وقت کروٹ ضرور لے گا

فرح ناز  پير 21 مارچ 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

بالآخر پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت مل ہی گئی، اب وہ اپنے علاج و معالجے کے لیے باہر کے ڈاکٹرز سے مستفید ہوسکیں گے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ باہر جاکر وہاں کے علاج معالجے سے مطمئن ہوں گے اور جلد صحت مند ہوجائیں گے۔

علاج معالجہ تو کئی سال سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا بھی لندن میں جاری ہے کیونکہ وہ وہیں سکونت پذیر بھی ہیں، اس کے باوجود ان کی صحت کے بارے میں طرح طرح کی خبریں گردش میں ہیں۔ علاج کے لیے ہی آصف زرداری امریکا میں گئے ہوئے ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف جو موجودہ خادم اعلیٰ بھی ہیں، وہ بھی اپنا علاج معالجہ لندن و امریکا سے ہی کرواتے ہیں۔

نجانے کیوں وطن کی محبت سے سرشار یہ لوگ جو اپنے ملک و قوم کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں کئی دفعہ ان کے بیانات ہم نے ملک و قوم کی محبت میں ڈوبے ہوئے سنے ہیں، باہر کے ڈاکٹرز اور باہر کے علاج معالجے کو بہت زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ اپنے ملکی علاج پر انھیں بھروسہ ہی نہیں، جب کہ بارہا تمام لوگ کہتے ہیں کہ زندگی و موت صرف اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہے۔

کیونکہ زیادہ تر بڑے بڑے سیاسی لوگ اور ان کے ساتھ ساتھ اور دوسرے سیاسی لوگ بھی علاج معالجے کے لیے باہر کے ممالک کو فوقیت دیتے ہیں، اس لیے یہ لوگ ملک میں کام کرنے والے ڈاکٹرز، اسپتال، دوائیں اور ان سے متعلق تمام معاملات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جذباتی عوام چکنی چپڑی باتوں سے ہی بہل جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ رونا روئیں گے، چیخیں گے، چلائیں گے، اس کا بھی حل ہے ان کے پاس۔ انھی میں سے بات کرنے والے دوچار لوگوں کو بھی باہر کے اسپتالوں کی سیر کروادیں گے، علاج بھی ہوجائے گا اور کام بھی۔ مگر ایک بات ضرور ہے یہ لوگ وطن سے بہت محبت کرتے ہیں، وطن کی مٹی سے انھیں سونے کی خوشبو آتی ہے۔ نہ جزا نہ سزا، نہ کوئی پوچھنے والا، نہ کوئی دیکھنے والا، نسل در نسل لاجواب اور معیار بھی اعلیٰ۔ کیا بات ہے جناب! مگر اﷲ عالی شان سے بڑا کوئی منصف نہیں اور وہ بہت عادل بھی ہے، وہ سب جانتا ہے۔

موذی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، نہ صاف پینے کا پانی اور نہ صاف فضا، بے تحاشا آلودگی نے چاروں طرف سے جینا حرام کیا ہوا ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، جگہ جگہ غربت و افلاس کے مارے ہوئے ہاتھ پھیلائے ہوئے لوگ، بچوں سے لے کر بڑوں تک، سگنل سے لے کر کھانے کی دکانوں تک سر سے پیر تک بے سرو سامان، ہاتھ پھیلاتے ہوئے لوگ۔جعلی دوائیں، ملاوٹی کھانے، تیل اور گھی میں نجانے کیا کچھ ملا ہوا، حد تو یہ ہے کہ پیکٹوں کے دودھ میں اور کھلے دودھ میں جس کو شیر خوار سے لے کر بوڑھے تک کو ضرورت ہے، ایسے ایسے کیمیکل ملانے کے انکشافات ہوئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ موذی بیماریوں میں بچے اور بڑے مبتلا ہوتے ہیں اور پھر علاج گاہوں میں بھی یہی سب کچھ پاتے ہیں اور جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔

میٹرو بسوں میں بیٹھنے کی تمنا دل میں لیے ہوئے یہ لوگ قبروں میں سوجاتے ہیں، شاید کچھ اور سال زندہ رہ جاتے تو ان کے سفر کرنے کے خواب پورے ہوجاتے۔ سندھ کے علاقے میں حال یہ ہے کہ نہ پانی، نہ کھانا، نہ دوا، صرف اور صرف موت۔ ہم کیا کرسکتے ہیں کہ ان کا مقدر ہی یہی تھا۔ سب کہتے ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ ہمارے پاکستانی بہت جینئس ہوتے ہیں، بے انتہا ذہین۔ پھر وطن عزیز میں ان کی ذہانت کو کون زنگ لگا دیتا ہے، کون ان کے ہاتھ باندھ دیتا ہے، ان کے منہ پر ٹیپ لگا دیتے ہیں، یہ بندشیں ہمیں بیمار کردیتی ہیں اور ہم اپنا علاج معالجہ کرنے کے لیے باہر چلے جاتے ہیں۔

