وادہ شوہ گل جمالہ زلمی خوب زنگوی

جہاں تک کوشش کا تعلق ہے تو مقابلہ تو دل ناتواں نے خواب کیا لیکن شکست و فتح نصیبوں سے ولے.


Saad Ulllah Jaan Baraq January 20, 2015
[email protected]

ہمیں اور کسی بھی بات کا غم نہیں ہے۔ غم ہو بھی کیوں کہ یہ دنیا ہے ہی غم کدہ، اسی لیے تو کہیں دل جلے بلکہ غم جلے غم زدہ، غمگین، غم شکار، غم گزار شاعر نے کہا ہے کہ

یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریک غم نہیں ہوتی

شعر کا دوسرا مصرعہ بھی ہے لیکن اسے راستے میں ایک نہایت ضروری بلکہ ارجنٹ کام پڑ گیا بلکہ آپ سے کیا چھپانا دونوں مصرعے اکٹھے ہی ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے خراماں خراماں چلے آرہے تھے کہ راستے میں ایک ٹوٹا پھوٹا دل فریاد کرتا ہوا نظر آیا چنانچہ وہ دوسرا مصرعہ اس کی دل جوئی کے لیے ٹھہر گیا اور یہ ٹوٹا ہوا کرچی کرچی دل وہ دل تھا کہ ہر کوئی اسے ''میرا دل میرا دل'' کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔

چلیے ایک اشارہ کر دیتے ہیں کہ یہ ایک محترمہ مکرمہ ممدوحہ، مضروبہ، محرومہ، مغمومہ، مجروحہ ''کا دل ہے'' جو دانستہ یا نادانستہ، بالواسطہ یا بلاواسطہ سہواً یا ارادتاً اندازاً یا تخمیناً تقریباً یا یقیناً جناب عمران خان کے ہاتھ سے ٹوٹ بھی گیا، پھوٹ بھی گیا بلکہ لوٹ کھسوٹ بھی گیا اور بے چاری درد کی ماری پیا بلہاری ہنجواں کی پچکاری مارتے ہوئے چیخی

اک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا

چنانچہ اوپر دیے ہوئے شعر کا دوسرا مصرعہ وہیں ٹھہر گیا کہ کم از کم اس بے چاری کا یہ گلہ تو جاتا رہے کہ دنیا غم تو دیتی ہے شریک غم نہیں ہوتی اور یہ کہ

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں

ایسالگتا ہے کہ اس دوسرے مصرعے نے محترمہ کی تھوڑی بہت اشک شوئی کر لی ہو گی، اس لیے وہ دیکھیے چلا آرہا ہے

کسی کے دور جانے سے محبت کم نہیں ہوتی

بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ کسی کے دور جانے سے ''ہی'' محبت کبھی کم نہیں ہوتی، ہمیشہ جواں اور رواں دواں رہتی ہے ۔ خود ہم پر بھی یہ سانحہ گزرا ہے جب سے، آہ ۔۔۔ زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا ۔۔۔ کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے ۔۔۔۔ مطلب یہ کہ جب سے ہماری اور اس قتالہ عالم، حسن اسود، کالی دیوی کنڈولیزا رائس کے درمیان فراق کے ساتھ سمندر اور آٹھ پہاڑ حائل ہوئے ہیں تب سے ہماری محبت میں کمی کے بجائے دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اگر کہیں کوئی بھینس بھی دکھائی دے جائے تو اس کی طرف دوڑتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی لاٹھی والا ''بش'' بن کر راستے میں کھڑا ہو جاتا ہے اور ہم اپنے دل کے ارمان آنسوؤں میں بہانا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کسی نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

ویسے دل کے ٹکڑے کرانے والی محترمہ ممدوحہ مضروبہ مجروحہ مغمومہ نے بھی ایسا لگتا ہے کہ اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو سیمٹ لینے اور فیویکول لگانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے کیوں کہ اس کے دل ٹوٹ جانے کی غمگین، اندوہ گیں، اشک آورین خبر میں یہ خوش خبری بھی ہے کہ اب وہ بھی عمران خان کی طرف سے مایوس ہو کر شادی کر ہی لے گی۔ ہم اپنی طرف سے محترمہ کو تسلی دیتے ہیں کہ دل چھوٹا نہ کرے بلکہ جتنا ہو سکے بڑا کرنے کی کوشش کرے اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔۔۔۔ اور جب اس طرح سے ہو جاتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔۔۔ تو تنہا نہیں پھرنا چاہیے سردیوں کی شاموں میں کیوں کہ یہ تنہا شامیں بڑی جان لیوا اور ایک سیاہ رات کا پیش خیمہ ہوتی ہیں، اس لیے دعا کریں کہ

