’’شاہینوں‘‘ کی بے عزتی نہ کرائیں

ٹیم مسلسل زوال کی طرف جا رہی ہے کسی کو کوئی فکر نہیں،


Saleem Khaliq January 23, 2016
ٹیم مسلسل زوال کی طرف جا رہی ہے کسی کو کوئی فکر نہیں،

''یہ آپ میڈیا والے کرکٹرز کو شاہین کیوں کہتے ہیں،وہ ایسے نہیں ہوتے کہ ایک دن بلند پرواز کریں تو دوسرے دن اڑنا ہی بھول جائیں،آپ لوگ ان کیلیے کوئی نیا لقب سوچیں کیوں شاہینوں کی بے عزتی کراتے ہیں''

غصے میں جلے بھنے ایک کرکٹ شائق نے مجھ سے جب یہ بات کہی تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ وہ غلط تو نہیں کہہ رہا، واقعی ہماری ٹیم کا جو حال ہے اس پر یہ لقب فٹ نہیں بیٹھتا، اگر لڑ کر ہارو تو کوئی افسوس نہیں مگر جس طرح نیوزی لینڈ نے آخری دونوں ٹوئنٹی 20میچز میں ہمیں آسانی سے زیر کیا وہ قابل افسوس ہے۔

ایک ایسی ٹیم جس نے پہلا میچ جیتا مگر اگلا 10 وکٹ سے ہار گئی اور پھر تیسرے میں بھی بدترین شکست ہوئی تو اس کا مطلب ہے کہ معاملات درست نہیں،نیوزی لینڈ کی بولنگ کیلیے نسبتاً بہتر پچز پر ہمارے فاسٹ بولرز کی بدترین پٹائی ہوئی آپ یہ سوچیں کہ بھارت کی بیٹسمینوں کیلیے جنت وکٹوں پر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران کیا ہو سکتا ہے؟ جس ٹیم کا پہلا اوور انور علی جیسا پیسر کرائے اس کا تو اﷲ ہی حافظ ہے، تیسرے میچ میں ان کے ساتھ اولین اوورمیں کیویز نے جو سلوک کیا اسی نے شکست کی بنیاد رکھی،مینجمنٹ کے غلط فیصلے بھی واضح دکھائی دیے۔

ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کر کے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری گئی، بھائی آپ کے پاس کون سے جاوید میانداد، انضمام الحق اور ظہیر عباس جیسے بیٹسمین موجود ہیں جو ہدف کا تعاقب کرنے چلے، موجودہ بیٹنگ لائن کو تو197 کا ٹارگٹ دیکھ کر ہی چکر آنا شروع ہو گئے ہوں گے، جو افراتفری مچی اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے،15رنز پر 3 کھلاڑی آؤٹ، ایسے میں 100رنز مکمل ہونے پر ہی شکر ادا کرنا چاہیے، احمد شہزاد سوشل میڈیا کے شہزادے ہیں۔

ان کے بارے میں کچھ لکھو تو ٹویٹر پر ان کے چاہنے والے شور مچا دیتے ہیں، میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ 3 میچز میں 33رنز بنانے والا کون سا ہیرو ہوتا ہے، اگر جازب نظر ہونا ہی ان کی قابلیت ہے تو فواد خان کو ٹیم میں لے لیں اتنا اسکور تو وہ بھی کر دیں گے،گذشتہ کئی ٹی ٹوئنٹی میچز سے احمد شہزاد کی کارکردگی اچھی نہیں ہے، اب وقت آ گیا انھیں گھر بھیج کر کسی باصلاحیت کھلاڑی کو موقع دیں، تب تک وہ ٹویٹس کر کے دل بہلا لیں گے پھر ڈومیسٹک میچز کھیل کر فارم میں واپس آ جائیں تو واپس بلا لیں،اسی طرح محمد حفیظ نے ملکی وقار وغیرہ وغیرہ کی بڑی بڑی باتیں کیں مگر پھر عامر کے ساتھ تینوں میچز کھیلتے ہوئے بھی دکھائی دیے، کیمپ کا بائیکاٹ کرکے پوری دنیا میں پاکستان کو مذاق کا نشانہ بنانے کے بعد انھیں عقل آئی۔

پہلے میچ میں بیٹنگ بھی بہتر کی مگر پھر اگلے دونوں مقابلوں میں فلاپ ہو گئے، ایک سینئر کھلاڑی سے ایسی توقعات وابستہ نہیں کی جاتیں،صہیب مقصود بھی ایسا لگتا ہے کہ بیٹنگ بھول چکے، شعیب ملک غیرمعمولی کارکردگی نہ دکھا سکے، پہلے میچ میں میچ وننگ کارکردگی کے بعد شاہد آفریدی بھی بجھے بجھے دکھائی دیے، عمر اکمل نے ابتدائی دونوں میچز میں بہتر بیٹنگ کی تو اس کا انعام انھیں تیسرے میچ میں چھٹے نمبر پر بھیج کر دیا گیا، اتنے بڑے ہدف کے تعاقب میں عمرکو تیسری پوزیشن پر کھلانا چاہیے تھا شاید کچھ کر دکھاتے، سرفراز احمد سے تو کوچ وقار یونس کو نجانے کون سی عداوت ہے۔

