سائیکل برآمد ہو گئی
بحران تو کئی ہیں اور جاری ہیں لیکن پٹرول کے بحران نے مخلوق خدا کو بالکل عاجز کر دیا ہے
بحران تو کئی ہیں اور جاری ہیں لیکن پٹرول کے بحران نے مخلوق خدا کو بالکل عاجز کر دیا ہے کہ ہماری زندگی پٹرول پر ہی رواں دواں ہے کہ گاڑی پٹرول سے چلتی ہے سوائے میری پرانی بلکہ قدیم سائیکل نے جو اپنی سواری کے زور پر چلتی ہے۔ میں نے اپنی یاد گار زمانہ سائیکل کا ذکر کیا اور اس انداز میں کہ وہ اب کہاں ہوگی اس کا ذکر ہی سہی لیکن سرگودھے سے میرے بھتیجے کا فون آیا کہ وہ سائیکل نہ صرف بخیروعافیت ہے بلکہ ابھی تک برسوں بلکہ برسہا گزر جانے کے باوجود چل رہی ہے۔
میں جب بھی اسے مرمت کے لیے مستری کے پاس لے جاتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ جس قدر آپ اس کی مرمت پر خرچ کرتے ہیں اس سے تو نئی سائیکل آ سکتی ہے مگر میں اس سے کہتا ہوں کہ تم اس سائیکل کو بھی ایک اور قابل مرمت بیمار سائیکل سمجھتے ہو جب کہ اس کی ایک تاریخ ہے اور کبھی اسے میرے چچا نے اس سے تنگ آ کر مجھے دے دی تھی تب سے میں اسے سنبھال کر رکھ رہا ہوں اور اسے شوقیہ مرمت کراتا رہتا ہوں مگر اب جب پٹرول ختم ہونے کا نادر موقع آیا ہے جس کی کوئی توقع نہیں تھی تو لگتا ہے میں نے اسے کسی ایسے ہی مشکل بلکہ نا ممکن وقت کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا کہ کوئی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب پٹرول بھی ختم ہو جائے گا اور آمدورفت کے لیے یہ سائیکل ہی ایک ذریعہ بن کر باقی رہ جائے گی، موٹریں وغیرہ اپنی لاکھوں کی قیمت کے ساتھ اس دو تین ہزار والی سواری پر رشک کریں گی۔
کیا کہنے جناب میاں صاحب کے دور حکومت کے جب ان کی آنکھوں کے سامنے پٹرول تک ختم ہو جائے گا اور وہ اس کے خاتمے کی انکوائریاں کرتے رہ جائیں گے یا کئی افسروں کو معطل کر کے دل کو تسلی دے لیں گے مگر کسی وزیر کو ناپسندیدہ نظر سے بھی نہیں دیکھیں گے برطرفی وغیرہ تو دور کی بات ہے۔ عربی زبان کے لفظ وزیر کے معنی ہیں بوجھ اٹھانے والا لیکن ہمارے وزیروں کا بوجھ وہ خود نہیں اٹھاتے ان کے ماتحت اٹھاتے ہیں جنھیں افسر کہا جاتا ہے۔ طے یہ ہوا ہے کہ پٹرول کا بحران کسی وزیر کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ یہ ایک سرکاری محکمے اوگرا کی ذمے داری ہے اور وزارت کے اونچے افسر چونکہ اس صورت حال سے بے خبر رہے یا انھوں نے اسے بخوبی پیدا ہونے دیا اس لیے ان افسروں اور اوگرا کو معطل کر دیا جائے۔
ذمے دار کوئی بھی ہے لیکن پاکستان کے عوام معطل ضرور ہو گئے ہیں۔ عوام کی فی الفور معطلی کا حکم حکومت وقت نے اجتماعی طور پر دیا ہے جس کا کسی وزیر پر نہیں بلکہ سرکاری ملازمین اور عوام پر ہی بس چلتا ہے جو چل رہا ہے۔ عورتیں اور بچے بھی ہاتھوں میں بوتلیں لے کر پٹرول پمپوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ جناب وزیراعظم میاں نواز شریف چونکہ ایک اور غیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے ہیں اس لیے وہ اپنی رعایا کی اس حالت کو دیکھ نہیں پا رہے ورنہ اسے مزید معطل کر دیتے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ پٹرول کا بحران بہت جلد ختم ہونے والا نہیں جس کی اطلاع ہماری حکومت دے رہی ہے اس کے ختم ہونے اور پھر نارمل ہونے میں ابھی وقت لگے گا اس سے کہیں زیادہ جتنا ایک وزیر کو وزارت کا حلف لینے پر لگتا ہے اور پھر اپنی وزارت کو رسوا کرنے پر۔ ایک پرانی اصطلاح ہے کہ بادشاہ راتوں کو بھیس بدل کر شہر کا معائنہ کرتا تھا تاکہ وہ ماتحتوں کی رپورٹوں پر ہی نہیں اپنی نظروں سے بھی حالات کو دیکھ لے۔ یہ بادشاہ دوسرے دن اپنی ذاتی معلومات کے مطابق عمل کا حکم دیا کرتے تھے۔
