ترکی میں اردو۔۔۔ سو برس کی ہو گئی

استنبول یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کا دل چسپ احوال


استنبول یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کا دل چسپ احوال ۔ فوٹو : استنبول یونیورسٹی

NEW DELHI: ترکی میں اردو کے صد سالہ جشن کی تیاریوں کی خبریں گزشتہ کئی ماہ سے اردو دانوں کی توجہ کا محور بنی ہوئی تھیں۔ یہ بات بجا ہے کہ ایسے منصوبے کی تکمیل کا سہرا فردِ واحد کے سر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے منظم انداز میں، جماعت کی صورت تگ و دو کی جاتی ہے، ہر کامیاب کانفرنس کے انعقاد میں بے نام سپاہیوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے، لیکن ایک باصلاحیت میرِ کارواں قافلے کو منزل تک لے جانے کے لیے بنیادی شرط ہے۔ وہ رہنما بھی ہوتا ہے اور خادم بھی، وہ ستارہ شناس ہوتا ہے۔

وہ قافلے میں شامل جانثاروں کے جذبے سے بھی آگاہی رکھتا ہے اور شب خون مارنے والے کے ارادوں سے بھرپور انداز میں واقفیت بھی۔ اسے پانی بھرنے والے مشکیزوں کی گنجائش کا علم بھی ہوتا ہے اور راہ رو کی ضروریات کا احساس بھی، وہ قافلے کے پیچھے چلنے والے سگانِ کوئے لعنت کی ہاؤ ہو سے بے نیاز بھی ہوتا ہے۔



تو صاحبان، دنیا کے مختلف برِاعظموں میں بسنے والوں کو ایک لسانی پرچم تلے جمع کر دینا قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ڈاکٹر پروفیسر خلیل طوقار کا کارنامہ ہے، جس پر انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس جشن کے شرکاء پر اردو زبان کے اس عاشق کی صلاحیتیں آشکار ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے جس استقلال اور جاں فشانی سے اس بارِ گران کو اٹھایا اور اپنی پیشانی پر ایک شکن ڈالے بغیر آدابِ میزبانی نبھائے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔



انھوں نے مندوبین کے ویزے، آمد اور رہائش کے بارے میں جدید ترین طریقے کے مطابق آن لائن نوٹس لگائے۔ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے شامل ہونے والے احباب کو بھی خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا۔



یہ ان ہی کی تحقیق تھی کہ ترکی میں اردو تدریس کی ابتدا عام اندازے کے مطابق ساٹھ کی دہائی میں نہیں ہوئی، بلکہ اس دلکش زبان نے 1915 میں عبد الجبار خیری کی ترکی میں آمد کے ساتھ ہی زرخیز زمین پر اپنے بیج گرا دیے تھے۔ ان کے مقالے میں اس تحقیق کے حوالے سے مستند شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ اسی تحقیق کی روشنی میں 2015 میں ترکی میں اردو کا صد سالہ جشن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ دنیا کے مختلف کونوں میں اردو کی ترقی و ترویج کے لیے کوشاں یونیورسٹیوں کے شعبۂ اردو سے رابطے کیا گیا۔ ان تمام اردو دانوں کو بطور خاص دعوت دی، جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی، لیکن جن کے ذوق و شوق نے انھیں اردو زبان کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر کر رکھا تھا۔

روس سے ڈاکٹر لڈ میلا ویسلوا، جرمنی سے ڈاکٹر ہائنز ورنر، بنگلا دیش سے ڈاکٹر محمود الاسلام، تہران یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر کیومرثی، ڈاکٹر وفا اور ڈاکٹر فرزانہ عزم لطفی نے تقریب میں شرکت کی۔

جامعہ استنبول کے شعبۂ ادبیات کی جانب سے، جس کے سربراہ خلیل طوقار ہیں، اکتوبر کی 12تا 14، تین روزہ اردو سمپوزیم کی صورت صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اس سیمپوزیم میں ترکی اور وسطی ایشاء میں مسلمانوں کے کردار اور بر صغیر پاک و ہند میں اردو زبان کے ترکی زبان کے ساتھ رشتوں کی بابت مقالے پیش کئے گئے۔



اردو زبان کے کئی اہم دانش ور، صحافیوں، ادیب، شعراء، مترجمین اور جامعات کے اساتذہ کرام نے اس سیمپوزیم میں شرکت کی۔ اس دوران اردو میں ایم اے کرنے والے ترک طلبا و طالبات نے میزبانی کا فریضہ خوب ادا کیا۔ باہر سے آئے ہوئے مندوبین کو رابطے کے سلسلے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، کیونکہ تمام میزبان طلبا روانی سے اردو بول رہے تھے۔ تمام مندوبین کو جامعہ کے نزدیک ایک پر سکون ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ مندوبین چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے ہوٹل اور جامعہ جاتے ہوئے نظر آئے، تو بہت ہی بھلے معلوم ہوتے۔

اس کانفرنس کے انعقاد سے سترہ مختلف ممالک سے آئے اردو داں حضرات کو ایک جگہ اکھٹے ہونے اور باہم گفت و شنید کا موقع میسر آیا۔ درس و تدریس ایسا شعبہ ہے کہ اس میں ہر گذرنے والے دن کے ساتھ بہتری اور نکھار پیدا کرنے کی ضرورت رہتی ہے، تاکہ آئندہ نسلوں کو علم و ہنر کے زیور سے لیس کیا جا سکے۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے یہ مقاصد پورے ہو گئے۔