ابتدائی دونوں میچز میں آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرائی،تیسرے میچ میں جب 197کا ہدف ملا تو پانچویں پوزیشن پر بھیجا،انھوں نے اس کے باوجود اپنی پوری کوشش کی اور سب سے زیادہ 41رنز بنائے، عماد وسیم کی بیٹنگ دیکھ کر شاہد آفریدی یاد آتے ہیں مگر انھیں حد سے زیادہ جارحیت سے گریز کرنا ہوگا ورنہ بھولی بسری داستان بن جائیںگے،اسی طرح پیسرز کی کارکردگی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ان کا کوچ ماضی کا عظیم فاسٹ بولر وقار یونس ہے، لائن و لینتھ سے عاری بولنگ پر کیویز کو کسی وقت بھی رنز کے حصول میں مشکل نہ ہوئی، محمد عامر کو بڑے بڑے دعوے کر کے ٹیم میں لایا گیا اور 3میچز میں انھوں نے 100 رنز دے کر ایک وکٹ لی۔

اب چیف سلیکٹر ہارون رشید کو محمد آصف کو لانے کا سوچنا چاہیے، ڈومیسٹک میں عمدہ پرفارمنس کے بعد اوپنر سلمان بٹ کو ہونا چاہیے، کوچ کی ضرورت پڑے تو سلیم ملک موجود ہیں ناں، بھئی جب وقار یونس اور مشتاق احمد ٹیم کی کوچنگ کر سکتے ہیں، وسیم اکرم کو پی ایس ایل کا سفیر بنایا جا سکتا ہے، عامر کو فاسٹ ٹریک پر ٹیم میں جگہ دینا ممکن ہے تو پھر ان تینوں کا کیا قصور ہے؟افسوس ہم بحیثیت قوم ہی اب ایسے ہی لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔

جو ان کیخلاف بات کرے وہ برا بن جاتا ہے، ٹیم مسلسل زوال کی طرف جا رہی ہے کسی کو کوئی فکر نہیں، ہارون رشید سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ بھئی آپ نے عرفان کو ٹی ٹوئنٹی کیلیے کیوں منتخب نہیں کیا،کوچ وقار یونس کو مسلسل ناکامیوں کا صلہ عہدے کی معیاد میں اضافے کی صورت میں دیا گیا، شہریارخان کو اب کسی معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، نجم سیٹھی اور ان کی بورڈ میں وہی اہمیت ہے جو وزیر اعظم اور صدر کی ان دنوں ہمارے ملک میں ہے،شاید اسی لیے شہریارخان کو عہدے پر برقرار رکھا جا رہا ہے کہ ان سے اچھا ''یس مین'' اور آنکھ بند کرکے پی ایس ایل کے چیکس پر دستخط کرنے والا دوسرا چیئرمین کہاں ملے گا، میڈیا تنقید کرے تو کہا جاتا ہے کہ ٹورز بند کیے ہوئے ہیں اس لیے خلاف ہیں، حالانکہ میرے جیسا عام صحافی بھی یو اے ای میں انگلینڈ سے سیریز کی کوریج کیلیے 2بار گیا۔

ادارے نے بھی سپورٹ کیا، اس کے علاوہ بھی عبدالماجد بھٹی،یحییٰ حسینی، عبدالرشید شکوراور شاہد ہاشمی جیسے دیگر کئی صحافی ٹورز پر جاتے رہتے ہیں،بورڈ اچھے کام کرے تو ہی کوئی تعریف کرے گا ناں، جیسے ان دنوں آغا اکبر بطور میڈیا منیجر نیوزی لینڈ میں عمدگی سے فرائض انجام دے رہے ہیں تو انھیں سراہنا چاہیے،اب کوئی سابق کرکٹر تنقید کرے تو کہا جاتا ہے کہ بورڈ میں ملازمت کیلیے ایسا کر رہا ہے، میڈیا کیلیے ٹور کی باتیں ہوتی ہیں، بس بورڈ میں موجود لوگ دودھ کے دھلے ہیں جو اپنے کام سے زیادہ لاکھوں روپے تنخواہیں، گاڑیوں و دیگر سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں،ٹیم کے ساتھ ہر ٹور پر بھی ان کا جانا ضروری ہوتا ہے، ان سے کوئی حساب لینے والا نہیں، شاید اسی لیے ہماری کرکٹ کا یہ حال ہوتا جا رہا ہے، آگے بھی نجانے مزید کیا کیا دیکھنا پڑے، شائقین کو اس کیلیے تیار رہنا چاہیے۔

مقبول خبریں