میں یہاں اس مسلمان حکمران کا ذکر نہیں کرتا کہ اس جیسا کوئی دوسرا نہ آیا کہ رات کو گشت کرتے ہوئے ایک گھر سے بچے کے رونے کی آواز آئی تو بادشاہ پریشان ہو گیا کہ میرا یہ بچہ کیوں رو رہا ہے۔ اس نے دروازے پر دستک دی کہ کیا بات ہے بچہ رو کیوں رہا ہے۔ اس کی ماں نے بتایا کہ 'عمر' نے دودھ پیتے بچوں کا وظیفہ مقرر نہیں کیا اس لیے میں اس کا دودھ چھڑا رہی ہوں اور یہ روتا ہے۔ یہ سن کر یہ بادشاہ خود ہی رونے لگ گیا اور اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ عمر تم نے کتنے ہی معصوموں کو رلا دیا۔ فوراً حکم دیا کہ اب ہر بچے کو بھی سرکاری وظیفہ ملا کرے گا۔
حضرت عمر فاروقؓ کی مثال تو آج بھی دنیا کے کئی غیر مسلم ملکوں میں ان کے نام پر جاری ہے اور حکمرانی کی تاریخ کی ایک نادر مثال ہے لیکن خدا و رسولؐ کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک پاکستان میں کوئی حکمران زبانی کلامی بھی اس ملک کے عوام سے ہمدردی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ اپنے متعلقہ وزیروں کو الٹا بچاتا ہے۔ اگر پٹرول جیسے بحران کا اس کا متعلقہ وزیر بھی ذمے دار نہیں ہے تو اور کون ہے، ہاں اگر عوام ہیں تو ان کو تو سزا مل رہی ہے اور ملتی چلی جا رہی ہے جب کہ اس کے وزیراعظم پھر ایک غیر ملکی دورے پر روانہ ہو رہے ہیں اور تمام بحرانوں سے فارغ ہو کر سوئٹزر لینڈ کے دورے کی خصوصی تیاریوں میں مصروف ہیں اس لیے کہ وہ پٹرول یا کسی دوسرے بحران کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ اصل ذمے دار وہ عوام ہیں جنہوں نے انھیں ووٹ دیے تھے۔
میری دوڑ تو اب صرف اخباروں تک ہے اوراگر بجلی ہو تو ٹی وی تک بھی مجھے یوں لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف ان دنوں کچھ بجھے بجھے سے ہیں ان کا کارکن قسم کا مزاج مطمئن نہیں ہے اور پٹرول کا بحران تو ایسا ظالم ہے کہ اس نے پوری قومی زندگی کو معطل کر دیا ہے جس میں خود میاں شہباز شریف بھی شامل ہیں لیکن وہ چھوٹے بھائی ہیں اور چھوٹے بھائی کے بارے میں فارسی کی ایک مثال مشہور ہے جو یہاں بیان نہیں کی جا سکتی البتہ میاں صاحب اپنے ساتھی شعیب بن عزیز سے پوچھ سکتے ہیں اور لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور مجھے بھی یاد کرسکتے ہیں۔
دونوں بھائی آدمی تو اچھے تھے مگر انھیں کوئی ایسے کاریگر لوگ ٹکر گئے ہیں کہ ان کی عوامی اور مجلسی خوبیوں پر دبیز پردے ڈال دیتے ہیں جن کے پیچھے وہ گم ہو گئے ہیں اور جو باہر ہیں وہ کسی نہ کسی قومی بحران کی لپیٹ میں ہیں جو کمبل کی طرح ان کو چھوڑتا نہیں ہے مگر میری سائیکل کی برآمد کی طرح اب انھیں بھی کسی بحران کی پروا کی ضرورت نہیں ہے اللہ نے ان کو اتنا کچھ دے دیا ہے کہ اگر پرانے زمانے میں ہوتے تو ان کے نام پر توانگری کی کئی مثالیں بن چکی ہوتیں اور مشہور ہوتا کہ ان کے خزانوں کی چابیاں چالیس اونٹوں پر لادی جاتی ہیں مگر جب سے مجھے اپنی سائیکل زندہ و سلامت مل گئی ہے مجھے اب کسی قارون کی پروا نہیں۔ جہاں بھی جانا چاہوں گا خواہ وہ جاتی عمرہ کی طرح دور بھی ہو سائیکل کا پیڈل گھماتا آزادانہ پہنچ جاؤں گا۔ مجھے اب کسی کی کیا پروا۔