ذوالفقار علی بھٹو

4 اپریل 1979کو نا صرف پاکستان بل کہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی ایک سیاہ دن تھا


4 اپریل 1979کو نا صرف پاکستان بل کہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی ایک سیاہ دن تھا۔ فوٹو: فائل

4 اپریل 1979کو نا صرف پاکستان بل کہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی ایک سیاہ دن تھا، جب ملک کے منتخب وزیراعظم، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین اور تیسری دنیا کے عظیم قائد کا عدالتی قتل کردیا گیا۔

بھٹو نے عالم اسلام کے اتحاد کے لیے جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا اور جب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کو ایک سازش کے تحت دولخت کردیا گیا، تو انھوں نے شکستہ پاکستان کی تعمیرنو اور ایٹمی طاقت بنانے کے لیے عملی اقدامات کرکے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی جدوجہد میں جان سے گزر گئے۔



جنگ عظیم کے بعد فرانس کے حکم راں کو پھانسی کی سزا ہوئی، لیکن انھوں نے اس کے خلاف زبانی یا تحریری اپیل نہیں کی۔ ان کے دوستوں نے جب ان سے کہا کہ فیصلے کے خلاف آپ ایک لفظ بھی نہیں بولے تو انھوں نے جواب دیا کہ وقت کے حکم رانوں اور عدلیہ نے میری موت کا فیصلہ کرلیا ہے، اس لیے میری اپیل بے کار ہے، لیکن آنے والا مورخ جب اس واقعے کی درست تاریخ مرتب کرے گا تب لوگوں کو اصل حقیقت کا علم ہوگا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کو وقت کے حکم رانوں اور عدلیہ نے بے قصور دار پر چڑھا دیا، لیکن آج تک عوام کے دلوں سے بھٹو کی محبت ختم نہیں کی جاسکی اور تاریخ داں جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھتا ہے تو اس میں بھٹو کو مظلوم اور ضیاء وعدلیہ کو آمر وظالم ہی لکھتا ہے۔

''بھٹو سے سیاسی اختلافات تو ہوسکتے ہیں لیکن ان پر کرپشن کے الزامات ان کے بدترین دشمن بھی نہیں لگاسکتے۔'' بھٹو بہترین انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال اور گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال تھے۔

بروقت فیصلہ سازی اور گڈ گورننس کی بہترین صلاحیتیں رکھنے والے بھٹو کو بھلا کون بھول سکتا ہے جس سے آج کے حکم راں انتہائی دور بل کہ نابلد ہیں۔ سندھ میں آج بھی ان کے پیروکاروں کی حکومت ہے، جن پر بدترین کرپشن کے الزامات لگتے ہیں جو کہ میرے نزدیک بنا ثبوت بالکل غلط ہے، مگر حکومت سندھ کا موثر انداز میں دفاع نہ کرنا بھی اس کی کم زوری ہے، جو بھٹو سے محبت رکھنے والوں کے لیے مایوسی کا سبب ہے۔

نومبر 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی مزاحمتی سیاست نے کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں، مزدوروں اور دہقانوں میں 'روٹی، کپڑا اور مکان' کے نعرے نے نئی امید کے چراغ جلادیے۔ بھٹو انقلابی تھے اور انھوں نے آمریت کے پنجرے میں قید قوم کو جمہوریت کی راہ دکھائی، اس طرح وہ قوم کے پہلے معمار اور سیاسی رہبر ثابت ہوئے۔ ان کی ان تھک کوششوں سے ملک کے غریب عوام، مزدور، کسان اور پسے ہوئے طبقے نے جینے کا ڈھنگ سیکھا۔ انھوں نے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی دہلیز جھونپڑپٹی تک پہنچادیا۔



یہی وہ اسباب ہیں، جس سے جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے، چوہدری، پیر اور میر غریب عوام کی دہلیز پر آنے پر مجبور ہوگئے اور رفتہ رفتہ سیاست میں عوام کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ بھٹو پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ کرشمہ ساز شخصیت تھے، وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اس ملک میں اپنے نام کی غیر متزلزل طاقت چھوڑ گئے، جو آمروں کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی تھی۔

1974 میں جب بھٹو فرانس کے دورے پر جارہے تھے تو میں اس وفد میں ان کے ہم راہ تھا۔ وہاں جب فرانس کے صدر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ آپ نہ صر ف اپنے ملک بلکہ تمام اسلامی ملکوں کے بھی لیڈر ہیں، آپ کو جو کچھ بھی چاہیے میں فراہم کروں گا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ کوئی عام چیز ہوتی تو میں آپ کو ٹیلی فون پر کہہ دیتا لیکن اس وقت مجھے ایٹمی پلانٹ چاہیے، جس کا مجھے پتا ہے کہ امریکا برداشت نہیں کرے گا اور نہ مجھے معاف کرے گا۔ اس پر فرانس کے صدر نے کہا کہ ہم کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر آپ کو پلانٹ دیں گے۔

