بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 24 دسمبر 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے یہ آبادی صدیوں سے کسی روبوٹ کی طرح اپنے اپنے دور کے نظاموں کے زیر سایہ ایک بے مقصد زندگی گزار رہی ہے۔

اتنی بڑی آبادی کی زندگی کا کوئی مقصد ہے تو بس یہ کہ کھانے کے لیے روٹی، پہننے کے لیے کپڑا، رہائش کے لیے ایک کچا پکا مکان، جب کہ ایک چھوٹی سی دو فیصد کے لگ بھگ آبادی ہر دور میں ایک بامقصد زندگی گزارتی رہی، اس نظام کو مغلیہ امپائر کے بانی شہنشاہ بابر نے ’’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کہا تھا۔ بابر کی اس منطق کے دو پہلو سامنے آتے ہیں ایک یہ کہ زندگی دوبارہ نہیں ملتی دوسرے یہ کہ جو زندگی ملی ہے اسے عیش کوشی میں گزار دیا جائے۔

ظاہر ہے اس قسم کی زندگی کی اہلیت بابر کے طبقے کے لوگوں کو ہی حاصل رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عیش کوشی یعنی عیش عشرت کی زندگی گزارنے کا حق کیا صرف بابر کے طبقے ہی کو حاصل ہونا چاہیے؟ یا ایک پرمسرت زندگی گزارنے کا حق خدا کے پیدا کردہ ہر انسان کو ہونا چاہیے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں زندگی کی اس حقیقت کے مضمرات کا جائزہ لینا چاہیے جس نے بابر کو تو اس حقیقت سے روشناس کرادیا کہ ’’عالم دوبارہ نیست‘‘ اور اسے یہ احساس بھی دلادیا کہ اس فانی زندگی کو کس طرح گزارنا چاہیے لیکن بابر کی رعایا کو یہ بتایا گیا کہ ’’عالم دوبارہ است‘‘ اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ یہ زندگی ایک امتحان ہے جو اس امتحان میں کامیاب رہے گا وہ دوبارہ ملنے والی زندگی میں بابر سے زیادہ پرتعیش زندگی حاصل کرلے گا۔ انسان اگر بابر کی عقل استعمال کرنے لگے تو وہ ایک ایسی مایوسی کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے جو اس سے زندگی کا جواز ہی چھین لیتی ہے۔

اس حقیقت کا ادراک کرنے والے مدبرین اور اکابرین نے زندہ رہنے اور مایوسی سے بچنے کے لیے سزا و جزا کا تصور پیش کیا اور اس زندگی کو اس سزا جزا کے تصور سے اس طرح جوڑ دیا کہ انسان زندگی کی اس بے مقصدیت کے تصور سے بچ کر امید کا دامن تھام لینے کا اہل ہوگیا اور آج دنیا بھر میں زندگی کی اس چہل پہل کی وجہ بھی یہی دوبارہ ملنے والی زندگی کا تصور ہے۔ اگر یہ تصور نہ ہو تو زندگی مایوسیوں اور بے مقصدیت کے صحراؤں میں اس طرح بھٹک جائے گی کہ ہر شخص گوتم بدھ بن کر دنیا سے کنارہ کش ہوجائے گا۔

اس بابری فلسفے کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی بابر کی زندگی کی طرح گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی ناانصافی ہے جسے اکابرین وقت نے دانستہ یا نادانستہ صبر و شکر سے ڈھانپنے کی کوشش کی۔

ہم نے جیساکہ امکان ظاہر کیا صبر و شکر کا فلسفہ انسانوں کی بہتری کے لیے پیش کیا ہو لیکن اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ مجبور و مظلوم انسان اپنے اچھی اور آسودہ زندگی کے حق کے حصول سے لاپرواہ ہوگیا اور اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ استحصالی طبقات نے اس فلسفے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ذریعہ بنالیا پاکستان کے 20 کروڑ اور دنیا کے 7 ارب انسان اگر یہ جان لیں کہ غربت بھوک و افلاس ان کا مقدر نہیں بلکہ استحصالی نظاموں کی دین ہیں۔ تو وہ صبر و قناعت کو بالائے طاق رکھ کر ایک پرمسرت اور آسودہ زندگی حاصل کرنے کے حق کے حصول کے لیے سر سے کفن باندھ کر کھڑے ہوجائیں گے۔