اکیلی شام بہت ہی اداس کرتی ہے
کسی کو بھیج کوئی میرا ہمنوا کر دے

جہاں تک کوشش کا تعلق ہے تو مقابلہ تو دل ناتواں نے خواب کیا لیکن شکست و فتح نصیبوں سے ولے ۔۔۔ دل کو تسلی دینے کے لیے یہ بھی سوچیے کہ ایک انار تھا اور نہ جانے کتنے بیمار تھے، اگر انار کو توڑ کر دانہ دانہ بھی بانٹا جاتا تب بھی ۔۔۔ ممکن نہ تھا کہ ہر کسی کو دانہ مل ہی جائے بلکہ یہ بھی تو بزرگوں نے کہا ہے کہ ہنسی ایک پھول ہے جو چند دن بہار جان فزا دکھلا کر ''مرجھا'' جاتے ہیں لیکن آنسوؤں کے ''گہر'' ہمیشہ بیش قیمت رہتے ہیں، شادی تو محبت کا ایک المیہ اختتام ہوتا ہے یعنی

عاشقی قید شریعت میں جو آجاتی ہے
جلوہ کثرت اولاد دکھا جاتی ہے

محبت کی تاریخ گواہ ہے کہ جو محبت کرنے والے امر ہوئے ہیں وہ ملاپ کی سولی سے بچ کر فراق کے بام پر چڑھ چکے ہیں۔ خود سوچیں اگر لیلیٰ کی شادی مجنوں سے ہو جاتی تو زیادہ سے زیادہ آبادی میں اضافہ کرتے لیکن اب امر ہو چکے ہیں۔

اگر فرہاد کی وہ محسن بڑھیا اسے امر ہونے کا صحیح راستہ نہ سمجھاتی تو آج اس کی داستان تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔ ہم خود اپنے بارے میں وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہماری بیل منڈھے چڑھتی تو اب تک سوکھ ساکھ کر ہوا میں بکھر گئی ہوتی اور ہم کسی امریکی جیل میں ہوتے کیوں کہ شادی کے دو چار ہفتے یا مہینے بعد ہر شادی کا اختتام کسی امریکی عدالت میں ہوتا ہے۔

جہاں بے چارے شوہر کا سب کچھ رکھوا کر مطلقہ یا مطلوقہ کسی اور شکار پر نکل جاتی ہے اور بے چارا شوہر زندگی ڈھو ڈھو کر اسے اور اس کے اگلے شوہر کو پالتا پوستا ہے، پاکستان میں ویسی صورت حال نہیں ہے۔ویسے آپ نے یہ فیصلہ بہت اچھا کیا کہ اب آپ بھی وہ کر ہی ڈالیں گی جو آپ نے ''کبھی'' نہیں کیا ہے یعنی پیا گھر سدھار لیں گی وہ تو ہم نہیں جانتے کہ وہ خوش نصیب کون ہو گا لیکن کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے اور یہ بہت اچھا ہو گا ۔لیکن ہم ایک مرتبہ پھر اپنا مشورہ تیسری بار بھی دہرائیں گے کہ ''ملن'' سے بہتر فراق ہے اس لیے جس طرح اس سے پہلے اتنا عرصہ شادی کے معاملے میں دھیرج اور صبر سے کام لیا ہے تھوڑا اب بھی ''صبر'' سے کام لیجیے ۔

ویسے اچھا ہوتا کہ آپ ''اسپورٹس مین'' اسپرٹ کا مظاہرہ کرتی ہوئی دعا اور نیک توقعات کا اظہار کرتیں ۔۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، اگر آپ نے بھی طیش میں آکر شادی کر لی تو خطرہ ہے کہ وہ ''خبر'' آپ کی آخری خبر ثابت ہو کیوں کہ اب تک تو آپ کی ساری رونق ''خبروں'' کی برکت سے قائم تھی لیکن شاید کرنے کے بعد ۔۔۔۔ وہ ایک کہاوت ہے نہ کہ موٹر سائیکل کا ''حادثہ''اکثر صرف ایک ہی بار ہوتا ہے کیونکہ حادثہ ہونے کے بعد آدمی یا تو رہتا ہی نہیں اور یا اتنا محتاط ہو جاتا ہے کہ ۔۔۔۔ اور یہ شادی کا حادثہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ کی شادی پر تو ہمیں مکمل یقین ہے کہ تمام خبروں اسکینڈلوں اور چہ میگوئیوں کی ماں ہی مر جائے گی۔ اس مضمون کا ایک گیت بھی پشتو میں ہے کہ

وادہ شوہ گل جمالہ زلمی خوب زنگوی

یعنی شکر ہے گل جمالہ کی شادی ہو گئی ہے، اب بے چارے ''نوجوان'' بھی شب فرقت میں جاگنے کے بجائے سو جائیں گے کہ وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے۔

مقبول خبریں