مملکت خداداد پاکستان کا ہر شہری قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ پاکستان پر قرضہ اندازاً 181 کھرب روپے ہے، پاکستان قائم ہوا قرضے کے بغیر۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ قرضہ جاتا کہاں ہے؟ ہر چھوٹی اور بڑی چیز پر ٹیکس عوام ادا کر رہے ہیں۔ سستا کچھ بھی نہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ٹماٹر اور آلو 20/25 روپے کلو سے کم نہیں ہوتے، آٹے کا 10 کلو کا تھیلا 500 روپے ہے، دودھ سو روپے لیٹر، گائے کا گوشت 400 روپے اور بکرے کا 800 روپے کلو، مرغی کے انڈے 100 روپے درجن سے کچھ ہی دنوں کے لیے کم ہوتے ہیں، عموماً 100 روپے ہی ملتے ہیں۔ بے تحاشا معدنیات کے خزانوں سے بھرا ہوا یہ ملک کیوں ایسے حالات میں ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات مناسب قیمتوں میں دستیاب نہیں؟

صحت اور علاج کی پہنچ لوگوں تک کیوں یکساں میسر نہیں۔ گوشت، دودھ، سبزیاں، فروٹ، یہ بہت ہی کم قیمتوں میں عوام تک پہنچیں تاکہ ہماری نسل صحت مند ہوسکے۔ چمکتے ہوئے روڈ یا بڑی بڑی بسیں انسانوں کی خوشی کے لیے بنائیں نہ کہ ان کی آہ ان سب کو لگے۔ تمام سیاست اور سیاسی حالات اور سیاسی بیانات اپنی جگہ، لڑائی جھگڑے بھی اپنی جگہ مگر جو آپ کا فرض ہے جو آپ کا منصب ہے اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

مخدوم امین بیماری کے سخت ایام میں تھے اور ان پر کرپشن کا الزام تھا اور کورٹ نے انھیں پیش ہونے کے وارنٹ جاری کیے ہوئے تھے، کینسر جیسے موذی مرض کا علاج وہ بھی باہر ملک سے کرواتے رہے اور آخر کار اسی شہر میں جا سوئے جو ہم سب کا مقدر ہے۔ مگر آخر تک کرپشن کی گونج ان کے نام کے ساتھ آتی رہی۔ کیا کہیے اب!

اربوں کھربوں روپے جو قرضے لیے جاتے ہیں، کتنے پائے کے اسپتال ان سے بنے، کتنے تعلیمی ادارے بن پائے، عوام جانتے ہیں کہ یہ قرضے کہاں جاتے ہیں اور کون کون ان کو ہڑپ کر رہا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اگر کسی کو کچھ بہتر کرنے کا موقع مل جائے اور وہ نہ کرپائے تو اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوگی، کیا ہی اچھا ہو کہ کسی کے مرنے پر پوری قوم افسردہ ہوجائے اور ہر آنکھ نم ہوجائے، اچھے کلمات سے پکارا جائے کہ اصل دولت تو یہی ہے جو یہاں بھی ہے اور آخرت میں بھی ہے۔

ہرگندی چیز کو کھانے پینے کے سامان میں ملاوٹ کے طور پر ملایا جا رہا ہے۔ بھینسوں کو انجکشن لگائے جاتے ہیں، دودھ جیسی بنیادی ضرورت جو خاص طور پر بچوں کے لیے ضروری ہے اس میں بے حساب خطرناک کیمیکل ملائے جا رہے ہیں، کم ازکم اس پر تو آنکھ کھولیں۔ مشہور شخصیات لاکھوں روپے کے عوض ان خطرناک مضر صحت اشیا کی تشہیری مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کے خوبصورت اشتہاروں میں لاکھوں روپے کے سیٹ پر گاتے ناچتے یہ لوگ لہک لہک کر یہ مضر صحت اشیا عوام کو خریدنے پر راغب کرتے ہیں، جب کہ یہ لوگ خود اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے باہر ممالک کی بنی ہوئی پراڈکٹ استعمال کرتے ہیں۔

بہرحال تمام سچائیاں اور جھوٹ اپنی جگہ، پیسے کی اہمیت اپنی جگہ رہ جاتی ہے۔ تالیاں بجانے والے عوام مخلص، چمکتے ہوئے دلوں والے لوگ، اور میں پر امید ہوں کہ جیت ان ہی لوگوں کی ہوگی اور ایک نہ ایک دن وقت کروٹ ضرور لے گا۔ جب تعلیم، صحت اور پینے کا صاف پانی اور خالص اشیا ہمارے لوگوں کی پہنچ میں ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