اجمل خٹک ہار گیا مبارک جیت گیا
حالانکہ اس وقت ان لوگوں کی حکومت تھی جن کے چہرے اسی کے خون سے سرخ تھے
لاہور:
علامہ اقبال نے تو پھر بھی مان لیا تھا کہ ... وہ اک مرد تن آسان تھا تن آسانوں کے کام آیا لیکن ہم ایک ایسے مرد ناتواں کو جانتے ہیں جو تن آسان بھی نہیں تھا تن آسانوں کے کام بھی آیا لیکن پھر بھی اس کی بدنصیبی نہیں گئی بلکہ وہ جو ایک مشہور و معروف ٹرانسپورٹی شعر ہے وہ اسی پر سجتا ہے پتہ نہیں کیوں لوگوں نے اس کی قبر پر نہیں لکھا کہ
مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی
قبر کھودی گئی ''اس کی'' تو پتھریلی زمیں نکلی
اگر صرف زمین ہی ''پتھریلی'' نکلتی تو پھر بھی اچھا رہتا کہ جب انسان ''پڑنے'' کا ہو جائے تو کہیں بھی پڑ جائے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس بے چارے کو تو مرنے کے بعد بھی رسوائیوں سے چھٹکارا نہیں ملا بعد از مرگ بھی اس کے ساتھ جو ستم رانیاں ہو رہی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، چلیے بتائے دیتے ہیں کہ وہ مرد ناتواں کون ہے، اجمل خٹک اس کا نام ہے کہ جس چمن کو اس نے اپنے خون جگر سے سینچا جس پر اس نے اپنی پوری زندگی، عیش و آرام اور ماضی حال مستقبل سب نچھاور کیے اس کے ساتھ کیا ہوا بلکہ کیا کیا ہوا تھا ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا، جب وہ اپنے آخری پڑاؤ پہنچا اور پیچھے دیکھا تو
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
حالانکہ اس وقت ان لوگوں کی حکومت تھی جن کے چہرے اسی کے خون سے سرخ تھے ہاں البتہ جب ان کو تسلی ہو گئی کہ جس کے وہ قرض دار ہیں اس کی آنکھیں بند ہو گئیں تو جھوٹ موٹ کے سیاسی ٹسوے بہانے کے لیے آگئے کیونکہ ایک مرتبہ پھر اس کے نام سے اپنا نام چمکانے کا موقع ہاتھ لگا تھا، تعلق کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جب چالیسواں ہو رہا تھا تو کسی چڑیا کا بچہ بھی نہیں تھا سب اپنی بولیاں بول کر اڑ چکے تھے حالانکہ اس دن وہ سب کے سب آٹھ دس کلومیٹر کی دوری پر ایک سرمایہ دار کے ہاں شمولیتی تقریب میں شامل تھے لیکن اصل بات ہم یہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔
سیاست کے میدان میں جو گر گیا سو گر گیا، بلکہ ہم اس کی بعد از مرگ رسوائی کے دو اور نمونے ذکر کرنا چاہتے ہیں، نہ جانے کس کی غلطی تھی کہ حیات آباد کا ایک چوک اس کے نام سے موسوم کر دیا، اجمل خٹک چوک ... اس کے قدر دان خوش ہوئے کہ چلو کچھ تو ہوا لیکن دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک بزرجمہر پڑا ہوا ہے چنانچہ اجمل خٹک چوک میں ایک جنگی جہاز کو کھڑا کر دیا گیا، لوگ حیران ہوئے کہ آخر اجمل خٹک اور ایک جنگی جہاز کا آپس میں تعلق کیا ہے لیکن باریکی سے دیکھنے والے جان گئے کہ یہ اس کے فلسفہ عدم تشدد کی دم میں نمدہ کسنے کے لیے ایک خاموش اشارہ تھا، جس شخص نے زندگی بھر امن عدم تشدد کے لیے کام کیا تھا ہر جنگ و جدل کی مخالفت کی تھی اس کو رد کرنے کے لیے بمبار جہاز سے زیادہ بہتر کوئی اور استعارہ ہو ہی نہیں سکتا، چلیے چوک تو اجمل خٹک کے بجائے جہاز والا چوک ہو گیا
کسی پہ ترک تعلق کا بھید کھل نہ سکا
تری نگاہ سے ہم یوں اتر گئے چپ چاپ
اجمل خٹک چوک ... حیات آباد سے فرار ہو کر ''پبی اسٹیشن'' آگیا اور ایک سہ راہے پر اجمل خٹک چوک کا بورڈ لگا دیا گیا، بورڈ کا تو پتہ نہیں کہاں چلا گیا لیکن اس جگہ ایک بہت بڑا دروازہ تعمیر ہوا ایسے دروازے صوبے میں اور بھی کئی ایک تعمیر ہوئے جنھیں اے این پی والے اپنے کارناموں میں شمار کرتے ہیں حالانکہ اصل مقصد کچھ لوگوں کو، کچھ ٹھیکیداروں کو اور کچھ منتخب نمایندوں کو ''کچھ دینے'' کا تھا کیونکہ آج تک کسی کو یہ پتہ نہیں چل پایا کہ ان دروازوں کا جو کروڑوں کے اخراجات سے تعمیر ہوئے فائدہ کیا ہے اور مقصد کیا ہے سوائے ٹریفک جام کرنے کے ... گویا وہی بات ہوئی کہ
