سچائی اور خلوص!

فرح ناز  منگل 24 نومبر 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں الیکشن چاہے کوئی بھی ہو بڑے دھوم دھام سے آتے ہیں اور اس جنازے کی طرح ہوتے ہیں جو دھوم سے نکلتا ہے اور بہت ساری جگہوں پر میڈیا کے مطابق ’’کانٹے‘‘ کا مقابلہ ہوتا ہے۔ اب یہ نہیں پتا کہ جیت کس کی ہوتی ہے۔

کانٹا لگنے والے کی یا کانٹا لگانے والے کی، مگر تھرلنگ سچویشن ضرورپیش کی جاتی ہے۔ (ن) لیگ، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اورکراچی، حیدر آباد میں ایم کیو ایم۔ چونکہ کچھ سخت حالات میں بھی ہے مگر اس کے باوجود سخت محنت بھی کر رہی ہے ، حیدر آباد اورکراچی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے، بلاول بھٹو ایک مرتبہ پھر سے فرنٹ پر نظر آرہے ہیں اور اندرون سندھ کے دوروں میں تقاریر اور عوام دوست مناظر پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔

ہرچندکہ پیپلزپارٹی بہت تیزی سے پستی کی طرف رواں دواں ہے اور اگر اس کو ڈرپ وقت گزرنے کے بعد لگائی گئی تو یہ اس کے لیے بہتر نہیں ہوگا، مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے اور بقول ان کے ترقی کے اس دور میں بھی پیپلز پارٹی شہیدوں کا نام لے کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔

نہ کوئی قابل فخرکام، بے شمار ان کے لوگوں پر کرپشن کے الزامات، چائنا کٹنگ، کوڑیوں کے بھاؤ پلاٹ دیے اور وغیرہ وغیرہ کے الزامات کے ساتھ۔ شہیدوں کا نام مسلسل استعمال کرکے آخر کب تک لوگ ان کو ووٹ دیتے رہیں گے؟ اور کب تک ترقی کے اس دور میں یہ لوگوں سے ہمدردی سمیٹتے ہوئے ان کو لوٹتے رہیں گے۔ دھوم دھڑکے کے ساتھ ساتھ انتخابات کئی معصوم لوگوں کی جانوں کے نذرانے بھی لیتے ہیں اور ہار جیت کے ساتھ ساتھ کھل جاتا ہے الزامات کا پنڈورا باکس! اور ہفتوں ان کا پوسٹ مارٹم مگر رزلٹ وہی۔

پی ٹی آئی کی پوزیشن بلدیاتی انتخابات میں زیادہ روشن کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ ابھی تک عمران خان اور ریحام کی شادی اور طلاق پر ڈسکشن ہو رہے ہیں۔ چار دیواری کی باتوں کو مرچ مصالحے کے ساتھ ریحام میڈیا کی زینت بناتی نظر آتی ہے شاید پیسے کمانے کے اس موقعے کو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔کل کوئی ان کو پوچھے یا نہ پوچھے۔ بہرحال یہ ایک قصہ پارینہ بن جائے تو اچھا ہے۔ بہرحال (ن) لیگ پنجاب میں ڈھول تاشے کے ساتھ آگے آگے ہے۔

حیدرآباد میں MQM کی کامیابی نظر آتی ہے اور اتنی تلخی کے باوجود مضبوطی سے جمنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ ایم کیو ایم کے تمام لیڈران اور کارکنوں کے لیے یہ بہت خوشی کی بات ہے مگر خدا کے واسطے عوام کو ڈلیور کریں وہ تمام لوگ جو اس بلدیاتی الیکشن کے نتیجے میں سامنے آرہے ہیں اتنا کچھ ہونے کے بعد عوام کے حقوق ان تک پہنچائیں سب کچھ اپنے گھر لے جانے کی بجائے سب کو تھوڑا تھوڑا بانٹنے کی پالیسی اپنائیں۔

بیشمار کام، بیشمار پروجیکٹ انتظار میں ہیں کہ ان کو شروع کیا جائے۔ شہر ہو یا گاؤں منتخب نمایندے دلجمعی کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ میدان میں اتریں اور کچھ ایسے اچھے کام کریں کہ جو ان کی پہچان بن جائیں۔ گلی گلی منتظر ہے سنوارنے کے لیے۔ کافی بریک کے بعد یہ منتخب نمایندے انرجی اورصحیح سمت کے ساتھ بہت اچھی پرفارمنس دے سکتے ہیں اگر فنڈز اور پاور ان کو منتقل کی گئی تو،اگر پارٹیز ڈمی کی طرح ان بلدیاتی نمایندوں کو استعمال کرتی ہیں تو پھر کچھ نہیں ہوسکے گا سوائے ایک مذاق کے جس پر قوم کی دولت اور وقت دونوں برباد ہونے کے مترادف ہیں۔