یوں فرانس سے ایٹمی پلانٹ درآمد کرنے کا معاہدہ ہوگیا لیکن امریکا نے اس کی منسوخی کے لیے شدید دباؤ ڈالا جس کی باعث فرانس چوںکہ پہلے ہی انکار کرچکا تھا اس لیے پاکستان پر دباؤ بڑھایا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر خود پاکستان آکر براہ راست بھٹو کو دھمکی دے گئے تھے کہ معاہدہ منسوخ کرو ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہو۔

بھٹو کو معلوم تھا کہ فرانس سے ایٹمی پلانٹ کا معاہدہ منسوخ ہوسکتا ہے، اس لیے انھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خاموشی سے ایٹمی پلانٹ پر کام جاری رکھنے کا کہا، اس دوران امریکی سام راج نے جنرل ضیاء کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سب سے پہلے فرانس سے ایٹمی پلانٹ کا معاہدہ منسوخ کیا۔ بعدازاں بھٹو کو پھانسی پر چڑھا کر ان کے خدشات کو درست ثابت کیا۔ پاکستان کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد ڈاکٹر قدیر خان نے ٹی وی پر آکر کہا کہ پلانٹ اور دھماکے کے بانی بھٹو ہیں جو ملک اور ان کے چاہنے والوں کے لیے اعزاز ہے۔

1958 سے 5 جولائی 1977 تک بھٹو کی جدوجہد اور پاکستان کے لیے عظیم خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد گذشتہ 37 برسوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ بھٹو کا عروج و زوال دونوں بڑے پُرشکوہ رہے۔ 30 سال کی عمر میں وزیر بنے اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم عمر وزیر تھے۔ 12 سال بعد وہ صدرمملکت اور وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے، ان عہدوں کے لیے وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر سیاست داں تھے۔

1971 میں دولخت ہونے والے بقیہ پاکستان کا اقتدار سنبھالتے ہوئے ان کا مقصد ملک کو انتشار سے بچانا، اس کے شکستہ وقار کو بحال کرنا، اقوام کی برادری میں خاص طور پر اسلامی برادری میں اس کی پوزیشن کو مستحکم کرنا، ہندوستان سے تعلقات کو بحال بل کہ بہتر کرنا، ملک کے اندر پیچیدہ صورت حال ہونے کے باوجود بنگلادیش کو منظور کرنا، جو انتہائی قدامت پسندوں کے لیے موت کے برابر تھا اور ملک کو ایٹمی قوت بنانا تھا، جس میں وہ مکمل طور پر کام یاب ہوئے، لیکن سام راجی قوتوں اور ان کے گماشتوں نے اس کی سزا انھیں پھانسی کی صورت میں دی۔ دن کی روشنی میں سزا دینے کی ان میں ہمت نہیں تھی، اس لیے تمام دنیا کے جیل قوانین کو پس پشت رکھتے ہوئے انھیں علی الصبح کے بجائے رات 2 بجے پھانسی دی گئی۔



اس گھناؤنی عجلت وخوف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضیاء آمر اور اس کے حواریوں نے رات کی تاریکی میں اپنا سیاہ کارنامہ اس لیے انجام دیا، کیوںکہ دن کی روشنی میں انھیں شدید مزاحمت کا ڈر تھا۔ آج بھٹو جسمانی طور زندہ نہیں ہیں لیکن ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہیں، چاہے وہ ان کا حامی ہو یا مخالف، لیکن انھیں عظیم راہ نما اور قائد عوام تسلیم کرتے ہیں۔

مصلحت آمیز سیاست اور موقع پرستی ایک ڈکٹیٹر کا فن تو ہوسکتا ہے لیکن وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔ وقت کے ساتھ وہ اپنی اصل شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے آمر قومی دھارے میں شامل قومی جماعتوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے خفیہ اداروں کو بڑی بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بتدریج کم زور کیا جائے۔ اس لیے وہ مذہبی انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی اور لسانیت کو فروغ دیتے ہیں، لیکن یہ ملکی وحدت اور سالمیت تک کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوتی ہے، اس لیے آمروں کو مستقبل میں اس نکتہ پر غور کرنا چاہیے کہ حقیقی لیڈر ہی اصل لیڈر ہوتا ہے اور بھٹو اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

''میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا''
مظلوموں کی طاقت ور آواز، ذوالفقار علی بھٹو

ایک آواز جسے ضیا نے مٹانا چاہا، اتنی طاقت ور بن گئی کہ ہر سو پھیل گئی۔ ان کو اس سے کتنا ڈر لگتا تھا کہ وہ اس کی جان کے درپے ہوئے اور نادان یہ سمجھے کہ وہ اس کو پھانسی دے کر سب ختم کر سکتے ہیں، مگر وہ بھول گئے کہ حق کو مٹانے والے خود مٹ جاتے ہیں، ان کی سماعتوں، بصارتوں اور قلوب پر سیاہ مہر ثبت کردی گئی۔ اس نے تو کہہ دیا تھا کہ میں آمرکے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا مگر تاریخ کے ہاتھوں سے نہیں اور پھر ہر حربہ بھی آزمایا گیا، ظلم کا وہ کون سا نشتر نہ تھا جسے اس پر اوراس کے چاہنے والوں پر نہ چلایا گیا ہو؟



