ادب پر ڈاکا

عمر قاضی  پير 13 اپريل 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

اسلام آباد میں ملک کے مشہور رومانوی شاعر احمد فراز کے گھر میں ہونے والی وہ ڈکیتی جس میں ڈاکو اہل خانہ کا سونا، لیپ ٹاپ اور موبائل فونز کے ساتھ ساتھ احمد فراز کو ملنے والے تمغے بھی لوٹ کر لے گئے، اس پر حکومت وقت نے تو کچھ نہیں کیا مگر اس سانحہ پر صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ بھی قابل افسوس ہے۔ جب ملکی میڈیا کے اہم افراد کو احمد فراز کے گھر پر ہونے والے ڈکیتی اور انھیں ملنے والے اعزازات کی لوٹ مار کے حوالے سے بتاکر ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا اس سلسلے میں کیا خیال ہے؟ تب کسی نے کہا کہ ’’احمد فراز کے گھر پر ڈاکا ڈالنے والے ڈاکو ناکام شاعر ہوں گے جو احمد فراز کے غیر مطبوعہ کلام چرانے آئے ہوں گے‘‘۔

ایک مشہور کالم نگار نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’احمد فراز کے گھر پر ڈاکا ڈالنے والے ڈاکو ہی ہوں گے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ انھیں تمغے کیوں چاہیے تھے؟‘‘ اور ایک دانشور نے اس خبر پر اس طرح تبصرہ کیا ہے کہ ’’یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں تخلیق کار مر کر بھی پریشان حال رہتے ہیں اور سفاک لوگ اسے لوٹنے میں مصروف ہیں‘‘۔ ایک نامور اینکر پرسن نے اس واردات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ڈاکو غلط جگہ ڈاکا مارنے چلے گئے تھے، اگرچہ ڈاکو نقاب پوش تھے مگر پھر بھی پکڑے جائیں گے‘‘۔ جب کہ ایک اداکار اور دانشور نے کہا ہے کہ ’’بے ادب ڈاکوؤں نے ادب پر ڈاکا ڈالا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں، بے ادبی قوموں کے زوال کا سبب بنتی ہے‘‘ ۔

ان خیالات کا اظہار کرنے والے حضرات کا میں نے نام نہیں لکھا۔ کیونکہ نام لکھنے سے معاملہ ذاتیات کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے اور یہ بات ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ ان خیالات کو پڑھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی نمایندگی کرنے والے حضرات کے شعور کی بلندی کی سطح کیا ہے؟ جس معاشرے میں ایک شاعر کے گھر پر پڑنے والے ڈاکے کے حوالے سے ان خیالات کا اظہار کیا جائے اس معاشرے کی پست حالی کا ہمیں اور کیا ثبوت چاہیے؟ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ ہم کسی عام شخص کے گھر کو لوٹنے اور ایک شاعر کے گھر پر پڑنے والے ڈاکے کی کیفیت کو الگ نظر سے دیکھنے کے قابل کیوں نہیں رہے؟

کاش! کوئی ہوتا جو کہتا کہ یہ معاشرہ عدم تحفظ کی علامت ہے اور اس میں کوئی شخص اور کوئی گھر محفوظ نہیں، لیکن اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ احمد فراز کی اصل دولت نہ ان کے اہل خانہ سے لوٹا گیا سونا ہے اور نہ لیپ ٹاپ اور نہ وہ اعزازات جو ایک حکومت اپنا قد اونچا کرنے کے لیے کسی شاعر کو دیتی ہے۔ احمد فراز کی اصل دولت تو اس کی وہ شاعری ہے جس کو کوئی شخص تو کیا بلکہ تاریخ بھی لوٹ نہیں سکتی۔

شاعروں کی اصل دولت پیسہ نہیں، تمغے نہیں، بلکہ وہ محبتیں ہیں جو انھیں پڑھنے والوں سے ملتی ہیں۔ مگر کسی اہل ذوق نے ایسا نہیں کہا کہ احمد فراز کو کوئی نہیں لوٹ سکتا۔ کیوں کہ احمد فراز امیر سخن ہیں۔ ان کا سخن ہمارے دلوں میں امانت کی طرح محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا۔

یہ لٹنا اور لوٹنا تو دنیاوی باتیں ہیں۔ کیا احمد فراز ایک شاعر کی حیثیت سے دنیادار تھے؟ انھوں نے تو کبھی بھی اپنے مال و دولت کے حوالے سے لٹنے کی بات نہیں کی۔ اس نے جب بھی لٹنے کی بات کی تب صرف اور صرف اپنے دل کے لٹنے کی بات کی۔ وہ اپنا دل لٹا کر شاعر بنے تھے۔ جب کسی کا دل ان کی زندگی میں لٹ گیا ہو تو پھر اس کی موت کے بعد انھیں ملنے والے اعزازات کو لوٹنے کی کیا اہمیت؟ لیکن ہمارے دانشور حضرات کا تخیل صرف سیاست اور معاشرتی معاملات تک محدود ہے۔ وہ ایک شاعر کے حوالے سے بھی بات کرتے ہیں تو اس طرح جس طرح کسی دکاندار کی بات کر رہے ہوں۔

