علم… کھوئی ہوئی میراث

فرح ناز  ہفتہ 14 نومبر 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

جس نے علم و شعور پا لیا تو اس نے دنیا و آخرت دونوں کو سمجھنے اور پانے کا ہنر پا لیا۔ راہیں درست انتخاب ہو تو منزل پر پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ علم، شعور و آگہی کسی بھی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے نہ صرف غربت و افلاس کا خاتمہ ہو گا بلکہ موجودہ اور اگلی نسلوں کا بھی بھلا ہو گا۔ مگر پاکستان میں رہنے والوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ تعلیم اور صحت پر رقوم خرچ نہیں کی جاتیں اور موجودہ حکومت تو شاید ہر وہ اسکیم متعارف کروانا چاہتی ہے جو شاید بزنس کو استحکام دیں یا ذاتی کاروبار کے فروغ کا باعث بنے، بے چارے پاکستانی بنیادی ضرورتوں کے لیے ہر لمحہ پریشان اور یہاں آئے دن نئی نئی سواریاں اور سواریوں کے راستے تخلیق کیے جا رہے ہیں، پیٹ میں روٹی نہیں ہو گی تو سمجھ سے باہر ہیں کہ سیر و تفریح کیسے ہو گی؟

علم مسلمانوں کی میراث ہے اور نہ جانے کیوں اس کھوئی ہوئی میراث کو پانے کے لیے کام نہیں کیا جاتا، یہ علم ہی تھا جس نے تاریکی میں روشنی کی اور لوگوں کو جہالت سے نکالا، ان کے حقوق انھیں دیے اور چھوٹی سے لے کر بڑی مشکلات کو حل کرنے کے طریقے بتائے۔ جس امریکا اور یورپ کی دیانتداری اور وہاں کے قانون کی ہم دہائی دیتے ہیں کیا وہ ہمیں نہیں ملے؟ کیا ہم نے اپنی آخری رسولؐ سے کچھ نہیں سیکھا جو دنیا کے بہترین لوگوں کے آئیڈیل ہیں۔

دہائی تو ہمیں اپنے ملک کے حکمرانوں کی دینی چاہیے جنھوں نے آج تک عوام کو گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں رکھا ہوا ہے، اپنی اپنی دکانیں چمکانے کے لیے یہ سب کے سب ایک ہو جاتے ہیں اور عوام کے حقوق کے لیے ان کی آنکھیں ہمیشہ بند رہتی ہیں۔

جان بوجھ کر پلاننگ کے ساتھ، تعلیم اور صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عوام اگر باشعور اور تعلیم یافتہ ہو نگے پھر اس کے فریب میں کیسے آئیں گے؟ بڑی بڑی قسمیں بھی یہ کھاتے ہیں اور اللہ رسول کو حاضر و ناظر بھی کرتے ہیں مگر اللہ اور رسول کے بتائے گئے راستے پر نہیں چلتے۔ اتنے کمزور اور جھوٹے ہیں یہ لوگ کہ ڈرتے ہیں کہ عوام میں علم کی روشنی پھیل گئی تو پھر ان کی جہالت اور کرپشن پر پردہ کیسے پڑا رہے گا۔ اللہ معاف کرے کہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی دوڑ میں یہ سب کہاں سے کہاں جا رہے ہیں کوئی نہیں جانتا جب کہ سب جانتے ہیں کہ ’’خالی ہاتھ‘‘ ہی ایک گہرے گڑھے میں منوں مٹی تلے دفن کر دیے جائیں گے۔

جان بوجھ کر تعلیم اور صحت کا شعبہ کمزور سے کمزور کیا جا رہا ہے۔ تا کہ عوام ان کے غلام بن کر رہ سکیں۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں خواتین کو شدید ضرورت ہے، بہترین تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی، بہترین تعلیم ہی ایک اچھی شروعات ہوتی ہیں۔ ایک عورت کی تعلیم ایک پورے خاندان کو سہارا دیتی ہے، اس پورے خاندان کو سنوارنے میں بہترین حصہ ہوتی ہے۔ سوشل تعلقات بھی بہتر ہوتے ہیں اور یقیناً کوالٹی بھی قائم ہوتی ہے۔

2010ء کی UNDP رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 146 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 120 واں ہے۔ پاکستان میں پرائمری تعلیم تمام بچوں کے لیے لازمی ہے، مگر غربت و افلاس، چائلڈ لیبر اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ کبھی 100 فیصد نہ ہو سکی۔

