کراچی کے مسائل اور کھلا خط

شرچیل صاحب نہ جانے کیوں مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپکی کارکردگی صرف میڈیا کی کوریج کی حد تک ہے۔


نادیہ ارشد April 11, 2015
ازرہ کرم بطور بلدیاتی وزیر مسائل کو جلد از جلد حل کرواکر شہر میں حقیقی معنوں میں بلدیاتی نظام کو متعارف کروایا جائے۔

محترم جناب وزیر بلدیات سندھ (شرجیل میمن) صاحب

توجہ برائے سندھ حکومت، وزیراعلی سندھ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی

السلام وعلیکم

بعد از سلام گزارش ہے کہ آپ تمام وزراء اکرام بخیر وعافیت ہونگے۔ آپ کی بطور بلدیاتی وزیر ادھوری کارکردگی زور شور سے جاری ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کارکردگی صرف میڈیا کی کوریج کی حد تک ہے۔

آپ نے ماشاء اللہ ہائی ڈینڈز کے خلاف ادھوری کارروائی کی، شہر میں لگے غیر قانونی سائن بورڈز کی باری آئی، پھر آپ نے شہر میں صفائی مہم شروع کروائی لیکن افسوس صد افسوس سب میڈیا کی حد تک تو کامیاب رہے کیونکہ میرے خیال میں جتنی زیادہ پریس کانفرنس بطور وزیر اور اپنی سیاسی وابستگی کے باعث آپ نے کی ہیں اگر دنیا بھر کے وزراء کو دیکھا جائے تو اُن میں صف اول میں آپکا نا صرف نام آئیگا بلکہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے شاید اعزاز سے بھی نواز دیں لیکن اس میڈیائی کامیابی کے برعکس اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ کسی حقیقت سے کم نہیں کہ ہر بلدیاتی مہم بری طرح ناکام ہوئی۔



پچھلے سارے کام ادھورے چھوڑ کر اس کے بعد نمبر آیا کراچی میں بنے غیر قانونی ہال اور لانز کا ہم نے دیکھا کہ ماشاء اللہ یکے بعد دیگرے وہ بھی توڑدئیے گئے۔ مگر انکی پھر سے تعمیر اور باخبر زرائع کی تصدیق شدہ اطلاعات نے یہ بات سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر یہ کارروائی پھر کیوں کی گئی؟



محترم آپ کے علم میں کراچی کے بلدیاتی مسائل تو ہونگے ہی مگر بحیثیت قلم کار اس خط کے ذریعے عوام کی آواز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپکی توجہ نہایت ہی اہم مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتی ہوں۔ کراچی کے مختلف علاقوں کلفٹن، سہراب گوٹھ، غریب آباد، لیاقت آباد اور ناظم آباد میں اس وقت 5 انڈر بائی پاس موجود ہیں۔ حسن اسکوائر سے سائٹ ایریا آنے تک تین انڈر بائی پاس ہیں۔ جن میں نہ ہی روشنی کا انتظام ہے اور نہ ہی CCTV کیمرہ کام کر رہے ہیں۔ یہی کچھ سہراب گوٹھ انڈر بائی پاس کا بھی ہے۔ یہ انڈر بائی پاس مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات تعمیر کئے گئے۔ مگر حسن اتفاق دیکھئیے جب سے سندھ میں مکمل جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ میرا مطلب گزشتہ اور موجودہ حکومت دونوں ہی ادوار میں ان کا مرمتی کام نہیں کیا گیا۔

خستہ حالی کا یہ حال ہے کہ بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے لگائی گئی لائنوں اور انکو ڈھکنے والے لوہے کے ڈھکنے ٹوٹ گئے ہیں اور سیوریج کی لائنیں بالکل ختم ہوگئی ہیں۔ جس کے باعث انڈر بائی پاس میں گھسنے سے پہلے درمیان میں اور نکلتے وقت تمام ہی گاڑیوں کو کئی فٹ کے گھڈوں (گھڑوں) میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ لائٹ نہ ہونے کے باعث اکثر حادثات ہونا معمول ہوگیا ہے۔



گزشتہ اتوار ناظم آباد انڈر بائی پاس میں اس گھڑے کی وجہ سے میاں بیوی اور بچہ جان کی بازی ہار گئے اور بلدیات جیت گئی۔ گھڑے کے باعث گاڑی نہیں سنبھل سکی اور پیچھے سے آنا والا ٹرک انکو کو روندتا ہوا چلا گیا۔ پورا خاندان اجڑ گیا۔



سندھ بورڈ آف ریونیو نے 6 ماہ کے اندر 49 ارب تک ٹیکس وصول کئے ہیں۔ تاہم ترقیاتی کام، سیوریج پانی کا نظام، دیگرعوامی تکالیف اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ دوسری طرف بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والے لوگ بھی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر خاموش احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ ازرہ کرم بطور بلدیاتی وزیر اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرواکر انسانی جانوں کے ضیاء سے بچائیں اور میٹروپولیٹن شہر میں حقیقی معنوں میں بلدیاتی نظام کو متعارف کروایا جائے تاکہ آپکے کاندھوں سے تھوڑا بوجھ کم ہو اور جمہوریت کی نرسری اچھے انداز میں پھلتے پھولتے ہوئے جمہور کی بہتر انداز میں حقیقی بنیادوں پر خدمت کرسکے۔ امید قوی ہے کہ میرے اس خط کا جواب ترقیاتی اور مرمتی کاموں کی صورت میں دیاجائیگا۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی کراچی کے شہریوں کے مسائل کو غیبی مدد کے ذریعے حل کرے اور کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنا دے۔۔ آمین ثم آمین

والسلام
مسائل میں گھرے کراچی کی شہری

[poll id="375"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

مقبول خبریں