تاریخ کے اوراق پر وہ ساری داستانیں رقم ہوئیں اور سب نے دیکھا کہ ظلم وستم، تشدد، دہشت اور جبر کے سارے ہتھیار کتنے بیکار ثابت ہوئے۔ شاعروں نے، ادیبوں نے اس کی یاد میں لکھا، وہ وطن کے گوشے گوشے میں کسان کی، مزدور کی، مظلوم کی، عوام کی آواز بن گیا، ایسا کب دیکھا گیا کہ جسم کو پھانسی دے کر مٹانے کی کوشش کی اور جان دے کر کوئی ایسا زندہ ہوا کہ روشنی بن گیا، ہوا بن گیا۔ اب روشنی کو کیسے روکوگے اور ہوا کا راستہ کیسے بند کرو گے۔

تم اس کی آواز کو قتل کرنا چاہتے تھے وہ تو گیتوں میں اور نغموں میں ڈھل کر امر ہوگیا۔
اس نے کہا تھا : میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔
وہ اپریل ہی کا مہینہ تھا اور اسی طرح کے موسم تھے۔

کچھ لوگ اپنی طاقت اور حکم رانی کے نشے میں گم خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ ہر ایک آواز جو سوال کرتی تھی اس کو خاموش کرنے کا حکم صادر کردیا جاتا تھا، وہ ہر ایک نظر جو جھکتی نہیں تھی اس کو مٹانے کا حکم تھا، مگر وہ جو طاقت کے بل بوتے پر لوگوں کو تسخیر کرنا چاہتے تھے انہیں کیا پتہ تھا کہ دلوں کی حکومت اور طاقت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ وہ کہ جس کی نماز جنازہ میں شرکت کو روکنے کے لیے اندھیرے اور ظلم کا سہارا لے کر اس کے اپنوں کو دور رکھا گیا تھا، آج اس کے مزار پر اتنا مجمع کہ شمار نہ کیا جائے۔ وہ ایک شخص کہ جس کا نام لینا بھی جرم قرار دے دیا گیا، جس کے نام کا نعرہ لگانے والوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا تھا، لیکن آج وہ نعرہ تو ہر سو ہے، تم نے آواز کو قتل کرنا چاہا، تم ناکام رہے، عشروں بعد بھی آواز تو زندہ ہے پر قاتل مٹ گئے، ایک وجد کے عالم میں نعرے لگتے ہیں:

تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا

تم نے اسے مارنا چاہا کہ جو ہمارے دلوں میں رہنے لگا تھا توکیا تم اسے مار پائے؟ وہ تو ایک نابغہ تھا کہ جس کے جسم کو سولی پر چڑھا کر ختم کرنے کا فیصلہ کرنے والے تاریخ میں سدا کے لیے سیاہ حرفوں سے پہچانے گئے اور وہ کہ جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ کہا وہ امر ہوگیا۔ وہ اک شخص کہ آج بھی سیاست میں سمت کو طے کرتا ہے اور دور دراز کے اک گاؤں لاڑکانہ کی سرزمین پر ملک کے ہر گوشے سے اس کے چاہنے والے آکر اس کا نعرہ لگاتے ہیں اور وہ اتنے ہوتے ہیں کہ آج بھی وہ جب اپنی آواز کو اٹھاتے ہیں، نعرہ لگاتے ہیں تو دھرتی گونج اٹھتی ہے۔۔۔تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔



اس نے کہا تھا ''میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔''
توکیا اس نے غلط کہا تھا؟
تم نے عدالت کو عداوت میں بدل کر، قانون کے سارے تقاضے پس پشت ڈال کر سچ کو قتل کیا، تم نے آواز کا گلا گھونٹا چاہا اور تم اس وقت کے فرعون تھے اور سمجھتے تھے کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ سوال آج بھی زندہ ہے، آواز آج بھی زندہ ہے۔ اس نے کہا تھا: اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔
دیکھو آکر دیکھو!
تم ہر سال دیکھتے ہو
اپریل میں!

ہاں اسی اپریل میں، جب تم نے اس کی آواز کو مٹانا چاہا تھا۔

ہاں اسی اپریل میں جب تم نے ظلم و ستم کے، جبر و دہشت کے ہر اک حربے کو آزمایا تھا اور سمجھے تھے کہ تم کام یاب ہوئے، مگر کیا تم نے سوچا تھا کہ تم اتنی بری طرح ناکام ہوگے۔ اس نے کہا تھا : میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔ تو اب سنو کہ اس کی آواز وقت کی آواز بن گئی ہے۔ سنوکہ اس کی آواز ہر اک محنت کش، مزدور، کسان، طالب علم، بچے اور مظلوم کی آواز بن گئی ہے۔

ٹوٹا کہاں ہے اس کا جادو
نعرہ بن گیا لہو اس کا

سنو سنو وہ آواز جو آج بھی زندہ ہے، سنو سنو وہ اس کے نعرے

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے

آج بھی جبر کی سماعتوں کے لیے تازیانے کی طرح، اس کا نعرہ جب گونجتا ہے تو اس کے لفظ زندہ وجود کی طرح جگمگاتے ہیں
اس نے کہا تھا '' میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔''

مقبول خبریں