اس کانفرنس میں امریکا سے معروف شاعر، محقق اور ادیب جناب ڈاکٹر ستیہ پال آنند اور محترمہ بینا گوئیندی، کینیڈا سے زندہ بادکینیڈا ریڈیو کی اینکر اور شاعرہ محترمہ عروج راجپوت، ناروے سے اردو ٹیلی ویژن کے روح رواں جناب ڈاکٹر ندیم حسین سید، جناب محمد ادریس احمد، روزنامہ کارواں کے روح رواں جناب ڈاکٹر مجاہد حسین سید، ڈنمارک سے اردو ادب کی معروف لکھاری، شاعرہ، ٹی وی اینکر پرسن اور مصنفہ محترمہ صدف مرزا، فن لینڈ سے فنش ادب کی پانچ کتابوں کے مترجم اور فن لینڈ میں حلقۂ ارباب ذوق کے بانی ارشد فاروق ( راقم)، برطانیہ سے براڈ کاسٹنگ اور نثر کا ممتاز نام جناب رضا علی عابدی، معروف لکھاری جناب مقصود الہیٰ شیخ، محترمہ مہہ جبیں غزل انصاری اور ان کے شوہر جناب انیس انصاری، فرانس سے محترمہ سمن شاہ، پاکستان سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے پروفیسر نجیب جمال، معروف افسانہ نگار اور نقاد و محقق محترمہ عطیہ سید ، خیر پور یونیورسٹی سے ڈاکٹر یوسف خشک، معروف شاعرہ محترمہ فاطمہ حسن ، اوریئنٹل کالج پنجاب یونورسٹی شعبۂ اردو کے صدر نشین جناب پروفیسر محمد کامران، شعبہ پنجابی کے صدر، فیصل آباد جی سی یونیورسٹی سے پروفیسر طارق ہاشمی کے علاوہ کراچی سے زبان یار من ترکی کے مصنف عبید اللہ کہیر اور لاہور سے معروف صحافی اور دانشور جناب فرخ سہیل گوئیندی نے شرکت کی۔

ماسکو یونیورسٹی سے پروفیسر لڈ میلا، کویت سے جناب افروز عالم، بھارت سے صدر شعبۂ اردو، جواہر لعل یونیورسٹی، دہلی کے جناب ڈاکٹر اکرام ، سید انوار عالم، سید محمد یحیٰ صبا، اور دیگر نے شرکت کی۔ اسی طرح بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان کی جامعات میں اردو کی درس و تدریس کے ماہرین اور اساتذہ نے بھی بھر پور شرکت کی۔ یوں یہ کانفرنس حقیقی معنوں میں ایک عالمگیر اجتماع کی حیثیت اختیار کر گئی۔



کانفرنس کے پہلے اجلاس میں جامعہ استنبول کے وائس چانسلر، بلدیہ کے میئر، ایران، بھارت، انغانستان اور بنگلہ دیش کے سفارت کاروں، پاکستان سے اکیڈیمی آف ادبیات کے صدر جناب قاسم بھگیو اور میزبان ڈاکٹر خلیل طوقار نے خطاب کیا۔ کانفرنس سے ایک روز قبل ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں خود کش دھماکوں میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ کانفرنس کے دنوں میں جنرل راحیل شریف ترکی سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی کے سلسلے میں ترکی کا دورہ کر رہے تھے، اس وجہ سے پاکستانی سفیر تشریف نہ لا سکے، البتہ ایک ترجمان نے اس کانفرنس میں سفیر صاحب کا پیغام پڑھ کر سنایا۔

کانفرنس میں بیک وقت تین مختلف ہالز میں اجلاس منعقد ہو رہے تھے، اس طرح تمام مندوبین کو اپنے اپنے مقالہ جات پیش کرنے کا وقت دیا گیا۔ میزبان ڈاکٹر خلیل طوقار نے بتایا کہ ترکی میں اردو زبان ایک صدی سے زائد عرصے سے پڑھائی جا رہی ہے ، جب خیری برادران نے ترکی میں اردو کی تدریس کا کام شروع کیا تھا۔ مقررین نے تاریخی حوالوں سے برصغیر پاک و ہند کے ترکی کے ساتھ روابط پر روشنی ڈالی۔ راقم الحروف نے فن لینڈ میں اردو زبان کی ترویج و ترقی اور اس کے مستقبل کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا۔



کانفرنس کے آخری دن پاکستانی سفیر جناب سہیل محمود تشریف لائے۔ انھوں نے حکومت پاکستان کی طرف سے اس موقع پر دس روپے کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔ برطانیہ سے آئے ہوئے معروف شاعر جناب سلمان شاہد نے جناب خلیل طوقار کے کام کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انھیں پاکستان کے سول اعزاز سے نوازا جانا چاہیے۔ یہ بات ایک قرارداد کی صورت میں پیش کی گئی، جس کی شرکا نے بھرپور تائید کی۔ کانفرنس کے آخری اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری ڈنمارک سے آئی ہوئی معروف لکھاری صدف مرزا کے حصے میں آئی، انھوں نے اس ذمے داری کو خوب نبھایا۔

اس موقع پر ترکی اور وسط ایشیاء میں مسلم تاریخ کی بابت ایک تصویری نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔ نمائش کاافتتاح پاکستانی سفیر نے کیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کانفرنس کے مندوبین نے تینوں دن ہوٹل کے ہال میں مشاعرے منعقد کئے، ایک دوسرے کے کلام کو سنا اور سراہا۔ کانفرنس کے آخری دن مندوبین نے اپنے میزبان ڈاکٹر خلیل طوقار کو ایک سرپرائز کیک پارٹی دی، اس طرح یہ تاریخی کانفرنس نہائت خوشگوار انداز میں اختتام پذیر ہوئی۔

مقبول خبریں