خاتون کا شاندار کارنامہ 5لاکھ انسانوں کا قتل
میرا ایک خواب ہے جو جلد پورا ہوگا ۔‘‘ بہر حال مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے ساتھ Segregationبالکل ختم ہوگیا ۔
تیس سال پہلے کراچی کی ایک تقریب میں ایک پستہ قد عورت اور ایک دراز قد مرد مصروفِ گفتگوتھے ۔ دراز قد مرد پستہ قد عورت کو خراجِ تحسین پیش کررہاتھا۔
150سال پہلے واشنگٹن کی ایک تقریب میں بھی ایک پستہ قد عورت اور ایک دراز قد مرد مصروفِ گفتگو تھے ۔دراز قد مرد پستہ قد عورت سے کہہ رہا تھا '' تم پانچ لاکھ انسانوں کی قاتل ہو۔'' مگر یہ بھی ایک طرح کا خراجِ تحسین ہی تھا ۔
تیس سال پہلے کراچی میں ملکۂ ترنم مادام نور جہاں اور صاحبزادہ یعقوب علی خان کے درمیان ملاقات ہوئی تھی اور150سال پہلے واشنگٹن میں ناول نگارہیریٹ بیچر اسٹو(Stowe)اور صدر ابراہم لنکن کے درمیان مکالمہ۔
صاحبزادہ یعقوب کا مادام نور جہاں کو خراج ِتحسین پیش کرنا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ صاحبزادہ صاحب بہت باذوق ہیں اور مادا م نور جہاں واقعی ملکۂ ترنم تھیں لیکن ابراہم لنکن کا کسی ناول نگار خاتون سے یہ کہناکہ '' تم 5لاکھ انسانوں کی قاتل ہو'' اور اسے خراج تحسین گرداننا سمجھ میں نہیں آتا ۔
اس ناول کا نام تھا Uncle Tom`s Cabinجو 1852ء میں چھپا۔جلد ہی یہ لاکھوں کی تعدادمیں بک گیا اور شمالی ریاستوں میں اس نے نسلی امتیازکیخلاف زبردست جوش پیدا کیا جب کہ جنوبی ریاستوں میں اس کے برعکس رد عمل ہوا ۔ وہاں بغاوت اور علیحدگی کے جذبات بھڑکے چونکہ افریقہ سے در آمد کیے ہوئے سیاہ فام غلاموں پر ان کی روئی اور تمباکو کی صنعت اورخوشحالی کا انحصار تھا ۔
صدرلنکن کے بقول اس ناول ہی کی وجہ سے 1861ء میں سول وار کاآغاز ہوا جس کے زخم ڈیڑھ سو سال بعد اب بھی ہرے ہیں۔ چارلسٹن (جنوبی کیرولینا) میں ایک سفید فام نوجوان کا افریقی باشندوں کے چرچ پر حملہ اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ مزے کی بات کہ چارلسٹن ہی سے 1861ء میں خانہ جنگی کا آغاز ہواتھا ۔ جب 12اپریل کو علیحدگی پسندوں نے یونین فوج کے فورٹ سمٹر پر گولہ باری کی۔اس سفید فام نوجوان قاتل کا نام Dylan Roofیعنی ڈیلان روف ہے خدا کاشکرہے کہ اس کا نام جیلان رؤف نہیں۔
1865ء کا سال امریکا کی جنوبی ریاستوںکے باشندوں کے قلب و روح پر نقش ہے جب کانفیڈریسی کے کمانڈر رابرٹ ای لیLee کو شکست ہوئی اور نیگروز کی غلامی کا خاتمہ ہوا ۔ ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا کے قریب ایک مقام پر 3گھڑ سوار مجسمے تراشے گئے ہیں ۔
ان میں جیفرسن ڈیوس ہیں جو کنفیڈریسی کے صدر تھے ' رابرٹ ای لی ہیں جو جنوبی ریاستوں کی متحدہ افواج کے سپہ سالار تھے اوران کے نائب جوان جنرل ٹامس جے جیکسن بھی ہیں جو اپنی سب سے بڑی فتح کے موقعے پر خود اپنے سپاہیوں کے ہاتھوں غلطی سے ہلاک ہو گئے تھے ۔
انھیں Stonewallبھی کہا جاتا تھا چونکہ وہ بہادری اورجرأت کا شاندار نمونہ تھے ۔ تمام جنوبی باشندوں کے دلوں پر اب تک Stonewall لکھا ہوا ہے اورانھیں '' جنگ کا فاتح'' قرار دیاجاتا ہے۔ 1865ء میں شکست کے بعد جنوبی ریاستوں میں غم کے گہرے بادل چھائے رہے اس لیے اور بھی کہ انھیں اپنی فتح کا پورا یقین تھا ۔
