عوام اٹھ کھڑے ہوں
پاکستان کو اس وقت جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سر فہرست ہے
ڈسرائیلی نے کہا تھا 'حالات آدمی کو جنم نہیں دیتے بلکہ آدمی حالات کو جنم دیتا ہے'۔
پاکستان کو اس وقت جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سر فہرست ہے۔ انتہا پسند ی محض ایک عمل یاکارروائی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سو چ ہے جو پاکستانی معاشرے میں آہستہ آہستہ سرائیت کررہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سوچ کے خلاف لڑنے کا اعلان کرنیوالے ماضی میں خود اس سوچ کے خلاف کسی حکمت عملی کو طے کرنے میں ناکام رہے اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس کوئی نظریہ نہیں تھا بلکہ سارا زور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے تھا۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ مذہبی انتہا پسندی اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے، یہ سلسلہ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی جاری تھا۔
اس وقت بھی بعض علماء قائداعظم کی قیادت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، وہ انھیں انگریزوں کا ایجنٹ کہتے تھے اور ان پر کافر اعظم جیسے الزامات لگاتے تھے۔ یہ علماء خود بھی پاکستان کے قیام کے خلاف تھے لیکن برصغیر کے مسلمان قائداعظم کی فکر پر لبیک کہتے ہوئے ایک ایسی ریاست کو تشکیل دینا چاہتے تھے جو برصغیر کے مسلمانوں کا معاشی مفادات کا تحفظ کرسکے اور وہ ایک ایسی ریاست ہو جہاں جمہوریت اور آزادی بھی ہو۔ بدقسمتی سے قائداعظم کو اپنی فکر کے مطابق ریاست کو تشکیل دینے کا موقع نہ مل سکا اور پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ایڈارڈ وگالینو کا کہنا ہے کہ ''ہر صبح تاریخ ایک نیا جنم لیتی ہے''۔
پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا پہلا عشرہ نفرت انگیز ناکامی پر مشتمل ہے۔ لامتناہی آئینی بحث و مباحثہ جاری رہا اور 1956 تک ملک کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے تحت چلایا گیا، اسی سال مارچ میں پہلا پاکستانی آئین نافذ ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان مسلم لیگ جو اکلوتی ملک گیر سیاسی جماعت تھی منتشر ہوگئی۔ سربراہ مملکت کے ہاتھوں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کی روایت قائم کردی گئی۔ اسے مستحکم کرنے میں عدلیہ نے بھی کردار ادا کیا۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اکتوبر 1954 میں گورنر غلام محمد کی طرف سے پہلی آئین ساز اسمبلی کی برطرفی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا تھا، اس فیصلے نے ملک کی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور پاکستان کو 1970تک عام انتخابات کا طویل انتظار کرنا پڑا، چنانچہ پارلیمانی نظام اپنی جڑیں گہری نہ کرسکا۔ وزرائے اعظم تیزی سے تبدیل کیے جاتے رہے، طاقت کا منبع کراچی کے سیاسی مراکز سے تبدیل ہوکر راولپنڈی میں منتقل ہوگیا۔ آئینی اور سیاسی بحران نے صوبوں اور مرکز کے درمیان کشیدگی پیدا کردی۔ دیگر صوبوں میں مرکز اور پنجاب کو ایک سمجھا جانے لگا، طاقتور اداروں کے کار پردازوں نے مشرقی بنگال کی جمہوری اکثریت کو محرومیوں سے دوچار کرنے کے حربے استعمال کرنے شروع کردیے۔
وہ جمہوری اکثریت کو مو ثر انداز میں کام کرنے کا موقع دے کر اپنی خارجہ پالیسی کی سمت اور داخلی ترجیحات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ جاگیرداروں نے بنگال کی مقبول عوامی جماعتوں عوامی لیگ اور جنتا تری دل کی مخالفت میں فعال حصہ لیا، ان کی مخالفت کے پس منظر میں ایک ہی خوف تھا کہ بنگال کی سیاسی پارٹیاں جاگیرداری کا خاتمہ اور زرعی اصلاحات چاہتی ہیں، چنانچہ وہ انھیں کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔
1956 میں جنوبی پاکستان کو ون یونٹ یعنی ایک صوبہ بنانا اور قومی اسمبلی میں اس کی مشرقی پاکستان کی برابری پیدا کرنا ظاہر کرتا تھا کہ مرکز کو اکثریتی صوبے بنگال کے چیلنج سے محفوظ کیا جارہا ہے، جب کہ حقیقت بھی یہی ہے کہ 1958 میں پاکستان میں فوجی انقلاب کے اسباب میں سے سب سے بڑا سبب عام انتخابات کا التوا تھا۔ 1956کے آئین کے تحت اگر یہ عام انتخابات منعقد ہوجاتے تو پنجاب کے جاگیرداروں، اشرافیہ کے مفادات خطرے میں پڑجاتے، یہ ہی وجہ ہے کہ فوجی حکومت کے آتے ہی سیاسی نظام کی کمزوریوں کو موضوع بنانے اور توجہ دینے کے بجائے سیاست دانوں کی بدعنوانی اور گروہ بندیوں کا شور مچانا شروع کردیا۔ مارشل لا نافذ ہوا، انتخابات ملتوی ہوگئے اور پنجاب کے جاگیرداروں کو کامیابی حاصل ہوگئی۔
پاکستان میں منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کی روایت اس وقت وجود میں آئی جب صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کے گورنروں نے ڈاکٹر خان صاحب اور ایم اے کھوڑو کی وزارتیں برطرف کردیں۔ منصفین پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی ساری ذمے داری اس بدقسمتی پر عائد کرتے ہیں کہ غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے تجربہ کار بیوروکریٹ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر جاپہنچے، ان دونوں افراد میں گہرا جمہوریت دشمن مزاج پایا جاتا تھا۔ انھوں نے منتخب حکومتوں کو برطرف کرکے اور اسکندر مرزا نے براہ راست فوجی حکومت کا راستہ صاف کیا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار پر قبضے کا جواز یہ پیش کیا کہ ''سیاست دان اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال، بدعنوانیوں اور گروہی سازشوں کے ذریعے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے تھے'' اور پھر ان کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنیوالے آمروں جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنر ل پرویز مشرف نے بھی یہ ہی جواز پیش کیا۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آمروں کے دور میں جتنی بدعنوانی اور کرپشن ہوئی اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ایلن میک گراتھ نے تو ملک میں جمہوریت کی تباہی میں چیف جسٹس محمد منیر کو بھی شامل کیا ہے۔ جمہوریت کی ناکامی کے دیگر اسباب میں مسلم لیگ کی بدعنوانیوں بحیثیت سیاسی ادارہ کمزوریاں اور جاگیرداروں کے مفادات سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں مسلم لیگ وہ کردار ادا نہ کرسکی جو بھارتی سیاست میں کانگریس نے بھرپور انداز میں ادا کیا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی قیادت کا عدم برداشت کا رویہ بھی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ مسلم لیگ کی مخالفت کو پاکستان سے دشمنی قرار دیا جاتا رہا۔
پاکستان کے سیاست دانوں کو کمتر سمجھنے کا اندازہ 1949 میں پروڈا (Proda) کے نفاذ سے بھی ظاہر ہوتا ہے، اس قانون کے تحت اقربا پروری، رشوت ستانی، بدعنوانی کے الزامات کے ساتھ سیاست دانوں کو عوامی عہدوں کے لیے نااہل قرار دیا جاسکتا تھا، الزامات وزرا اور عام اراکین اسمبلی پر نہ صرف گورنر جنرل اور صوبائی گورنر عائد کرسکتے تھے بلکہ عام شہری بھی پانچ ہزار روپے زر ضمانت جمع کراکے مقدمہ دائر کرسکتا تھا۔جنرل ضیاء کے دور حکومت میں انتہاپسندی، جنونیت، جہالت اور تشدد کی حوصلہ افزائی نے رواداری، برداشت اور مساویانہ معاشرتی قدروں کو سخت نقصان پہنچایا، صرف یہ ہی نہیں اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ مذہبی جماعتوں کی انتخابی سیاست میں پاکستان کے عوام کی جانب سے انھیں مسترد کردینے کی وجہ سے جنم لینے والی مایوسی بھی ہے جس نے مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کی۔
مذہبی جماعتوں کی انتخابی عمل میں ناکامی کی وجہ سے مذہبی بنیاد پرستی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ انھیں اپنی بقا اسی طرف نظر آنے لگی۔غربت، بیروزگاری، بھوکے لوگ ان کا ایندھن بنتے چلے گئے۔یہ عناصر اب پاکستانی معاشرے سے ٹکرا رہے ہیں، وحشت اور دہشت کے یہ بیوپاری بارود کی بو پورے ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ملک میں دہشت گردی کے واقعات جمہوریت، ملک کے استحکام، ملک کی تہذہب اور تمدن پر حملے ہیں۔ چند ہزار دہشت گرد ملک اور قوم کے دشمن ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے عوام ان مذہبی جنونیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