نہ تعزیت نہ مبارک

یہ دن اس قدر بے عملی میں گزر رہے ہیں کہ اپنی زندگی کی سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ یہ کیوں ہے اور اس کا مقصد کیا ہے


Abdul Qadir Hassan January 28, 2016
[email protected]

یہ دن اس قدر بے عملی میں گزر رہے ہیں کہ اپنی زندگی کی سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ یہ کیوں ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔ ان دنوں کتنی ہی شادیاں 'برپا' ہوئیں اور کئی قریبی دوستوں کے ہاں کہ انھوں نے دھمکی دی کہ اگر کوئی بہانہ بنایا تو یہ نا قابل قبول ہو گا۔ اب میں کس کس کا نام لوں مثلاً شعیب بن عزیز کے ہاں ایسی ہی تقریب تھی اور دھمکی بھی پیشگی مل چکی تھی لیکن کسی شعری مذمت کے خطرے کے باوجود میں حاضری نہ دے سکا۔

اس سے قبل میرے پرانے مہربان خاندان جنرل اختر کے بچوں کے ہاں شادیاں ہوئیں لیکن وہاں بھی حاضری نہ ہو سکی اور ہمایوں اختر کی تلاش میں ہوں کہ ایک نہیں دو شادیوں میں عدم شرکت کی معذرت کر سکوں اسی طرح بعض دوستوں کے عزیز فوت ہو گئے اور میں گھر بیٹھے ہی فاتحہ خوانی کرتا رہا لیکن کسی تعزیتی تقریب میں شریک ہو کر براہ راست تعزیت نہ کر سکا۔ ابھی آج ہی میاں عامر محمود کے والد ماجد کی وفات کی خبر ملی اسی طرح اور کتنی ہی تعزیتیں تھیں جن میں حاضری نہ دے سکا۔

شادی میں عدم شرکت تو معاف ہو سکتی ہے لیکن تعزیت میں نہیں، میں قریبی دوست صحافیوں کے ہاں بھی تعزیت کے لیے نہ جا سکا۔ میری ایک ٹانگ میں تکلیف ہے جو میری نقل و حرکت میں رکاوٹ ہے اور یوں میں جیتے جی ناکارہ ہو گیا ہوں۔

زندگی میل جول کا نام ہے۔ دوستوں کے دکھ سکھ میں اگر شریک نہ ہوں تو پھر آپ کیا ہیں اور اب جب میں کالم کے ذریعے کسی تقریب میں شریک ہو رہا ہوں تو عین ممکن ہے کئی دوست مزید ناراض ہو جائیں کہ ایسی قریبی تقریبات میں شرکت کا یہ بھی کوئی طریقہ ہے لیکن اس کوتاہی کا اعتراف ہے اور بے حد معذرت۔ میں اس وقت چل کر حاضر نہیں ہو سکتا اس لیے قلمی اور کالمانہ شرکت کو قبول فرمائیں کیونکہ اس وقت یہی کچھ میری دسترس میں ہے اور غیر حاضری کی معافی کا خواستگار ہوں جس کی تلافی بعد میں ہو گی۔

کچھ پہلے مجھے نمونیا ہو گیا تو ڈاکٹروں نے مجھے ہدایت کی کہ تمہارا سینہ کمزور ہے اس لیے ٹھنڈی ہوا اور سردی سے بچنا لیکن جب پوری فضا ہی سرد ہو جائے اور اسکولوں میں بچوں کو اس خطرناک سردی کی وجہ سے چھٹیاں دے دی جائیں تو فضا میں سخت سردی کی اس سے بڑی تصدیق اورکیا ہو سکتی ہے اور گاؤں سے اطلاع ملی کہ سردی کی وجہ سے پانی جم جاتا ہے اور مٹی کے گھڑوں کو نہ تو آگ پر رکھ سکتے ہیں اور نہ انھیں توڑ کر جما ہوا پانی باہر نکال کر اسے پگھلا سکتے ہیں یہ ایک لطیفہ ہے مگر کوئی روئے یا ہنسے یہ تو ہے ہی۔

