اب انتظار کریں گے ترا قیامت تک
یہ بزرگ انتظار حسین کی مہربانی ہے کہ انھوں نے نہایت خوش دلی اور سخاوت سے اپنے پاس جو کچھ تھا
نہ میں ادیب ہوں اور نہ ہی میرا ادب کی کسی صنف کے ساتھ کوئی خاص تعلق ہے لیکن میرا ایک بڑے ادیب کے ساتھ تحریری تعلق ضرور ہے اور زندگی بھر کا ہے اور اب جب میں اس کا نام لے کر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں تو ڈر رہا ہوں کہ اگر زبان اور محاورے کی غلطی ہو گئی تو وہ کسی ملاقات میں اس کا غیر تنقیدی انداز میں سرسری سا ذکر کر دیں گے اور وہ بھی اس لیے کہ میں نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ میں نے اردو زبان میں لکھنا ان کی تحریروں سے سیکھا ہے اس لیے وہ میری غلطی کو ایک استاد کی کوتاہی بھی سمجھ لیں گے حالانکہ ایک نالائق شاگرد کی ذمے داری کوئی استاد نہیں اٹھا سکتا، اگر اس کا شاگرد کے ساتھ کوئی لگاؤ ہے تو اس کے لیے دعا کر سکتا ہے میں بھی انتظار حسین کا ایک ایسا ہی نالائق شاگرد تھا جس نے انھیں زبردستی استاد بنا لیا تھا اور یہ دعویٰ کرنے لگا تھا کہ میں اردو زبان میں لکھنا انتظار کی تحریروں سے سیکھتا ہوں خصوصاً ان کے کالموں سے۔ میں نے یہ بات انتظار سے بھی کئی بار کہی اور وہ مسکرا دیے۔
یہ بزرگ انتظار حسین کی مہربانی ہے کہ انھوں نے نہایت خوش دلی اور سخاوت سے اپنے پاس جو کچھ تھا وہ اپنے قارئین کے سپرد کر گئے، وہ ان چند اساتذہ میں سے تھے جنہوں نے نہایت ہی فراخدلی کے ساتھ اپنا سرمایہ لٹا دیا اور اپنی طویل عمر اس سخاوت میں لگا دی۔ ایک غیر ادیب ہونے کی وجہ سے میں نے اس رواں دواں چشمے سے خوب نفع اٹھایا اور اس کے فیض سے خوب فیض یاب ہوا۔ وہ اگرچہ اخبار بدلتے رہے لیکن انھوں نے اپنے خوشہ چینوں کو کبھی محروم نہیں کیا بس ادھر ڈوبے ادھر نکلے والا مضمون رہا اور وہ کہیں نہ کہیں مسلسل چھپتے رہے۔
میں نے ان کی پہلی زیارت مشرق میں کی تھی جو بعد میں ٹرسٹ کا اخبار بھی بن گیا تھا لیکن اس کا آغاز کاروبار صحافت کی معروف شخصیت عنایت اللہ نے کیا تھا اور اسے قارئین کے دیکھتے دیکھتے ایک کامیاب اخبار بنا دیا تھا۔ عنایت اللہ جن صحافیوں کو شروع میں ہی مشرق میں لے گئے تھے ان میں انتظار صاحب بھی تھے جو کچی پنسل سے لکھا کرتے تھے۔ تب تک بال پوائنٹ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور انتظار صاحب قلم دوات سے نہیں لکھ سکتے تھے۔ انھیں لکھنے کے لیے میز کرسی پر بیٹھے دیکھنا اور ان کا لکھنے کا انداز یہ سب ہم نو آموز صحافیوں کے لیے ایک درسگاہ کی جماعت تھی۔
وہ کچی سیاہ پنسل سے لکھتے اور اسے دوبارہ دیکھے بغیر ایڈیٹر کی میز پر بھجوا دیتے اور وہ خود ادیب دوستوں کی کسی محفل میں چلے جاتے جو سہ پہر یا شام کو ٹی ہاؤس میں آراستہ ہوتی تھی۔ ٹی ہاؤس اس میز کا نام تھا جو اس ریستوران میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف ایک لمبے سے صوفے کے سامنے لگائی جاتی تھی۔ اسی جگہ نشست کرنے والے ادیبوں کو دیکھنے کے لیے اس ریستوران کی میزیں عموماً بھری رہتی تھیں، اس مشہور میز پر انتظار کے علاوہ بیٹھنے والوں میں کئی دوسرے معروف ادیب ہوا کرتے تھے مثلاً احمد مشتاق جو سامنے کے ایک بینک میں ملازم تھے جو چھٹی ہوتے ہی یہاں آ جاتے تھے اور پھر رات گئے یہیں بیٹھے رہتے تھے۔