دو نسلوں تک یہ لوگ اپنے دماغ کے اسکرین پر 4سالہ جنگ کو بار بار چلاتے رہے لیکن 15اپریل 1865ء کے دن مغرور جنوبی کمانڈر اورجنگ انقلاب کے ایک ہیرو کے بیٹے جنرل رابرٹ ای لی (Lee) کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ بھی جنرل یولیس ایس گرانٹ (Grant)کے سامنے جو نیا نیا کمانڈر بنا تھا ۔یہ تھا کنفیڈریسی کا شرمناک خاتمہ۔ جنوبی نسل پرستوں کا تکبّر آندھی کے ساتھ رخصت ہوگیا (Gone with the wind)اور تبدیلی کا طوفان ہر طرف پھیل گیا پھر اس کے بعد جنوبی شہروں کی بربادی شروع ہوئی ۔
جنرل ولیم ٹی شرمنShermanکی افواج فاتحانہ طور پر سمندرکی طرف بڑھیں۔ ہر چیز کو آگ لگاتی ہوئی اور پسپا ہوتے ہوئے فوجی بھی سامانِ حرب کو تباہ کر رہے تھے اور کس قدر شاندار وہ زندگی تھی جو جنوبی ریاستوں کے سفید فام باشندوںکا مقدر بنی ۔ رو ئی، گنے اور تمباکو کے کھیتوں کے مالک بڑے زمیندار محل نما حویلیوں میں رہتے تھے ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے آراستہ ۔ شاندار بگھیاں ، گھوڑے ' گائے 'بیل اور کتے وافر تعداد میں ۔شکار سے بھرے جنگلات میں وہ شکار کھیلتے ، پارٹیاں اور ناچ گانے کی محافل معمول تھیں ۔
ان کے باوردی بٹلر کے ساتھ ملازموں کی ایک فوج ہوتی تھی ۔ اس زمانے میں عزت کی خاطر ڈوئل Duelکا بھی رواج تھا ۔ اکھاڑوں میں نیگرو جانباز لڑتے اور ایک ضرور ختم ہوجاتا ۔افریقی غلاموں کے نیلام گھر اور سرکش نوکروں کو سیدھا کرنے کے لیے سزاخانے جہاں غلاموں کو ایک ہجوم کے سامنے کوڑے لگائے جاتے تھے ۔شراب خانہ اور قمار خانے یعنی ایک پر لطف معاشرہ ۔ ساتھ ان امریکی وڈیروں کے پاس بیشمار افریقی غلام اور کنیزیں بھی ہوتیں جنھیں کپاس کے کھیتوں میں روئی چننے کے لیے صبح سے شام تک استعمال کیا جاتا ۔
درحقیقت انھیں انسان نہیں سمجھا جاتا تھا وہ انسان نما جانور بنے ہوئے تھے ۔پڑھنا لکھنا ان کے لیے ممنوع تھا کہ کہیں ان میں عقل نہ آجائے ۔ کچھ اسی قسم کا نظام ہمارے یہاں وڈیرہ شاہی معاشرے میں اب بھی رائج ہے ۔ زیر ِ زمین نجی جیل خانوںکی خبریں برابر آتی رہتی ہیں مگر بااثر لوگوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے اور تو اور اس وڈیرہ شاہی نظام کو نہ صرف امریکا بلکہ ہمارے مذہبی رہنماؤں کی بھی حمایت حاصل ہے ۔یہ خانہ جنگی 4 سال جاری رہی ۔ زبردست خون خرابہ ہوا اور بالآخر اپوما ٹوکس کورٹ ہاؤس 'ورجینیا میں جنوبی سپہ سالار جنرل لی نے ہتھیار ڈال دیے۔
شکست نے جنوبی ریاستوں کے باشندوں کو اور غصہ دلایا لہذا وہ انتقام پر اتر آئے۔ پہلے تو انھوں نے اپنے سب سے بڑے دشمن صدر لنکن کوایک تھیٹر میں قتل کیا جب اسے دوبارہ صدر منتخب ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا۔اپنی دوسری ٹرم میں لنکن یقینا عورتوں کو مکمل آزادی اور مکمل شہریت دلواتا تاکہ وہ ہر میدان میں آگے آسکیں اور ووٹ دے سکیں۔
جنوب کے ہارے ہوئے سپاہیوں کا دوسرا ''کارنامہ'' ای دہشت گرد تنظیم کا قیام تھایعنی کوکلس کلان(Ku Klux Klan) یہ وہ آواز ہے جو ونچسٹر رائفل کو ریڈی کرتے وقت نکلتی ہے۔ اس سوسائٹی کے ممبران حد سے زیادہ متعصب اور ظالم تھے ۔ یہ راتوں کو غول کی صورت میں نکلتے ۔