ایم کیو ایم تن تنہا کراچی جیسے بڑے شہر پر حکومت کرتی رہی سوچنے کی بات یہ ہے کہ کراچی کو ایم کیو ایم نے کیا دیا سوائے اس کے کہ ان کی اپنی پارٹی کے چند سو لوگ شاید اب ارب پتی ہوگئے جو اپنے مرکز میں جھاڑو لگاتے تھے یا ٹیبل صاف کرتے تھے وہ اب پاکستان اور پاکستان سے باہر بڑے بڑے کاروبار کے مالک ہیں اور خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں، سب جانتے ہیں۔ان کرائسس کے دنوں میں الطاف حسین صاحب نے خود بھی یہ باتیں تسلیم کیں کیونکہ ان لوگوں نے ٹھیک ٹھاک دولت کمالی تو پھر عوام کے مسئلے مسائل سننے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں رہا، جہاں جہاں ان لوگوں کو اپنے مفادات نظر آئے ان کے رخ اسی طرف پھر گئے۔

الطاف حسین کیونکہ برسہا برس سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اس لیے ان کو ’’سب اچھا ہے‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اصل صورتحال سے اکثر وہ لاعلم رہے جس کی بنا پر دوریاں بڑھیں اور موجودہ صورتحال سب کے سامنے موجود ہے۔

ایم کیو ایم ایک ایسی جماعت ہے جس میں نظم وضبط کمال کا ہے عورتوں کی عزت و احترام بھی ہے مگرکیا کیجیے کہ دولت کے انبار لگا کر سیٹھ بننے کے شوق نے اس پارٹی کے مخلص لوگوں کو بھی اپنے شکنجے میں لے لیا۔ بے انتہا ذہین لوگ، بے انتہا جدوجہد کرنیوالے لوگ اس پارٹی کا حصہ ہیں مگر جس طرح کی توقع ایم کیو ایم سے تھی یہ جماعت تمام تر پاور رکھنے کے باوجود عوام کو بھرپور ڈلیور نہیں کرسکی۔اگر تھوڑی سی لگن اور سچائی کے ساتھ یہ جماعت اور اس کے لوگ عوام کی خدمت کرتے تو یہ کہاں سے کہاں جاتی۔

کرپشن ہر جماعت میں موجود ہے کرمنل بھی ہر جماعت میں ہیں مگر یہ پارٹی سربراہ کی ذمے داری اور اس کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ ان تمام پر کیسے کنٹرول کرتا ہے۔ ایم کیوایم نے کراچی کے لوگوں کے دلوں پر راج کیا بلکہ دل و دماغ پر بھی حاوی رہی ، اگر اسی خوبصورتی کے ساتھ تمام سیاسی فائدے اور نقصان کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا اور عوام کو ہی اصل طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا اور ان کی بہبود کے لیے Basic پروجیکٹ بنائے جاتے جوکہ اس شہر کی اصل ضرورت ہیں عوام کے خاص طور پر نوجوانوں اور عورتوں کے مسائل حل کیے جاتے تو نقشہ کراچی کا بھی الگ ہوتا اور ایم کیو ایم کا بھی الگ ہوگا۔

بھروسہ اور اتنا اعتماد ان کے لیے شہریوں میں موجود تھا اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی، جس مقام پر یہ جماعت پہنچ کر واپس گری ہے یہ سوچنے کا مقام ہے، کیا یہ صرف چند سو لوگوں کو فائدہ دینے کے لیے تھی۔ وہ کروڑوں لوگ جو ان سے آس لگائے بیٹھے تھے بہتری کی، ان کا کیا قصور؟ وہ نوجوان جنھوں نے اپنا قیمتی وقت ان کو دیا وہ خواتین جو دن و رات جدوجہد میں ان کے ساتھ شامل رہیں انھوں نے کیا حاصل کیا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ الطاف حسین اگر شروع سے عوام میں موجود ہوتے تو کراچی کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔

مگر بداعتمادی کی فضا نے اور ان ہی کے اپنے لوگوں کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے یہ پارٹی کمزور ہوئی، اب دوبارہ سے ایک طویل وقفے کے بعد بلدیاتی انتخابات کا عمل جاری ہے اور اس عمل میں کتنی سچائی یا خلوص ہے، وہ سب کو نظر آرہا ہے۔ پنجاب میں تمام پاورز صوبائی حکومت اپنے سوا کسی کو دینے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی بلاول کو فرنٹ پر لانے کے باوجود ووٹ حاصل کرنے کا جادو نہ جگا سکی۔ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کافی چھائی ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی پہلے کی نسبت کمزور ہوئی ہے کہ ان کا پارٹی نیٹ ورک وہ کام کرتا نظر نہیں آتا جس کے ذریعے یہ لوگ عوام میں گھل مل سکیں۔ ایم کیو ایم اپنے تجربے اور ساخت کی بنا پر عوام میں دوبارہ سے گھل مل سکتی ہے، ڈرائنگ روم سے باہر آنا بھی جانتی ہے اس لیے ایم کیو ایم کو بغیر کسی دیر کے جن جگہوں پر وہ جیتیں وہاں عوام کی بہبود کا کام سب سے پہلی ضرورت ہے۔ اب حقیقت اور جھوٹ عوام کو نظر آنے لگا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