گائے پر سیاست کیوں اور آخر کب تک

گائے پر اتنا واویلا کیوں مچا ہوا ہے؟ گائے بس ایک بہانہ ہے، مسلمان اصل نشانہ ہیں۔


حسام احمد October 30, 2015
مودی سرکار کے لیے بھی گائے سیاسی ہتھیار اورعوام کے جذبات بھڑکا کر ووٹ اور اخلاقی حمایت حاصل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ فوٹو :فائل

تمام اقوامِ عالم اس بات پر متفق ہیں کہ بھوک گلے کو آجائے تو انسان کے لیے خود کا گوشت کھانا بھی جائز ہوتا ہے مگر ہمارے دائیں ہاتھ پر ایک عجیب و غریب ریاست ہے۔ مذہبی جذبات کا احترام اپنی جگہ مگر منطق عجیب ہے اور عقیدہ بھی کہ گائے مقدس ہے، ان کی ماں ہے۔ اس کی جان بچاؤ، اور دوسروں کی ماؤں سمیت جو کوئی بھی اپنے پیٹ کی بھوک بجھانے ایک جانور کی جان لے تو اس انسان کی جان لے لو ۔۔۔ گویا ایک انسانی جان سے زیادہ قیمتی جانور کی جان ہے۔

https://twitter.com/TanzeelRehman7/status/657645882242899968

گذشتہ کئی ہفتوں سے بھارت میں گائے کشی جیسے حساس موضوع پر گرما گرم بحث جاری ہے، یہ بحث اور گائے کی قربانی سے متعلق افواہیں اب تک تین مسلمانوں کی جانیں لے چکی ہیں، اتر پردیش کے 50 سالہ محمد اخلاق اس بحث کے پہلے، ریاست ہماچل پردیش کے 20 سالہ نعمان دوسرے، جب کہ جنوبی مقبوضہ کشمیر کے رہائشی زاہد احمد مودی سرکار کی آشیرباد سے پورے ملک میں دھوم مچاتے ہندو انتہا پسندوں کی غنڈہ گردی کے تیسرے شکار بنے، بھارت کی شمالی ریاست ہریانہ کے وزیراعلیٰ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اگر مسلمانوں کو ملک میں رہنا ہے تو انھیں گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہوگا۔

جن اہل نظر کو گذشتہ برس بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتہ پارٹی، اس کی ہم خیال آر ایس ایس اور وشوا ہندو پرشاد کے انتخابی نعرے، دعوے اور وعدے یاد ہوں، انہیں بھارت میں دہشست گردی کی تازہ لہر پر زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے، اکثریت جانتی ہے کہ مسلمانوں کے خون سے لت پت نریندری مودی کا انتخابی منشور دو نکات کے گرد گھومتا تھا، پہلا پاکستان دشمنی اور دوسرا گائے کی حرمت۔ "مودی کو متدن، گائے کو جیوادن" (مودی کو ووٹ، گائے کو زندگی) اور "بی جے پی کا سندیش، بچے گی گائے، بچے گا دیش" جیسے نعرے ثابت کرتے ہیں کہ بھارتی مسلمان آج جن مشکلات میں گھرے ہیں اس کا اسکرپٹ گذشتہ برس لکھاجاچکا تھا۔



کہنے کو تو بھارت ایک ایسی سیکولر ریاست ہے جہاں ریاستی پالیسیوں کو مذہب چھو کر بھی نہیں گذرتا مگر بھارتی آئین کا آرٹیکل 48 خوش فہمی کا شکار بھارتی عوام کا ہمیشہ منہ چڑاتا رہتا ہے، جس کے مطابق ریاست پر یہ لازم ہے کہ وہ گائے کی قربانی پر پابندی عائد کرے، بھارت کی 24 ریاستوں میں اسی قانون کے تحت گائے کی قربانی یا اس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے۔ بھارت کے بانی مہاتما گاندھی تو یہاں تک کہہ گئے کہ،
''گاؤ ماتا، ان کی اپنی حقیقی ماں سے بہتر ہے کیوں کہ جب ان کو جنم دینے والی ماں مرتی ہے تو کفن دفن کے اخراجات ہوتے ہیں مگر، گائے مرنے کے بعد بھی انسان ہی کے کام آتی ہے، انسان مرنے کے بعد بھی اس کے گوشت، ہڈیوں، سینگ اور اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتا ہے''۔

