سسٹم ختم کردیاگیا تھا، اگر کراچی پولیس آن لائن FIR کے نظام کو استوار رکھنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ شہریوں کے لیے اس کا ایک بڑا تحفہ اور عوام دوستی کی مثال ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