ایک ناقابل برداشت جُرم

آج اتوار 27 دسمبر کو پھر وہی خبر چھپی ہے جو کسی غیرت مند پاکستانی اور مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے


Abdul Qadir Hassan December 29, 2015
[email protected]

آج اتوار 27 دسمبر کو پھر وہی خبر چھپی ہے جو کسی غیرت مند پاکستانی اور مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اجتماعی لاتعلقی اور قومی تغافل کو کیا کہئے کہ ہم اس جرم کے مجرموں کو معاف کر دیتے ہیں ان کی گرفتاری کی خبر تو ملتی ہے اور ساتھ ہی ان کے جرم کا ذکر بھی کیا جاتا ہے لیکن ان کی سزا کا کچھ پتہ نہیں چلتا اگر کسی کا کچھ پتہ چلتا ہے تو ساتھ ہی یہ المیہ بھی سامنے آ جاتا ہے کہ یہ کمزور مجرم تھے جو پکڑنے والوں کے ہاتھوں سے اپنے آپ کو چھڑا نہ سکے ورنہ ان کے کتنے ہی ساتھی اس جرم کو ہضم کر چکے ہیں، اس کو مکرر بھی کر رہے ہیں اور دوست احباب میں اپنا ٹُہر بنا کر مزے سے پھرتے ہیں۔

اس جرم کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور پاکستانی غیرت کھول جاتی ہے مگر یہ جرم جاری ہے۔ یہ جرم ہے کسی مسلمان پاکستانی لڑکی کی عصمت دری کا جو بعض اوقات اجتماعی نوعیت کی بھی ہوتی ہے یعنی ایک سے زیادہ بے غیرت پاکستانی مرد یہ کارنامہ سر انجام دیتے ہیں اور اس جرم کا تمغہ سینے پر سجاتے ہیں اس جرم کی خبر میں نہ صرف مجرموں کے نام بتائے جاتے ہیں بلکہ دیگر تفصیلات کی طرف بھی واضح اشارے کیے جاتے ہیں۔

بعد میں بعض اوقات ان مجرموں کی حوالات میں بندش کے دوران کی تصویریں بھی اتار کر اخباروں میں شایع کرائی جاتی ہیں یعنی اس جرم کی سزا کا پورا ابتدائی بندوست کر دیا جاتا ہے جس پر تفتیش نہ صرف آسان ہو جاتی ہے بلکہ کامیاب بھی ہو سکتی ہے کیونکہ مجرموں کے ناموں ان کی تصویروں اور پتے وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان کا خاندانی تعلق بھی بیان کر دیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ان کے معروف اور با اثر رشتہ داروں کے نام تک بھی دے دیے جاتے ہیں۔ مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود ان مجرموں کو قانون کے پوری طرح حوالے نہیں کیا جاتا اور ان کو صحیح سزا نہیں ملتی۔ میں سزا کی بات تو بعد میں کروں گا فی الحال سوال یہ ہے کہ یہ مجرم سزا تک کیوں نہیں پہنچتے اور راستے میں کیا کچھ ایسا حادثہ ہو جاتا ہے جو انھیں سزا سے بچا لیتا ہے۔

یہ بیان کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ضرورت ہے کہ ایک مسلمان لڑکی کی یہ توہین کتنا بڑا جرم ہے اور مسلمان معاشرے کے لیے یہ کس قدر شرمناک ہے۔ اگر میں اس جرم کا ذکر کرنے کی جرات اور ہمت نہیں کر پاتا تو آپ بھی اس کا ذکر کیسے کر سکتے ہیں۔ کسی مسلمان لڑکی کی یہ توہین اس کے قتل سے زیادہ خوفناک ہے اور اگر یہ زیادتی ظاہر ہو جائے تو اس لڑکی کی زندگی کیسے گزر سکتی ہے۔ بہت سی تو خود کشیاں کر لیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس جرم کی قرار واقعی سزا دی جائے کچھ نوجوان اس لڑکی کے قتل کی سزا میں موت کی گھاٹ اتر جائیں کیونکہ کسی لڑکی کے ساتھ یہ جرم اس لڑکی کے قتل کے برابر ہے بلکہ اس کے لیے ایک ایسی دکھ بھری شرمناک زندگی ہے جو قدم قدم پر اس لڑکی کے ضمیر کو رسوا کرتی رہتی ہے۔

یہ میں اس صورت میں لکھ رہا ہوں جب اس لڑکی کی شنوائی نہ ہو۔ تعزیرات پاکستان میں اس کی سزا تو ہے لیکن یہ بھی قید کی کسی میعاد تک محدود ہو گی جب کہ اس جرم کی سزا صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ ایسے مجرم پر یہ زندگی حرام کر دی جائے اور اسے بھی اس مظلوم لڑکی کی طرح کسی ایسی زندگی کے سپرد کر دیا جائے جو موت سے بھی برتر ہو اور وہ قدم قدم پر مرتا رہتا ہو۔

اس کی دو سزائیں تجویز کی جاتی ہیں ایک تو سزائے موت ہے دوسری کوئی ایسی سزا جو موت سے برتر اور ایک شرمناک زندگی کے برابر ہو اور مجرم کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے۔ ہماری تعزیرات پاکستان جن لوگوں نے تجویز کی ہیں انھوں نے سستی سے کام لیا ہے یا پھر ان کے ضمیر کے لیے یہ کوئی بڑا جرم نہیں تھا جس کی کوئی زبردست سزا مقرر کی جاتی۔ ہماری اسمبلیاں موجود ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے جرائم کی سزاؤں پر نظرثانی کریں جو بعض جرائم کی ان دنوں ہو بھی رہی ہے کسی اسمبلی کے سامنے جب کسی ایسے جرم کی بھیانک روداد پیش ہو تو اس کے ارکان غیظ و غضب سے کانپتے ہاتھوں سے سخت ترین سزا تجویز کریں اور دیکھیں کہ یہ سزا نافذ بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ ایک بار بھی یہ سزا نافذ ہو گئی تو پھر ایسے جرائم میں کمی لازمی ہے۔ کسی بھی جرم کی سزا ہی اس جرم کو ختم کر سکتی ہے۔

اس جرم کی صحیح سزا کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے کم و بیش دوسرے تیسرے دن ایسی کوئی نہ کوئی خبر نظر سے گزرتی ہے جو ایک پاکستانی دل پر قیامت بن کر گزرتی ہے۔ پاکستان کو مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا تا کہ مسلمان غیر مسلم قوموں کی دستبرد سے محفوظ رہیں لیکن پاکستان بنانے والوں کو اس کا وہم بھی نہ تھا کہ ان کے اپنے شہری ہی مسلمانوں کی وہ دلشکنی اور بے عزتی کے لیے موجود ہوں گے ایسی کسی شرمناک صورت حال سے بچنے کے لیے فوری کارروائی بذریعہ قانون اور پھر اس کے نفاذ کے ذریعے لازم ہے اگر ہمارے محافظ ادارے اور قانون ساز اس پر توجہ نہیں دیتے تو وہ گویا اس جرم میں شریک ہوتے ہیں یا کم از کم اسے برداشت کرتے ہیں۔

مقبول خبریں