مورخین کے مطابق ہندوؤں کی مقدس کتابوں خصوصاً ویداس کے مطالعے سے یہ بات واضح ہے کہ ہزار سے ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح، ہندو معاشرے میں جانوروں کی قربانی ایک عام بات تھی۔ ہندؤں کے بھگوانوں اندرا کو بیل جب کہ اگنی کو بیل اور گائے دونوں کے گوشت کا نشہ تھا۔ ویداس میں کُل 250 جانوروں کا ذکر ہے، جن میں سے 50 کو قربانی اور غذا کیلئے جائز قرار دیا گیا ہے۔ مہا بھارت میں Rantideva نامی بادشاہ کا ذکر ہے، جس نے برہمنوں کو گوشت اور دیگر اجناس فراہم کرکے خوب شہرت کمائی۔ برہمنوں کے قدیم صحیفوں میں بھی گوشت خوری کے کئی ثبوت ملتے ہیں۔ قدیم بدھ مت کی ایک کتاب دگھانکایا(Digha Nikaya) میں ایک واقعہ درج ہے کہ Kutadanta نامی برہمن نے ایک روز 700 بیلوں، 700 بکروں اور 700 مینڈھوں کی قربانی کا فیصلہ کیا۔ مہاتما بدھ نے ہندوؤں کے اس عمل کے خلاف بغاوت کی اور نظریہ ''اہمسہ'' کی بنیاد رکھی۔ گوتم بدھ نے گائے کی کبھی عبادت تو نہیں کی نہ ہی اسے ماتا کا درجہ دیا مگر، وہ جانوروں کی بےجا قربانیوں کے خلاف تھے۔ بدھ کے اس نظریے سے نچلی ذات کے ہندوؤں کی اکثریت متاثر ہوئی اور انہوں نے تیزی سے بدھ مت اپنانا شروع کردیا، یہ وہ وقت تھا جب برہمن ہندوؤں کو بدھ کے اس نظریے سے خطرات محسوس ہوئے، اور انہوں نےعوام کے دل جیتنے کے لئے رفتہ رفتہ جانوروں کی قربانی میں کمی لانا شروع کردی اور اب جو شخص گائے قربان کرتا اسے برہمنوں کی جانب سے اچھوت قرار دیا جانے لگا، اس پر زمین تنگ کی جانے لگی۔ گوتم بدھ نے دنیا میں ایسے نظریے کی بنیاد رکھ دی جس نے ایک گائے کے ذبیحہ پر انسانوں کا جینا دوبھر کردیا۔

تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ویجندر نارائن جھا، نے جب ان سچی مگر کڑوی باتوں کا ذکر اپنی کتاب Holy Cow: Beef in Indian Dietary Traditions میں کیا تو ہندو انتہاپسند ان کی جان کے در پے ہوگئے۔ پروفیسر جھا اس تصور سے بھی اختلاف رکھتے ہیں کہ ہندوستان میں گاؤ کشی مسلمانوں کی آمد سے شروع ہوئی۔ اس مؤقف کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اکثر و بیشتر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کےاحترام اور ان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے گائے کی قربانی سے اجتناب برتا۔ پروفیسر جھا کا ماننا ہے کہ گائے نے اٹھارویں اور انیس ویں صدی میں جا کر جانور سے ماتا کا روپ دھارا، اور اس کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہونے لگا۔ پروفیسر کانچا ایلیاہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ تاریخی طور پر برہمن سمیت تمام ہندو ویدک اور ویدک کے بعد کے ادوار میں گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ کشمیری پنڈت تو آج بھی گوشت خور ہیں، بنگالی برہمن کا بھی یہی حال ہے مچھلی بھی کھاتے ہیں اور گوشت بھی۔