بچپن یاد آ رہا ہے صبح اٹھتے ہی پہلا کھیل یہ تھا کہ گھڑوں کے ڈھکن اٹھا کر ان میں ہاتھ ڈالتے تو ہاتھ جمے ہوئے پانی کی سخت سطح پر پڑتا اور پھر گھر والوں سے چھپ کر اس پانی کو کسی چیز سے توڑ دیا کرتے اور اس کے منجمد ٹکڑوں سے کھیلا کرتے جو جلد ہی پگھل جاتے۔ باہر نکل کر کھیتوں پر نظر پڑتی تو ان پر سفیدی کی چادر بچھی ہوئی دکھائی دیتی۔ اس سفیدی کو 'کورا' کہتے یعنی کہر پڑا ہے اس میں فضا بھی جم جاتی اور کھیتوں پر سفید چادر بن کر چھا جاتی۔

ان دنوں لاہور میں بھی اس سے ملتی جلتی سردی پڑ رہی ہے اور استادوں نے بھی اسے شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے کہ اسکولوں میں چھٹی کر دی ہے اور بچے بہت خوش ہیں لیکن اس سردی میں صبح صبح اسکول جانا اور پھر پورا دن اس سردی میں اسکول میں بیٹھے رہنا مشکل ہی نہیں خطرناک بھی ہے اس لیے بڑی مدت کے بعد اسکولوں کی انتظامیہ نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے بچوں سے زیادہ ان کے والدین خوش ہیں جو بچوں کو گھروں سے باہر کھلی جگہوں میں بھیج کر گھروں میں سخت متفکر رہتے اور جب تک بچے خیریت سے گھر نہ آتے وہ گھڑیاں گنتے رہتے۔

میں چونکہ خود والد کی جگہ یعنی دادا ہوں اور بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھتا ہوں اس لیے اپنے تفکرات بیان کررہا ہوں جو ان کے والدین سے زیادہ ہیں۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ بچے کچھ بھی کہیں ان کو ان دنوں اسکول نہیں بھجواؤں گا، معلوم ہوتا ہے محکمہ اسکولیات نے میرے جیسے والدین کی فریاد سن لی ہے ان کے اپنے بچے بھی ہوں گے اس لیے خود وہ بھی اس فریاد میں شامل ہیں اور بچے چھٹیاں کر رہے ہیں اور اس سردی میں وہ سب کچھ کر رہے ہیں جس سے ان کو بچانے کی کوشش میں اسکول بھی بند کر دیے گئے ہیں لیکن بچے بچے ہیں اور ان کو کون قابو کر سکتا ہے۔

چنانچہ وہ کسی بھی اسکول سے زیادہ سردی میں کھیلتے ہیں اور پڑوسیوں کو بھی بلا لیتے ہیں کہ ٹیم بن جائے چنانچہ میرے گھر کے صحن میں دن بھر کرکٹ کے مقابلے ہوتے ہیں چونکہ بچے ہیں اس لیے ان کی ٹیموں کے نام دنیا کی مشہور ٹیموں والے ہیں اور یہ شاید اپنے آپ کو بھی بڑا انٹرنیشنل کھلاڑی سمجھتے ہیں۔

یہ سب سردیوں کی اچانک آمد کا شاخسانہ ہے اور وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ مجھے اپنا پہاڑی گاؤں یاد آ رہا ہے جہاں کی سردیاں برداشت سے باہر ہوتی ہیں اور ان سردیوں میں ہر گاؤں میں ایک دو بزرگ زندگی کو الوداع کہہ جاتے ہیں مگر لاہور میں جہاں بجلی بھی ہے کسی حد تک گیس بھی اور دھوپ بھی آتی جاتی رہتی ہے یہاں سب بزرگ موسم کی شدت سے محفوظ ہیں اور اگلی سردیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ دنیا امید پر قائم ہے گویا رواں سردیاں انھوں نے ٹال دی ہیں۔

مقبول خبریں