پرندے ‘درخت‘ آدمی سب مشکل میں ہیں

انتظار حسین  پير 16 فروری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کب سے یہ ریت چلی آ رہی تھی کہ دور کی سرزمینوں سے پرندوں کے قافلے لمبی پرواز کر کے ہرج مرج کھینچتے ہمارے دیار میں آن اترتے تھے۔ بلوچستان اور پنجاب کے خاص علاقے ان کے پسندیدہ مقامات تھے۔ اپنے علاقوں کی بے پناہ سردی سے پناہ مانگ کر ادھر کا رخ کرتے تھے۔ قطار اندر قطار آتے اور یہاں کی نرم گرم فضا میں پر پھیلا کر چرتے چگتے۔ موسم کی تبدیلی کے ساتھ واپس اپنے دیار چلے جاتے۔ یہ پرندے جنھیں تلور کہتے ہیں ہمارے مہمانان عزیز کی حیثیت سے یہاں اچھا وقت گزارتے۔ ادھر وہ خوش ادھر ہم خوش۔ مگر زمانے کا چلن ایک سا تو نہیں رہتا

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

ادھر اچھے خاصے سالوں سے دوسرے قسم کے مہمان ان مہمانوں کے آنے سے پہلے آن اترتے ہیں۔ یہ پرندے ان مہمانوں کے شکار بن جاتے ہیں۔ ادھر ہم حیران ہیں کہ ابھی تک ان پرندوں کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ کیا سوچ کر اسی اپنی پرانی ریت کے مطابق اڑ کر یہاں پہنچتے ہیں۔ انھیں کچھ بسنت کی بھی خبر ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

خیر اڑنے کی حسرت تو پوری ہو جاتی ہے۔ یہاں اتر کر بے حس شکاریوں کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔

ان سادہ دل پرندوں کی اب تک تھوڑی عقل آ جانی چاہیے تھی۔ اب تو یہ زمین اپنے باسیوں پر تنگ ہے۔ مسجدوں میں نمازی بیچ نماز کے لہولہان ہو جاتے ہیں۔ ادھر لڑکیاں اسکول جانے کے لیے گھروں سے نکلتی ہیں تو گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ اور ان کے اسکول نذر آتش ہوجاتے ہیں۔ اس سرزمین کے فرزند اپنے گھروں میں محفوظ نہیں۔ مسافر پرندے یہاں آ کر کیسے سکھ پائیں گے۔ ان کے آنے سے پہلے یہاں شکاری آن پہنچتے ہیں۔ انھیں کھلی چھٹی ہوتی ہے کہ جتنے پرندوں کو شکار کر سکتے ہو شکار کر لو۔ یہ جو ماحولیات کے ماہرین ہیں وہ ضرور ان کے حق میں شور مچاتے ہیں مگر شور مچاتے رہیں۔ کس کے کان پر جوں رینگتی ہے۔

سنا ہے کہ اس برس انھوں نے زیادہ شور مچایا ہے اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ وہاں تو فیصلے ہوتے ہوتے ہی ہو گا۔ ادھر ان صاحب ثروت شکاریوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اور اس کام کے لیے لائسنس جاری کرنے والوں نے ان کے نام لائسنس جاری کر دیے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہر مہمان کے نام علاقے الاٹ کر دیے ہیں کہ یہ ضلعے ہیں۔ یہاں شوق سے شکار کھیلو اور پرندوں کو بھون بھون کر کھاؤ۔ ماحولیات والے دہائی دے رہے ہیں کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ملکی قانون اور بین الاقوامی دونوں کی خلاف ورزی ہے مگر قانون چہ کتیست کہ پیش مرداں می آید۔ قانون چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ مرد اسے کب گردانتے ہیں۔ اب دیکھیں عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے۔

یہ تو مسافر پرندوں کا احوال تھا۔ خود اس دیار کے پرندے کونسے سکھ میں ہیں۔ سندھ کا وہ گوشہ تھرپارکر جو موروں کی جنت تھا اور سدا موروں کی جھنکار سے گونجتا رہتا تھا وہاں مور مرنے شروع ہو گئے۔ بتایا گیا کہ انھیں کوئی موذی بیماری لگ گئی۔ کیسے لگ گئی۔ ابھی موروں کے مرنے پہ وہاں کے باسی کڑھ رہے تھے کہ ان کے بچے مرنے لگے۔

ان کا مرض واضح تھا بھوک۔ اور بھوک تو غریبوں کا لاعلاج مرض ہے۔ پیٹ بھروں کے پیٹ میں اترنے سے کچھ بچے تو غریب کے پیٹ میں کچھ جائے اور ان کی بھوک مٹے۔ غریب لوگ فریاد کرتے رہے۔ مگر بھوک کا علاج اتنا آسان نہیں ہے۔ سو بھوک زور پکڑتی رہی اور بچے مرتے رہے۔ افسوس ہے تھرپارکر کے موروں پر اور تھرتھر پار کے بچوں پر۔

اور وہاں درخت۔ پاکستان کے درخت جا بجا مشکل میں ہیں۔ جنگل کے جنگل کٹ گئے۔ یہ خاموش فریادی زبان حال سے فریاد کرتے رہے۔ ان کی خاموش فریاد سننے کے لیے کس کے پاس کان ہیں۔ یہاں پھر وہی ہوا کہ ماحولیات والوں نے بساط بھر احتجاج کیا‘ فریاد کی‘ درختوں کے کٹنے سے کیا کیا نقصان ہوں گے‘ یہ بتانے کی بہت کوشش کی۔ ہر کوشش رائیگاں گئی۔

ہاں لاہور شہر میں سڑکوں کی توسیع کے نام پر درخت کاٹنے کا عمل کب سے جاری ہے۔ یہاں درختوں کے کچھ حمایتی بھی ہیں۔ وہ ہر ایسے منصوبے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں مگر ان کی دال مشکل ہی سے گلتی ہے۔ ارے ہمارے دیکھتے دیکھتے لاہور کی کتنی سڑکوں کے درخت کٹ گئے

میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
اور ہم کالم لکھنے کے سوا کچھ نہیں کرسکے۔

لیجیے کیا شعر یاد آیا

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

مگر وہ ہزارہا شجر اب کہاں ہیں۔ کتنے کٹ گئے۔ کتنے کٹنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ مسافر غریب کہاں جائے۔ درختوں کے سائے سمیٹتے چلے جا رہے ہیں اور دھوپ تیز ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ہاں ابھی پچھلے دنوں ہم نے کسی اخبار میں کسی بیان باز کا ایک بیان پڑھا کہ اگر آج کے ایسے منصوبوں میں مین میخ نکالنے والے شاہجہاں بادشاہ کے زمانے میں ہوتے تو تاج محل کبھی نہ بنتا۔ بات تو ٹھیک ہے مگر ٹھیک بات تو یہ بھی ہے کہ اگر شیر شاہ سوری اس زمانے میں ہوتا تو سڑک تو اسے ضرور بناتی تھی۔ مگر سڑک کی توسیع اور تعمیر کے نام پر وہ درختوں کا قتل عام نہ کرتا۔

مگر کیا کیا جائے آج کا زمانہ بھی اچھا خاصا اونٹ ہے جس کی ہر کل ٹیڑھی ہے اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