وہ ٹی ہاؤس کی ایک پڑوسن پر عاشق تھے معلوم نہیں اس خوبصورت اور چمکتی دمکتی لڑکی کے دل میں بھی ان کے لیے کوئی جگہ تھی یا نہیں لیکن ان کی خوبصورت شاعری کا وہ ایک تابندہ موضوع تھی۔ احمد مشتاق کی زبان میں لکنت تھی اور میں جو اس کا ہمراز تھا اس سے کہا کرتا کہ بس دیکھ لو اس سے بات نہ کرنا ورنہ تم صفر ہو جاؤ گے۔ احمد مشتاق مدتوں سے امریکا میں ہے وہ اب امریکی بن چکا ہے اب کے میں امریکا گیا تو اس سے ضرور ملوں گا، انتظار کے بعد زندہ دوستوں سے ملنے کو بہت جی چاہ رہا ہے۔ امریکا میں اکمل سے اس کا پتہ پوچھ کر اب کے ضرور جاؤں گا بشرطیکہ تب تک وہ اور میں زندہ رہے اگر ایک بھی بچ گیا تو بے کار ہو گا کہ ملاقات تو دو کے درمیان ہی ہو سکتی ہے ایک اکیلا کس کام کا۔
انتظار حسین سے میرا نہ کوئی ادبی رشتہ تھا نہ زمین کا اور نہ ہی زبان کا یوں ہم دونوں مکمل اجنبی تھے اور سوائے اخبار نویسی کے کوئی رشتہ نہ تھا اور انتظار اخبار نویس بھی دو وقت کی روٹی کے لیے تھے ورنہ ان کا اصل میدان ادب تھا لیکن یہ ان کو روٹی نہیں دے سکتا تھا چنانچہ وہ کالم نویسی پر مجبور تھے چونکہ ادب کی دنیا میں ان کا بڑا نام تھا لیکن ہم لوگ جہاں کچھ کوشش کے بعد کالم نویس بنتے تھے انتظار صاحب وہاں خود بخود ہی بار پا جایا کرتے تھے وہ اپنی سفارش خود تھے لیکن پرانی وضع کے تھے اور تحریر بھی ان کی پرانے طرز کی تھی جو نئے دور میں کچھ زیادہ پسند نہیں کی جاتی تھی۔
انتظار صاحب کے اخبار بدلنے کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی لیکن ان کے قارئین بھی ان کے ساتھ ہی اخبار بدل لیتے تھے اور اپنے محبوب ادیب کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے جو لوگ ان کی تحریروں کو پسند کرتے تھے وہ ان سے جدا بھی نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ یہ تحریر انھیں دوسری کسی جگہ نہیں ملتی تھی۔
انتظار صاحب ایک منفرد ادیب تھے جو ادب میں اپنی انفرادیت رکھتے تھے اور یہ بہت بڑی بات تھی ورنہ اس دور میں جس سے ہم گزر رہے ہیں ہر کوئی سرسری سے انداز میں گزر جاتا ہے اور کسی جگہ ٹھہرتا نہیں ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ اب کسی ایک مقام پر کوئی ایک جگہ ایسی نہیں رہی جہاں کوئی ٹھہر سکے جہاں پڑاؤ کر سکے جیسے ہمارے یہ کرمفرما کرتے تھے کہ ایک ریستوران کی شاموں میں زندگی گزر گئی اور زندگی کی نہیں اس کی شاموں کی فکر باقی رہ گئی۔
ہمارے محترم،خدا انھیں جنت نصیب کرے، ان لوگوں میں سے تھے جو اس دنیا میں بھی جنت کے گوشے بنا کر رکھتے تھے، ان کی شخصیت یاد گار زمانوں کی پلی بڑھی تھی اور اپنے وقت کو انھوں نے اپنی یادوں میں سمیٹ لیا تھا جسے بعد میں وہ قلم کے ذریعہ نئی نسل کو منتقل کر گئے۔ نہ جانے کتنے ہی لکھنے والے ان کی تحریروں سے خود ادیب بن گئے یہ ان کا فیض تھا اور یہ خواہش تھی کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ دوسروں تک پہنچ جائے۔ اردو والے مدتوں تک اپنے اس محسن کو یاد کرتے رہیں گے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ لیکن اب ہم اپنی زبان کی تصحیح کہاں سے کرائیں گے۔