بنی اسرائیل کے اسباق

 جمعـء 17 اپريل 2015
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

اللہ کی سنت اور قانون قدرت ہر امت، ہر قوم اور ہر انسان کے لیے یکساں ہے۔ بنی اسرائیل اللہ کی محبوب ترین اور لاڈلی امت تھی اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی اور بے شمار نعمتوں اور انعامات سے مالا مال فرمایا تھا لیکن بنی اسرائیل بڑی سرکش قوم تھی مسلسل نافرمانی میں مبتلا رہے اور بالآخر پے درپے نافرمانیوں کی بدولت بارگاہ خداوندی سے ملعون قرار پائے اور اللہ نے ان پر تاقیامت لعنت فرمادی، سوائے ان کے جو حقیقی معنوں میں صاحب ایمان اور فرمانبردار رہے۔

ہمارے لیے بحیثیت امت محمدیؐ بنی اسرائیل کی تاریخ، حالات زندگی اور مختلف واقعات اس لیے بڑی اہمیت اور غور و خوض کے حامل ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میری امت پر وہ تمام حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر واقعے ہوئے بالکل ایسے جیسے ایک جوڑی کی دو جوتیاں ایک دوسرے سے مشابہ ہوتی ہیں۔‘‘

قدرت کسی قوم پر اپنا قہر اور عذاب یک دم سے نازل نہیں کرتی بلکہ پہلے اسے مختلف طریقوں سے جھنجھوڑتی ہے لیکن جب حجت تمام ہو جاتی ہے تو اللہ کی بات پوری ہو کر رہتی ہے قرآن و احادیث مبارکہ اور مختلف اقوام کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام کا عروج و زوال ان کے اعمال پر منحصر ہے اور سنت اللہ کے مطابق اس جہدو عمل کی دنیا میں ہر کسی کو اس کی کوشش کے مطابق حصہ دیا جاتا ہے یہ کسی قوم کا پیدائشی حق نہیں، نا ہی کوئی قوم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ وہ اللہ کی لاڈلی قوم ہے اس لیے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے پھر بھی وہی غالب رہے گی.

اگر بنی اسرائیل اللہ کی پسندیدہ امت ہونے کے باوجود اپنی مسلسل بداعمالیوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ملعون قرار پائی تو آج امت مسلمہ بھی عادت اللہ کے مطابق اس ناقابل تغیر اور اٹل قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں، آج مسلمان اللہ کی محبوب ترین امت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور عیش کوشیوں کے باوجود وہ فتح وکامرانی اور عزت و سربلندی کا دائمی حق اپنے پاس رکھتا ہے اگر ایسا ہوتا تو آج مسلمان اپنے جرم ضعیفی کی پاداش میں یوں زمانے میں ذلیل و رسوا نہ ہو رہے ہوتے بلکہ نہ صرف بیت المقدس ان کے قبضے میں ہوتا بلکہ سارے زمانے پر ان کی حکمرانی ہوتی، لیکن اللہ کے قوانین قدرت و فطرت تمام اقوام کے لیے یکساں ہیں اور اللہ کی سنت کو کوئی بدل نہیں سکتا، اللہ کی عادت ہر ایک کے لیے اٹل ہے۔

حضرت سلیمان ؑ نے بیت المقدس کو تعمیر کیا، حضرت سلیمان ؑ کو اللہ نے عظیم ترین بادشاہت عطا فرمائی، صرف بیت المقدس ہی نہیں بلکہ حجاز، یمن اور بحیرۂ روم کے مشرقی کناروں سے افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک سلیمان ؑ کے زیر قیادت مسلمانوں کی حکومت قائم تھی لیکن جب حضرت سلیمان ؑ کا بیٹا رجعام تخت پر بیٹھا تو اس نے سابقہ تمام روایات کے برعکس طرز حکومت اختیار کیا .

جس کے نتیجے میں حضرت سلیمان ؑ کے ایک خادم بریعام نے بغاوت کرتے ہوئے شمال میں اسرائیل کے نام سے ایک الگ سلطنت قائم کر لی جس کے بعد بنی اسرائیل کی حکومت دو حصوں میں منقسم ہو گئی جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بنی اسرائیل کی عسکری قوت جو کبھی ملکہ سبا کے دروازوں پر دستک دیا کرتی تھی اب باہم افتراق و انتشار اور خانہ جنگی کا شکار ہو گئی۔ دونوں سلطنتیں (یہودیہ اور اسرائیل) سالہا سال تک باہم دست و گریباں رہیں اور ان میں خونریز جنگیں چلتی رہیں، 937ق م سے 586 ق م تک پورا عرصہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا خانہ جنگیوں کی دل خراش داستان پر مبنی ہے۔

آپ اندازہ لگایے ایک ایک جنگ میں بعض اوقات پانچ پانچ لاکھ بنی اسرائیل کا خون بہا مگر اقتدار کی ہوس نے جنگوں اور قتل و غارت کے تسلسل کو جاری رکھا اس دوران بنی اسرائیل کی اکثریت اللہ کے دین کو پس پشت ڈال کر گمراہی اور عیاشی میں غرق ہو گئی، انھوں نے بت پرستی اور ستارہ پرستی اختیار کر لی اور علما آج ہی کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر مذہبی اختلافات میں الجھے رہے، اس دوران بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے انبیا علیہ السلام بھی آتے رہے اور بنی اسرائیل کو جھنجھوڑنے کے لیے اور جگانے کے لیے اللہ کی جانب سے ہلکے ہلکے تازیانے بھی لگائے جاتے رہے.

