معیشت اور سیاست
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ معیشت کو سیاست سے علیحدہ رکھنا چاہیے۔
NEW YORK:
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ معیشت کو سیاست سے علیحدہ رکھنا چاہیے۔ انھوں نے ملک بھر میں تاجروں کی کامیاب ہڑتال کے بعد ایک ٹی وی چینل پر اپنا ہٹ دھرمی والا رویہ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ودہولڈنگ ٹیکس ختم نہیں ہو گا کیونکہ یہ قانون بن چکا ہے جو پارلیمنٹ سے منظور ہوا ہے اور حکومت نے ود ہولڈنگ ٹیکس پیسہ کمانے کے لیے نہیں لگایا بلکہ اس کا مقصد معیشت کو دستاویز پر لانا ہے، اس لیے معیشت کو سیاست سے علیحدہ رکھا جائے۔
وزیر خزانہ کے اس اظہار خیال سے قبل ملک بھر کے تاجروں کے رہنما متحد ہو کر وزیر اعظم سے یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ ایف بی آر کے چیئرمین اور وزیر خزانہ کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے کیونکہ وہ ماہر معاشیات نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ ملکی سیاست کا بھی کوئی اہم کردار نہیں ہیں بلکہ ان کی اہمیت وزیر اعظم نواز شریف کا قریبی عزیز اور بااعتماد وزیر ہونے کے باعث ہے۔
ہمارے ملک کی معیشت فوجی آمروں کے دور میں نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں اور جمہوری دور میں تباہ ہوئی ہے اور سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں جب نواز حکومت برطرف کی تھی، اس کی وجوہات میں ملکی معیشت کی تباہی بھی شامل تھی جسے فوجی حکومت نے ہی سنبھالا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف کی اپنی صنعتی اور تجارتی برادری سے دوری ان کے دوسرے دور ہی میں شروع ہو گئی تھی جو اب ان کی تیسری حکومت میں وزیر خزانہ کے رویے کے باعث پھر بڑھ رہی ہیں اور ملک کے صنعت کاروں اور تجارتی تنظیموں کو حکومت سے شکایت ہے کہ ان کی نہیں سنی جا رہی اور حکومت ان سے مشوروں کے بغیر ٹیکس بڑھا رہی ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ 11 ستمبر کو صنعتکاروں اور تاجروں کی ہونے والی ملاقات بھی بے فائدہ رہی اور وزیر اعظم انھیں مطمئن نہ کر سکے بلکہ انھوں نے وفد کو کہا کہ وہ مراعات نہ مانگیں بلکہ حکومت کو کما کر دیں۔
ملک کے صنعت کار اور تاجر حکومت کو کہہ چکے ہیں کہ حکومت ان کی مثبت تجاویز مان لے تو ریونیو بڑھ سکتا ہے مگر صرف وزیر خزانہ کی سنی جاتی ہے۔ جن کی وجہ سے ملک کے 60 لاکھ تاجر ملک گیر کامیاب ہڑتال پر مجبور ہوئے اور وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور دیگر وسائل اختیار کرنے کا کہہ رہے ہیں اور ملک کے بینکوں سے بڑی تعداد میں سرمایہ نکلوایا جا چکا ہے۔
وزیر خزانہ کی بے نیازی کے باعث ملک کی تاجر تنظیمیں جنرل راحیل شریف سے بھی مداخلت اور ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرانے کی اپیل کر چکی ہیں۔ ملک کی معیشت سیاست سے جڑی ہوئی ہے جس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم خود صنعت کار ہیں جو خود بھی جانتے ہیں کہ انکم ٹیکس اور ایف بی آر کے محکموں کا ملک کے صنعتکاروں اور تاجروں سے کیسا سلوک رہا ہے۔
ملک کے لیے ریونیو جمع کرانے والے خود ملک سے مخلص نہیں ہیں اور وہ ہمیشہ سے ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کو اپنی ترجیح شمار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ریونیو وصولی کے اہداف بھی پورے نہیں ہوتے۔ ایف بی آر کے ماتحت ریونیو وصول کرنے والے اداروں کے افسران کی اکثریت بدعنوان ہے جو نہیں چاہتے کہ ٹیکس دینے کے خواہش مندوں کو حکومت کوئی سہولت دے۔ یہ افسران ٹیکس چوری میں خود ملوث ہیں اور ٹیکس دینے والوں کو ٹیکس بچانے کے طریقے خود بتاتے ہیں۔ ان کا ہمیشہ سے اولین مقصد یہ رہا ہے کہ عوام سے وصول کیا جانے والا ٹیکس حکومتی خزانے میں کم اور ان کی اپنی جیبوں میں زیادہ جائے۔
حکومت کہتی ہے کہ ٹیکس ادا کرنے کے قابل لوگ ٹیکس نہیں دیتے یہ بات اسمبلیوں کے ارکان اور سیاست دانوں کی حد تک تو درست ہے جو اپنے اثر و رسوخ کے باعث ٹیکس برائے نام دیتے ہیں جس کا واضح ثبوت ارکان پارلیمنٹ اور اسمبلی کے جمع کرائے گئے اثاثوں کی تفصیلات ہیں کہ جن میں وزرا تک جھوٹے اثاثے ظاہر کرتے ہیں وہ اپنی جائیدادیں ہی نہیں گاڑیاں تک چھپاتے ہیں جس کی مثال سابق وزیر اعظم گیلانی اور دوسرے رہنما ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کے پاس اپنی گاڑی تک نہیں ہے۔
اس میں بھی شک نہیں کہ صنعتکار اور تاجر پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے جس کے ذمے دار ہمارے ریونیو افسران ہیں جو اپنی کمائی کے لیے انھیں راغب کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کم ٹیکس دے کر اپنی بچت کر سکتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر سیاسی حکومت ٹیکسوں کے سلسلے میں قوم کے اعتماد سے محروم رہی ہے اور ٹیکس دینے والوں کا یہ موقف درست ہے کہ ان سے لی گئی رقم ملک و قوم کے لیے کم اور حکمرانوں کے پروٹوکول اور عیاشیوں اور کرپشن پر زیادہ استعمال ہو رہی ہے تو وہ ٹیکس کیوں دیں جب ٹیکس عوام پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ وزیر اعظم نے 11 ستمبر کو جو اجلاس بلایا اس میں حیرت انگیز طور پر کراچی چیمبرز کو مدعو نہیں کیا گیا جس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کراچی چیمبرز وزیر اعظم کے سامنے سچ بات کرتا ہے اور وزیر اعظم اب تاجروں کا سچ سننا نہیں چاہتے۔
سیاست سے نابلد اور معیشت کو سیاست سے دور رکھنے کے خواہش مند وزیر باتدبیر اب تک ملکی معیشت میں عملی طور پر بہتری نہیں لا سکے ہیں، معاشی مسائل کا گرداب بڑھتا جا رہا ہے، اور انھوں نے صنعتکاروں اور تاجروں کو بھی ناراض کر رکھا ہے اور سیاستدان بھی ان پر تنقید کرتے آ رہے ہیں تو ایسے حالات میں معیشت کو سیاست سے دور رکھ کر وزیر خزانہ وزیر اعظم کو تو خوش رکھ سکتے ہیں مگر عوام ان سے خوش نہیں ہیں۔