تکیہ کا غلاف اوڑھے ہوئے جس میں آنکھوں کے لیے دو چھید ہوتے تھے ان کا مقصد کالوں کو خوفزدہ کرنا تھا تاکہ وہ ووٹ نہ ڈال سکیں اور ساتھ ہی شمال کے Carpet Baggerاور جنوب کے Scalaways کو بھی سبق سکھایا جاسکے تاکہ وہ کالوں کی حمایت اور لوٹ مار سے باز آجائیں۔ یہ تنظیم جلد ہی ختم کردی گئی لیکن1915ء میں شکست کے 50سال پورے ہونے پر پھر سرگرم ہوگئی۔ یہ اب بھی ریاست جارجیا اور ساؤتھ کیرولینا میں بہت مستحکم ہے۔ڈیلان روف بھی اسی تنظیم کا نمایندہ تھا۔
ساتھ ہی ساتھ Segregrationبھی شروع ہوگیا جو جنوبی افریقہ کے نسلی برتری کے قانون Aparthiedکی طرح کالوں کو معاشرے سے الگ رکھتا تھا ۔ کالے صرف ان جگہوں پر جاسکتے تھے جو ان کے لیے مخصوص تھیں ورنہ ان کو سزا ملتی تھی ۔ اگر کوئی نیگرو کسی سفید فام لڑکی کے ''قریب'' آتا تو اسے Lynchکردیا جاتا یعنی ہجوم کے سامنے قتل ۔ بسوں میں بھی کالوں کا الگ حصہ ہوتا تھا لیکن اگر گورا مسافر آئے اور اسے جگہ نہ ملے تو وہ کسی بھی کالے کو اپنی نشست خالی کرنے کا حکم دے سکتاتھا ۔
1955میں روزا پارکس نے اپنی سیٹ خالی کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ زبردست ہنگامہ ہوا اور اب روزا پارکس ایک ہیروئن ہے۔ اسی طرح نیگرو گلوکارہ میرین اینڈرسن کو ''دخترانِ انقلاب'' کانسٹیٹیوشن ہال میں گانے کی اجازت نہیں دی تھی اس لیے کہ وہ کالی تھی جب کہ فرسٹ لیڈی مسز روز ویلٹ گانے والی کی حمایت کر رہی تھیں لیکن وہ بھی بے بس ثابت ہوئیں بہر حال چند سال بعد '' دخترانِ انقلاب'' نے اپنی غلطی تسلیم کرکے مارین اینڈرسن کو بہت باعزت طریقے سے مدعو کیا بعد میں اس کو ایوان صدر میں بھی بلایاگیا۔
افسوس کی بات تو یہ کہ تعلیمی ادارے جو روشن خیالی کے قلعے تسلیم کیے جاتے ہیں اس زہریلی فضا سے محفوظ نہ رہ سکے اور کالوں کوداخلہ دینے سے انکار کرتے رہے ۔
ساری دنیا اس وقت غم و غصے میں ڈوب گئی جب الاباما کا گورنر جارج ویلیس ایک کالج کے گیٹ پر کھڑا ہوگیا ایک نیگرو طالبعلم کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے مگر شاید ایک ابراہم لنکن کی مزید ضرورت تھی یہ نیا ابراہم لنکن بلیک لیڈر مارٹن لوتھر کنگ کی صورت میں نمودار ہوا وہ شہری حقوق کا علمبردار تھا اور نوبل انعام یافتہ ۔ساتھ ہی وہ مذہبی رہنما بھی تھا ۔جس وقت اس کا قاتل جیمس ارل رے، اپنی پستول میں گولیاں بھر رہا تھا ٹھیک اسی وقت کنگ نے اپنے آخری خطاب میں کہا ''اب مجھے اپنی کوئی پروا نہیں چونکہ میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ چکا ہوں۔
میرا ایک خواب ہے جو جلد پورا ہوگا ۔'' بہر حال مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے ساتھ Segregationبالکل ختم ہوگیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مارٹن لوتھر کنگ کا مجسمہ بھی ماؤنٹ رشمور پر تراشا جاتا ۔ ابراہم لنکن ضرور اس کا استقبال کرتا ۔ انکل سام اور انکل ٹام بغل گیر ہوجاتے ۔
یاد رہے کہ نسلی برتری کی لعنت کو ختم کرنے میںدو ناولوں نے بہت کام کیا Uncle Tom`s Cabin(مصنفہ ہیریٹ بیچر اسٹو) اور Gone with the wind(مصنفہ مارگریٹ مچل) ایک تیسرا ناول Roots(مصنف افریقی امریکن الیکس ہیلی) اس سلسلے کی آخری کڑی ہے اور اب کنفیڈریسی کا جھنڈا اتارا جاچکا ہے۔