کبھی بیرونی طاقتیں ان پر حملہ آور ہوئیں اور ان کی سرحدیں مختصر کر کے واپس لوٹ گئیں، کبھی مصر کا بادشاہ تو کبھی صور کا حکمران، کبھی آرام کا فرمانروا یلغار کرتا ہوا چڑھ آیا اور انھیں جزوی نقصانات پہنچا کر واپس لوٹ گئے لیکن بنی اسرائیل نے ہوش نہ سنبھالا حضرت ارمیا، حضرت شعبا اور حضرت حزقیل علیھم السلام نے انھیں برابر تبلیغ فرمائی کہ ہوش کے ناخن لو، اپنی حالت درست کرو، عیاشیوں سے باز آ کر خدا کے فرمانبردار بن جاؤ، دیکھو بابل کا بادشاہ تمہاری سرحدوں پر دستک دے رہا ہے، تمہیں نیست و نابود کرنے کے درپے ہے مگر کسی نے کان نہ دھرا اور ان حالات میں ٹھیک اس وقت جب حکام عیش و عشرت میں غرق اور علما اس بات پر مناظرے کر رہے تھے کہ ایک سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟

بابل کا جابر بادشاہ بخت نصر ان پر قہر خداوندی بن کر نازل ہوا اور یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی ظلم و ستم کی عظیم تاریخ رقم کی۔ بادشاہ کے سامنے اس کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالا اور بادشاہ اور رہے سہے یہودیوں کو جکڑ کر زنجیروں میں بابل اپنے ہمراہ لے گیا اور پچاس برس تک بنی اسرائیل بخت نصر کی غلامی میں اپنی بداعمالیوں اور عہد شکنیوں کی سزا کاٹتے رہے۔

اس دوران بنی اسرائیل نے اللہ کو رجوع کیا اور اللہ نے انھیں معاف کر دیا، ایک موقع اور دے دیا، 536 ق م میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل پر حملہ کر کے فتح حاصل کی اور بنی اسرائیل پر رحم کیا کہ انھیں دوبارہ سے بیت المقدس تعمیر کرنے اور فلسطین آباد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس طرح 515 ق م میں بیت المقدس دوبارہ آباد ہوا، بنی اسرائیل نے حضرت عذیر ؑ کی موجودگی میں رو رو کر توبہ کی اور آیندہ خدا کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عہد کیا.

قرآن حکیم اسی نئی زندگی کا تذکرہ اس طرح فرماتا ہے کہ ’’اس کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے انھیں یہ تنبیہہ بھی فرما دی گئی کہ اب اگر تم اچھے کام کرو گے تو تمہارے لیے مفید ہوں گے اور اگر تم نے بدکاری کی تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے۔‘‘ لیکن نیکوکاری کی یہ زندگی بنی اسرائیل کو پھر راس نہ آئی، فارغ البالی نصیب ہوئی تو ایک دوسرے سے اختلاف اور جھگڑے پھر معمول کا مشغلہ بن گئے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل پھر اسی حالت کو پہنچ گئے جس میں ان پر بخت نصر کا عذاب نازل ہوا تھا.

اس مرتبہ بخت نصر کی جگہ روم کے بادشاہ انتیوکسی ایپی فاینس نے 165 ق م قہر خداوندی کی صورت میں حملہ کیا، پورے شہر کو تہہ و بالا کر ڈالا، تورات کے تمام نسخے جلا ڈالے، بڑی بیدردی کے ساتھ بیدریغ بنی اسرائیل کا خون بہایا اور جو بچ گئے انھیں لوٹ کھسوٹ کر جلاوطن کر ڈالا، قرآن حکیم نے بخت نصر کے عذاب کا ذکر اس طرح کیا کہ ’’ہم نے ان پر اپنے کچھ بندے بھیجے جو شدید قوت والے تھے وہ گھروں میں گھوم گئے اور یہ ہونے والا وعدہ تھا۔‘‘ اور اسی طرح انتیوکسی ایپی فاینس کے قہر کا ذکر کچھ یوں فرمایا کہ ’’اور جب آخری (عذاب) کا وعدہ آیا تا کہ وہ (یعنی رومی) تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں داخل ہوں، جیسے کہ وہ (یعنی کلدانی) پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر ان کا غلبہ ہوا اس کو برباد کر دیں۔‘‘

مزید فرمایا ’’بہت ممکن ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے اور اگر تم نے (ان غلطیوں کا) اعادہ کیا تو ہم بھی (عذاب کا) اعادہ کریں گے اور جہنم کو ہم نے کافروں کا قید خانہ بنا (ہی) رکھا ہے۔‘‘آج امت مسلمہ اور عالم اسلام کی مجموعی طور پر جو حالت زار ہے اور جن عذابوں کے سائے ان پر منڈلا رہے ہیں۔

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک طرف ان میں ایمان کی وہ روح رخصت ہو چکی ہے جو بہ زبان قرآن ’’انتم الاعلون‘‘ کی دائمی بشارت لے کر آئی ہے اور دوسری جانب فکر و عمل اور جہد مسلسل کا وہ جذبہ فنا ہو چکا ہے جس کی طرف ’’اعدوالہم ما استطعتم‘‘ کے ارشاد میں اشارہ فرمایا گیا ہے، لہٰذا اس تناظر میں بنی اسرائیل کے ان تاریخی واقعات میں مسلمانوں کے لیے بڑا سبق ہے لیکن کیا کیجیے، مسلمان ہیں کہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار ہی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