ہمارے ملک میں مختلف حکومتیں، مختلف اسکیمیں ضرور متعارف کرواتی ہیں مگر ان کا خواتین کے لیے حصول بے انتہا مشکل ہوتا ہے، بے روزگاری ختم کرنے کے لیے چھوٹے کاروبار کے لیے قرض کی بھی سرکاری اسکیمیں متعارف ہوتی ہیں مگر ان کا حصول آسان نہیں جس کی وجہ سے فائدہ پھر وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو ان کو متعارف کرواتے ہیں،   جس اسٹائل اور زندگی کی طرف ہم  تیزی سے دوڑ رہے ہیں لگتا ہے کہ ہم شاید اوندھے منہ ہی گریں گے۔

پاکستان میں بے انتہا ذہانت موجود ہے، مگر ان کو سنوارنے والے ناپید ہیں اور یہی نوجوانوں میں گمراہی کی وجہ  ہے، حقوق کا نہ ملنا، منفی سوچ اور منفی رویہ ہی پیدا کرتا ہے۔  ترقی و کامیابی کے لیے اللہ عالی شان نے بے حساب معدنیات سے نوازا ہے۔ بہترین جغرافیائی صورتحال ہم رکھتے ہیں، مگر صرف چند سو ہوس اور اختیار کے بھوکے لوگوں نے کروڑوں عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

مفادات سے بھرے ہوئے یہ لوگ آخر کب تک اسی طرح کا گندا کھیل کھیلتے رہیں گے اور کب تک تعلیم کے حصول کے لیے اندھیرے براجمان رہیں گے۔

حکومت کوئی بھی ہو، کسی صوبے میں ہو یا کسی شہر میں اپنے مفادات، لالچ، حرص و ہوس میں مبتلا رہے گی تو صرف چند لوگ ہی اس کے ذریعے کروڑوں، اربوں کما کر فقیر سے بادشاہ بنیں گے، اصل ہیرو وہی لوگ بنیں گے جو مخلصی کے ساتھ ، تعلیم اور صحت دونوں شعبوں میں انقلاب برپا کر سکیں گے، علم و شعور کے دروازے تالے توڑ کر کھولیں گے جس میں عام و خاص سب ہی کے لیے خزانے ہوں گے۔ اور یہ وہ خزانے ہوں گے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی آب و تاب بڑھاتے ہی جائیں گے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی ہو یا پنجاب میں (ن) لیگ یا KPK میں PTI۔ تمام کے تمام پاکستان میں بے انتہا شدید ضرورت ہے تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کی، صحت کے شعبے میں کام کرنے کی۔ خدا کے واسطے کروڑوں لوگوں کے لیے سوچیں اور اپنے آپ کے لیے بھی سوچیں کہ ایک دن خدا کی عدالت لگے گی اور سب اپنے اپنے اعمال کے جوابدہ ہوں گے۔

ایسی آسان اسکیمیں بنائی جائیں جو خواتین کے لیے کارآمد اور ان کی عزت بڑھانے کا باعث بنیں۔ اچھے ذہن آگے لائے جائیں۔ نوجوانوں کے لیے مثبت سرگرمیاں اور سوشل ایکٹویٹیز کا صحیح سمت میں آغاز کیا جائے۔

علم تو ہم مسلمانوں کی ہی میراث ہے جو اب نہ جانے کہاں کھو گئی ہے۔ بڑے بڑے سائنسدان، بڑے بڑے سیاستدان، لاجواب ایجادات، فلسفہ یا شاعری تمام تر راستے ہم نے آباد کیے اور اب ہم ہی گمراہی کی جانب چل پڑے ہیں۔ پنجاب میں شہباز شریف ہوں یا حمزہ شریف، سندھ میں بلاول بھٹو ہو یا عمران خان کا KPK یہ سب کا سب ہی پاکستان ہے۔

اور پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے، سازشوں کے کنوئیں کھودنے کی بجائے اگر سب مل جل کر صرف اور صرف پاکستان کا سوچیں اور ان کروڑوں لوگوں کا سوچیں جن کی آپ سے بلند توقعات ہیں جو خدا کے بعد آپ کو ہی اپنا مانتے ہیں اور زندگی اور موت کی بھی پروا نہیں کرتے، ایسے لوگوں کے لیے آپ کے پاس کیا ہے؟ کیا اسپتال بنانا مشکل کام ہے، کیا تعلیمی ادارے بنانا چاند پر جانا ہے، کیا تعلیم حاصل کرنا فرض نہیں؟ جب آپ کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں تو اس قوم کے بچوں کا کیا قصور جو آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ کو منصب پر بٹھاتے ہیں۔ آخر دھوکہ و فریب کب تک عوام کا مقدر ہو گا؟ کھول دیجیے علم کے بند دروازے، توڑ دیجیے وہ بڑے بڑے تالے جو ان دروازوں پر پڑے ہیں، اور ان بند دروازوں کے پیچھے روشنی ہی روشنی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