بھارتی آئین کی تیاری میں شریک ڈاکٹر امبیڈکر کے مطابق، ''گائے کو مقدس ماننے سے پہلے گائے کو ذبح کیا جاتا تھا۔ انہوں نے ہندو دھرم شاستروں کے ایک مشہورعالم پيوی کانے کا حوالہ دیا۔ کانے نے لکھا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ویدک دور میں گائے مقدس نہیں تھی، لیکن اس کی پاکیزگی کے وجہ سے ہی کہا گیا کہ گائے کا گوشت کھایا جانا چاہیے۔ (مراٹھی میں دھرم شاستر وچار۔ صفحہ 180)۔

ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ جب تک ہندوستان میں مسلمانوں کو حقیقی اقتدار حاصل رہا گائے کے نام پر خون خرابہ کم ہی دیکھنے کو ملا۔ 1683ء میں پہلی بار کسی مسلمان کو گائے کی قربانی کے الزام میں شہید کیا گیا اور پھر ہندوستان میں تاجِ برطانیہ کے جمتے قدم کے ساتھ ہی اس مسئلے پر ہندو مسلم فسادات کا آغاز ہوا۔ برطانوی افسران کو جب بھی کشیدگی کو بڑھاوا دینا ہوتا تو وہ لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت گائے قربان کرتے اور مسلمان قصائیوں کا نام سامنے کردیتے تھے۔ ملکہ وکٹوریہ نے 8 دسمبر 1893ء کو اپنے وائسرائے لارڈ لانسڈاؤنے کو ایک رقعہ لکھ کر یہ راز فاش کیا،
'ا'گرچہ محمڈنز(مسلمانوں) کی گاو کشی کو ہنگامہ کرانے کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے لیکن دراصل اس کا رخ ہماری طرف ہوتا ہے جو محمڈنز کی نسبت اپنی فوج کے لیے کہیں زیادہ گائیں ذبح کرتے ہیں''۔

مگر اب سوال یہ ہے کہ جب واقعی سب کچھ اتنا سادہ اور تاریخ اتنی واضح ہے تو پھر یہ الجھن کیوں؟ گائے کے نام پر سیاست ایک طرف، کیا گائے کا نام پر قتل وغارت گری ضروری ہے؟ آخر گائے پراتنا واویلا کیوں مچا ہوا ہے؟ گائے بس ایک بہانہ ہے، مسلمان اصل نشانہ ہیں۔ مودی سرکار کے لیے بھی گائے سیاسی ہتھیار اورعوام کے جذبات بھڑکا کر ووٹ اور اخلاقی حمایت حاصل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں، شائد جب ہی بی جے پی کی سابقہ حکومت میں گوشت کی پیداوار میں زبردست حد تک اضافہ ہوا اور واجپائی سرکار نے کانگریس کے چیلنج کے باوجود کبھی گائے کی قربانی پر ملک بھر میں پابندی عائد نہیں کی۔ شاید اسی لیے مودی کے گڑھ گجرات کا شمار ان 10 ریاستوں میں ہوتا ہے، جہاں سب سے زیادہ ذبح خانے ہیں اور گزشتہ دس برسوں میں یہاں گوشت کی برآمد میں دگنا اضافہ ہوا ہے اور اسی لئے بھارت آج بھی گوشت کی پیداوار میں دنیا کا پانچواں، گوشت خوری میں ساتواں جب کہ گوشت برآمد کرنے میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس گائے کے آگے ہندو ماتھا ٹیکتے ہیں، عبادت کرتے اور اسے ماتا کہتے ہیں اسی کی کھال سے بنی کرکٹ گیند کو ہر روز پاؤں تلے روندتے ہیں۔

ہندو انتہا پسند جتنی چاہیں کوشش کرلیں وہ ہر وقت، ہر انسان کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ سب جانتے ہیں کہ مودی صاحب گائے کو سیاسی مارکیٹ میں اسی وقت لاتے ہیں جب انہیں کوئی سیاسی تیر مارنا ہو۔ 2014 میں وزیراعظم کی کرسی ان کی منتظر تھی تو "مودی کو متدن، گائے کو جیوادن " کے نعرے لگائے اور آج نظریں ریاست بہار کی 159 نشستوں پر جمی ہیں تو پورے ملک کو گائے کی حرمت کے بہانے ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر جانب گائے کے نام پر خون خرابا ہے۔

[poll id="738"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

مقبول خبریں