بادشاہی نظام جاگیردارانہ نظام کے بعد اب ساری دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے جس نے انسانوں کو طبقات میں بانٹ دیا ہے اور اس طبقاتی نظام کے استحکام کا بڑا ذریعہ قسمت پر یقین کے تصور کو مضبوط بنانا قسمت جزا و سزا کے فلسفوں کو ہمیشہ استحصالی طبقات نے اپنے مقاصد یعنی عوام کے استحصال کے لیے استعمال کیا۔

ماضی میں علم اور معلومات کی کمی کی وجہ سے اس قسم کے فلسفوں کو عوام کے استحصال کے لیے کامیابی سے استعمال کیا گیا اگرچہ اب ماضی کے مقابلے میں علم اور معلومات میں ایک ناقابل یقین انقلاب آگیا ہے لیکن بدقسمتی یا انیّائے یہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ علم سے محروم ہے یا محروم کردیا گیا ہے۔

علم اور شعور کے اس فقدان نے انسان سے وہ جذبہ چھین لیا ہے جو اسے ’’بابر بہ عیش کوش‘‘ سے نابلد رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بابر کو بادشاہ وقت ہونے کی وجہ سے زندگی کو عیش و عشرت میں گزارنے کا فن اور مواقع حاصل تھے اور رعایا اس کی زندگی کے حصول سے محروم تھی لیکن ایک پرمسرت اور آسودہ زندگی گزارنے کا حق بابر کی رعایا کو بھی حاصل تھا اور آج کے ترقی یافتہ دور کے عوام کو بھی یہ حق حاصل ہے مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس حق کے حصول کے لیے محروم و مظلوم عوام میں ترغیب کس طرح پیدا کی جائے اور کس طرح انھیں قسمت کے پنجے سے نجات دلائی جائے۔

صدیوں تک انسان زمین یعنی کرہ ارض ہی کو کل کائنات سمجھتا رہا اور اسی پس منظر میں عقائد اور نظریات کی تشکیل ہوتی رہی یعنی عقائد و نظریات ہمیشہ علم اور معلومات کی بنیاد پر تشکیل پاتے رہے۔ انسان ہزاروں سال تک جس کرہ ارض کو کل کائنات سمجھتا رہا اسے جدید علوم نے غلط ثابت کردیا اور معلوم ہوا کہ زمین کل کائنات نہیں بلکہ کائنات کے ناقابل تصور پھیلاؤ میں ایک ایٹمی ذرے سے بھی چھوٹا ذرہ ہے۔

اس پس منظر میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عقائد و نظریات کی نئی تفہیم ہوتی اور انسانی زندگی کو پرمسرت بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن اس کے برخلاف آج مذہبی انتہا پسندی کے ذریعے جدید دنیا ہی کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس حوالے سے یہ سوچنا منطقی نظر آتا ہے کہ یہ سب کچھ پرانے ’’قیمتی نظام‘‘ کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا طبقات میں بٹی رہے اور اس کا جواز قسمت کو بنادیا جائے۔

ماہرین ارض کا کہنا ہے کہ زمین کو وجود میں آئے ہوئے اب چار ارب سال ہو رہے ہیں اور اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہو تو ہمارا کرہ ارض ابھی تین ارب سال تک برقرار رہ سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طویل عرصے کے دوران انسانی زندگی کو طبقات میں بانٹے رکھ کر 90 فیصد عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم رکھا جائے اور دو فیصد اقلیت کو عیش کوشی کی اجازت دی جائے؟ یہ اکثریت کے ساتھ ایک ایسی ناانصافی ہے جسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے اور یہ کام نہ سیاستدان کرسکتے ہیں نہ حکمران کیونکہ ان کی عیش کوشی کا انحصار ہی عوام کی ’’بے ہوشی‘‘ پر ہے۔ اس نظریاتی دلدل سے عوام کو باہر نکالنے کا کام اہل علم، اہل دانش، اہل فکر، اہل قلم ہی انجام دے سکتے ہیں۔

اور سب سے پہلے انھیں قسمت ، سزا جزا کے اس تصور سے باہر نکالنا ہوگا جس کے فلسفوں کو استحصالی طبقات اپنی عیش کوشیاں برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ زندگی بے مقصد حقیقت ہونے کے باوجود زندگی ہے خواہ اس کا دورانیہ مختصر ہو یا طویل اس دورانیے کو عذاب سے نکال کر دنیا بھر کے عوام کے لیے اس قدر پرمسرت بنادیا جائے کہ وہ بھی زندہ رہنے اور زندگی سے استفادہ کرنے کے قابل بن جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