سوچتا ہوں سر ساحل باقی
یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں
اور اب کے اجمل خٹک انسٹی ٹیوٹ کی نقل مکانی ... جسے ختم کر کے رقم وہاں لے جائی گئی جہاں لے جانا عین ''انصاف'' کے تقاضوں کے مطابق تھا کیوں کہ یہ مقام ایک ''شریف'' مقام ہے ویسے بھی اگر آپ کو یاد ہوکہ پچھلے دنوں ہم نے اپنا وہ قصہ بیان کیا تھا جب ہم ''مبارکوں'' اور ''شریفوں'' میں ٹھیک اسی طرح پھنس گئے تھے جیسے رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی تھی بے چاری، اور یہ صرف ہمارا اکیلے کا قصہ نہیں ہے ہمارے وطن کے اکثر باسی اسی المیے کا شکار ہیں کہ کہیں نہ کہیں مبارکوں اور معصوموں میں پھنس جاتے ہیں کیوں کہ ہمارے ملک میں بھلے ہی کسی اور چیز کی کمی ہو لیکن مبارکوں، مقدسوں اور معصوموں کی بڑی بہتات ہے، ایک پورا سلسلہ پھیلا ہوا ہے
ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقش پا کا گمان
قدم قدم پہ تری رہ گذر سے گزرے ہیں
ہم ایک ایسے گاؤں کو بھی جانتے ہیں جس کا نام نہ جانے کیوں اور کیسے ''مردار'' پڑ گیا تھا، اگلے زمانوں کے لوگ تو اسی مردار پر گزارہ کرتے رہے لیکن نئی پیڑی کے تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے گاؤں کا نام کھلنے لگا، کئی دوسرے نام رکھے فلاں آباد یا فلاں پور یا فلاں گڑھی وغیرہ، لیکن آس پاس کے لوگوں کی زبان پر مردار ہی رہا۔ ایک شخص کو اچانک بڑی دور کی سوجھی بلکہ موقع ہی ایسا پیدا ہو گیا ایک پیر نما شخص کو پکڑ کر لایا گیا اور اس نے پیری مریدی کا سلسلہ چلا دیا، جب کافی مشہوری ہو گئی تو ایک رات اسے کسی نے قتل کر دیا۔
گاؤں والوں نے اس کی کرامت کا خوب خوب پروپیگنڈہ کیا بلکہ روایت کے مطابق اس کی قبر پر رات کو مٹی کے تیل میں بھگو کر کچھ آگ کے گولے بھی اچھالے گئے اور بے شمار لوگوں نے اس کے بارے میں ''خواب'' بھی دیکھے چنانچہ دور دور تک یہ بات پھیل گئی کہ اس کے مزار کے قریب بہتا ہوا چھوٹا سا چشمہ ... چشمہ شفا ہے۔
لوگ جوق در جوق آتے رہے پانی لے جاتے رہے اور ''شفا یاب'' ہوتے رہے، بات اس حد تک پہنچ گئی کہ قرب و جوار کے سارے روٹوں پر بسوں کی شارٹیج ہو گئی کیوں کہ لوگ پیر صاحب کی زیارت کو بہت بڑی تعداد میں جانے لگے تھے۔ اس چشمے کا پانی ناکافی ثابت ہوا تو اوپر کافی محنت کر کے ایک نہری نالے کو اس میں گرایا گیا، چند مہینوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر لوگ چھدرے ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہو گئے لیکن گاؤں کا نام مردار شریف ہو گیا
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار گئے
کچھ اور بھی ایسے گاؤں ہیں جن کے نام کچھ مناسب نہیں ہیں چنانچہ ہم نے اکثر ان کے باسیوں کو مشورہ دیا ہے کہ کسی کو ''شہید'' کر کے مزار شریف یا مزار مبارک بنا لو کم از کم اس نام کے ساتھ شریف کا اضافہ تو ہو جائے گا، خیر یہ شریفوں اور مبارکوں کے ساتھ تو ہمارا جنم جنم کا ناطہ ہے، بزرگوں نے کہا کہ کسی بلا سے چھٹکارے کی صورت نہ ہو تو آگے بڑھ کر اس کے ساتھ لپٹنا چاہیے،بے چارے اجمل خٹک انسٹی ٹیوٹ کو بھی اس مرتبہ ایک ''شریف'' یا ''مبارک'' اڑا لے گیا ہے ... بے چارے کی قسمت بعد از مرگ بھی خراب ہی رہی کہ کوئی نہ کوئی تو کہیں نہ کہیں سے آکر اس بے چارے کو ٹھوکر مار ہی دیتا ہے
رگوں میں زہر کے نشتر اتر گئے چپ چاپ
ہم اہل درد جہاں سے گزر گئے چپ چاپ