احمد فراز کے گھر پر پڑنے والے ڈاکے اور انھیں ملنے والے تمغوں کی لوٹ مار کی خبر پڑھ کر تو مجھے اپنے دوست شاعر حسن درس کا وہ شعر یاد آگیا تھا جو اس نے اس وقت لکھا تھا جب مشرف کے دور میں احمد فراز کے گھر کو خالی کروانے کے لیے حکومتی اہلکار آئے تھے اور انھوں نے ملک کے عظیم شاعر کے گھر کا سامان بے دردی سے باہر پھینکا تھا اور اس پر حسن درس نے یہ نظم تحریر کی تھی کہ:

’’احمد فراز تیرا… سامان پھینکتے ہیں… میزیں گلاس شیشے… نظموں کی عورتیں اور… نثری کتاب سارے… بے درد پھینکتے ہیں!… سامان عیش عشرت… سامان دلنوازی… سامان دل کی دنیا… سامان سرمدی یہ… سامان دلربائی… کیوں پھینکتے ہو ان کو… یہ حسن اور سچائی… تمہیں سزا ملی ہے… اچھی سزا ملی ہے… وہ کوٹھیاں تو دیکھو… کوٹھے پہ کچھ کہو مت… کوٹھا تو کس کا گھر ہے… مت گالیاں دو ان کو… گالیاں زبانوں کی … ہیں مست لڑکیاں… احمد فراز تیرا… سامان پھینکتے ہیں!‘‘

جس سندھی شاعر نے احمد فراز کو یہ شعر کا تحفہ دیا، وہ اس شہر میں نہیں رہتا تھا مگر وہ محسوس کرسکتا تھا ایک شاعر کی جذبات کو۔

شاعری احساسات اور جذبات کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ جب کسی شاعر کے گھر پر ڈاکا پڑتا ہے تو ہمیں اس واقعے کا معاشرتی پہلو دیکھنے کے بجائے اس کا جذباتی پہلو نظر میں رکھنا چاہیے۔ مگر یہ باتیں ذہن میں صرف اس وقت آتی ہیں جب بولنے والے عالمی ادب کے شعور سے وابستہ ہوں۔

احمد فراز کے گھر پر پڑنے والے ڈاکے کی خبر پڑھ کر مجھے صرف اپنے دوست حسن درس کا شعر یاد نہیں آیا تھا، بلکہ مجھے وہ جاپانی شاعر بھی یاد آیا تھا جس کے گھر چوری ہوگئی اور اس نے حکومت وقت کے سامنے احتجاج کرنے کے بجائے یہ شعر لکھا تھا کہ:

’’کیا کچھ چور چھوڑ گئے ہیں… ابھی تو چاند آنگن میں ہے… ابھی تو میرے گھر کی دیوار پر… لٹکتی ہوئی بیل پر… شبنم کے قطرے چمک رہے ہیں… ابھی تو میرے سامنے… چمکتے ہیں کئی ستارے… لوٹ گئے مگر نہیں ہے پروا… ابھی توچاند آنگن میں ہے‘‘

شاعروں کی دولت تمغے نہیں بلکہ فطرت کا وہ حسن ہوا کرتا ہے جس حسن سے کہ شاعری کشید کرتے ہیں، اس حسن کو کوئی چور، کوئی ڈاکو لوٹ نہیں سکتا۔

اس دنیا میں جو بھی حسن موجود ہے وہ احمد فراز کی اصل دولت ہے۔ جو جوانیاں جہاں جہاں بھی جھوم کر چلتی ہیں، وہ احمد فراز کی دولت ہیں۔ جو پیار جہاں جہاں بھی ہوتا ہے وہ احمد فراز کی دولت ہے۔ یہ سارے پھول، یہ بارشیں، یہ موسم، یہ دریا، یہ سمندر اور یہ آسمان میں بھٹکتا ہوا چاند! ایک شاعر کی دولت تو یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ ساری چیزیں اب بھی موجود ہیں۔ اس لیے کوئی لٹیرا اس احمد فراز کی دولت کو نہیں لوٹ سکتا جس نے ساری زندگی اس حسن کو اپنی شاعری میں سجایا، جس حسن نے ان کے دل کو ہر ملک اور ہر شہر میں لوٹا۔ جس شخص کا دل زندگی میں لٹا ہوا ہو اس شخص کو اپنے گھر کا سامان لٹنے کی کیا فکر۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو مرزا غالب کیوں لکھتے کہ:

گھر میں تھا کیا جو تیرا غم اسے غارت کرتا
ایک وہ حسرت تعمیر سو وہ اب بھی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