مرزا غالبؔ کا پیام تشنہؔ بریلوی کے نام

کائنات میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ اس طرح کہ اب ای میل وغیرہ کا سلسلہ عالمِ بالا سے بھی قائم ہو گیا ہے


تشنہ بریلوی February 19, 2015
[email protected]

کائنات میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ اس طرح کہ اب ای میل وغیرہ کا سلسلہ عالمِ بالا سے بھی قائم ہو گیا ہے۔ لہٰذا میں نے مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ سے رابطہ کیا اور ایک تنقیدی محفل میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا ۔ شاعرِ اعظم کا حسب ذیل جواب موصول ہوا۔

''میرے مشفق و محترم' ذی حشم۔ حضرتِ تشنہ بریلوی، خدا آپ کو سلامت با کرامت رکھے۔ ہر چند کہ جناب سے میرا کوئی رشتہ ناطہ، کوئی علاقہ یا واسطہ نہیں، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ میرا اور آپ کا ایک معاملہ ہے، ایک سلسلہ ہے، یعنی شاعری و سخن طرازی جو غیریت دور کرتی ہے اور اجنبیوں کو مکالمے پر مجبور کرتی ہے۔ حضرت کا نوازش نامہ نرالے انداز سے آیا۔ دل کو بھایا۔

''جناب والا، صورتِ حال ایسی ہے کہ یہاں ہر طرح کی لذت ہے، کیوں نہ ہو کہ یہ جنت ہے۔ مگر شاعر تو پھر شاعر ہے۔ ایک دن یہ کیفیت گزری کہ یہ حقیر پُر تقصیر خلعتِ ہفت پارچہ پہنے، جیغہ سر پیچ ، مسالائے مروارید سجائے ایک شیش محل میں بیٹھا دل بہلانے کی سعی کر رہا تھا کہ ایک بل کھاتی حور کا گزر ہوا۔ کیا سراپا تھا۔ یعنی:۔

وہ قامتِ زیبا کہ کہے دل یہ مچل کر
ہے فتنۂ محشر بھی ترے قد سے فزوں تر

پھر اُس توبہ شکن کو دیکھ کر میرے دل میں شوخی آئی اور اپنا یہ شعر پڑھا:۔

غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں مُنہ سے مجھے بتا کہ یوں

وہ نوخیز تو حق دق رہ گئی۔ اُس عفت مآب پیکرعصمت شباب 'وہ ایسی بے باکیاں کاہے کو سُنی ہوں گے۔ اُس کی آنکھوں میں بجلیاں کوندیں۔ وہ مسکرائی۔ لجائی پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر کھلکھلائی۔ میری مراد برآئی۔ لیکن میرے کرم فرما،روہیل کھنڈ کے لٹھ بند حضرت تشنہ بریلوی! ٹھیک اُسی گھڑی داروغہ رضواں بھی شیش محل کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اُس نے ہزار آئینوں کے درمیان سے یہ منظر دیکھ لیا (جیسا کہ شہنشاہ ِ ہند، مہابلی جلال الدین اکبر نے، جو مغل اعظم بن کر، سُنا ہے پردۂ سیمیں پر بھی جلوہ گر ہوئے، آئینہ درآئینہ اپنے شیخو اور لونڈی انارکلی کی نظربازیاں تاڑ لی تھیں)۔ شہنشاہ نے تو روتی دھوتی، آنسو پروتی، گیت گاتی، عشوے دکھاتی کنیز کو دیوار میں چُنوا دیا تھا (بزدل شہزادہ شیخو کے بغیر، حالانکہ درحقیقت وہ قرّم ساق اِس سزا کا زیادہ مستحق تھا) لیکن داروغۂ جنت نے اُستادِ شاہ کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا وہ بھی خوب داستان ہے اور درخور ِبیان ہے۔

''ہانپتا کانپتا رضوان میرے پاس آیا اور یوں گویا ہوا۔ ''لاکھوں کروڑوں آئے مگر تم کو ہم سمجھ نہ پائے۔ اب تو یہاں نہیں رہ سکتا۔ پس اس سالار سخن، غالبِ پُرفن میں تجھے داروغۂ جہنم کے حوالے کرتا ہوں۔''
''اس پر فوراً مجھ سے دو شعر سرزد ہوئے یعنی قطعہ بند۔ جنت میں میری پہلی کاوش:۔

یاں شعر بھی کہنے کا نہیں کوئی سہارا
ہو گلشِ رضواں میں بھلا کیسے گزارا
یکسانیتِ خُلد سے اکتا گئے یارب
دنیائے تگ و دو میں ہمیں بھیج دوبارہ

''ساتھ ہی، اے سُرمہ فروشِ سخن پرور، مجھے آپ کا دعوت نامہ بھی یاد آ گیا لہٰذا میں اس طور سے عرض گزار ہوا۔'' اے ناداں داروغۂ رضواں۔ توگھاٹے میں رہے گا اور منہ کی کھائے گا۔ تو نے اگر مجھے جنت سے دوزخ میں بھیجا تو کیا ہو گا۔ میں بتاتا ہوں۔ میں جب وہاں پہونچوں گا تو عجب منظر ہو گا۔ ہرطرف ھاھاکار شور پکار۔ سخت پہرے' کرخت چہرے۔ آگ۔ شعلے دھواں، الحفیظ والا ماں۔ جن بھوت بھُتنیاں، چُڑیلیں، پچھلی پائیاں میرے گرد جمع ہو جائیں گی۔ داروغہ جہنم مجھے چاروں طرف نچائے گا۔ آگ میں گھمائے گا۔ خوب خوب جلا کے کوئلہ بنائے گا مگر اس دُرگت میں بھی میری زباں پر اپنا یہ شعر ہوگا:۔

ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو لذتِ عذاب میں

''ایک سناٹا چھا جائے گا۔ داروغۂ جہنم منہ کھولے مجھے گھورے گا۔ چڑیلیں، پچھل پائیاں اور بلائیں سانس روکے مجھے تک رہی ہوں گی پھر ایک دوسری کو دو ہتڑ مار کر چیخے گی۔ ''اری چھنال بتا اے بھئی بھونچا کا بکت اے۔'' دوسری قطامہ پہلی کی گردن میں اپنے ناخن بھونکتے ہوئے یوں پھوٹے گی ''اری جنم جلی۔ آفت کی پلی۔ یہ مُردار ایک پاگل پریمی ہے۔ کہوے اے کہ بھوبل میں جل کر مجھے تو مجا آ ریا اے اور جلاؤ۔ اے لگت اے کہ میری مَسوکا میرے سے چمٹی ہوئی ہے، وہ مرچ بھی ایسی ہی بُھرنٹا ہے۔ میرا پریم سچّا ہے۔''

''میرے شعر کی یہ تفسیر سن کر سب ہکّا بکّا رہ جائیں گے۔ پھر اک دم پھٹ پڑیں گے۔ ہنستے ہنستے دہرے ہو جائیں گے۔ چڑیلیں اور بھتنیاں زبانیں ہلا ہلا کر، دیدے گھما گھما کر باہیں پھیلا کر داروغۂ جہنم کا ایسا گھناؤنا مذاق اڑائیں گی کہ وہ ناہنجار رو دے گا۔ پھر ہاتھ جوڑ کر مجھ سے کہے گا۔ ''اے بدحواس و بدقماش۔ یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ جہنّم تو عذاب کی جگہ ہے۔ یہ مقام ِ سزا ہے مگر تیرے لیے تو مزہ ہی مزہ ہے۔ بہروپیے، پلٹ جا۔''

''لہٰذا نہ کر عجلت اے داروغۂ جنت۔ جہنم کے بجائے مجھے زمین پر اتار۔ یاد کر کہ 66 سال پہلے بھی میں جنت سے دنیا میں گیا تھا۔ بلاوا لاہور سے آیا تھا۔ پنجاب کا پایہ تخت تو سکھّاٹ ہی کے بعد سے ہی علم و ادب کا گہوارہ بلکہ روشن ستارہ بن گیا تھا۔ دلّی کی جگہ لے چکا تھا۔ لاہور کیا تھا ایک لہلہاتا ہوا گلزار ِصدا بہار تھا۔ زندہ دلان و نیاز مندان سے بھرا ہوا۔ حلقۂ اربابِ ذوق اور دوسری محفلوں سے سجا ہوا۔ اس وقت ایک شخص کنہیا لال کپور نے کہ جو انگلستانی زبان پڑھاتا، پنجابی بولتا اور اردو لکھتا تھا۔ ایک شاعر موسوم بہ قیوم نظرکی معاونت کے ساتھ ایک چُلبُلا ناٹک لکھا تھا۔

بنام ''میرزا غالب ترقی پسند شعراء کی محفل میں'' وہاں میری نئے شاعروں ن۔ م۔راشد ۔ دیومالائی میرا جی، فیض احمد فیض وغیرہ سے ملاقات ہوئی تھی جن کا کلام بے لگام سُن کر میں ششدر رہ گیا تھا۔ دریائے حیرت میں بہہ گیا تھا اور ''یُوں کبوتر بول'' کی بانگ کے درمیاں بہ مشکل اپنا آپا لے کر بھاگا تھا۔ سو اے داروغہ بے شعور، عقلِ سلیم سے کوسوں دُور، اب پھر یہ ہُڑک ہے کہ عالم آب وگل کا قصد کروں اور ہو سکے تو وہیں رہ جاؤں۔ اب تو سُنا ہے کہ وہاں کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ ایک رنگین ڈبہ فرنگ کی ایجاد ہے جس سے ہر دل شاد ہے۔ لگتا ہے سامنے مغنیہ تان لگا رہی ہے اور ہندنی ڈومنی نرت دکھا رہی ہے بھاؤ بتا رہی ہے۔ پریم راگ الاپ رہی ہے

مدھو بن میں رادھیکا ناچے
گردھر کی مُرلیا باجے

ڈومنی جب اپنے لہنگے کو کمھار کا چاک بنا کر بنگو کی طرح ناچتی ہے تو دیکھنے والے مدہوش سر کو فرش سے ملا کر جلوۂ طور دیکھتے ہیں۔ عیاذ باللہ۔ نئی کاری گری۔ نئی ساحری۔ ابھی ڈومنی دور دور رہتی ہے۔ کل ایسا بھی ہو گا کہ وہ رنگین ڈبے سے کود کر قریب بیٹھ جائے گی۔ دل لبھائے گی، گھرگھر مجرا، ہر گھر مجرا۔ شعراء بھی سج دھج کر آتے ہیں۔ ادائیں دکھاتے ہیں اور داد پاتے ہیں' لفافوں میں۔

''اے نبیذ سخن کے پیاسے حضرت تشنہ بریلوی۔ میں نے کوتوال صفت داروغۂ جنت سے آگے چل کر کہا ''اب کر انتظام میرے دنیا میں جانے کا اور مجھ سے نجات پانے کا اور اس بار اگر میں واپس آیا تو پھر پھینک مجھے کسی تاریک حُجرے میں۔''

مقبول خبریں