وہ دو چار پیسے

اقتدار کے ایوانوں پر زلزلہ طاری ہے لوگ اقتدار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں


Abdul Qadir Hassan April 09, 2016
[email protected]

اپنے وطن عزیز کے رؤسا کا ذکر گزشتہ کالم میں کیا تھا لیکن بعض تازہ انکشافات سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام نہاد رؤسا اور صاحبان دولت و ثروت پر جو افتاد پڑی ہے وہ ہر روز ایک کالم کی بساط سے بھی زیادہ ہے۔ ان کے نازک پلے ہوئے جسموں پر کپکپی طاری ہے اور خوف و ہراس نے زندگی عذاب کر رکھی ہے یہ سب بلا امتیاز پکڑے گئے ہیں یعنی زبردست معرض خطر میں ہیں۔

اصلی قیامت تو جب آئے گی آئے گی لیکن اس وقت ان پر جو قیامت ٹوٹی ہے وہ اس قیامت کی ایک جھلک ہے اور قیامت اصلی ہو یا اس کی جھلک وہ قیامت ہی ہوتی ہے اور ادھ موا کر دیتی ہے۔ اصل دکھ اس بات کا ہے کہ تازہ خوف انسانوں کی اپنی غفلت کا ہے دنیاداری کے مال متاع سے مسلسل خبردار کیا جاتا رہا ہے اور اس دولت مندی کو قدرت نے ایک عذاب قرار دیا ہے۔ اس عذاب کی ایک جھلک اس وقت ہم پاکستانی دیکھ رہے ہیں اور یہ عذاب اس قدر حقیقت ہے کہ قریب قریب پوری دنیا اس عذاب میں مبتلا ہے۔

اقتدار کے ایوانوں پر زلزلہ طاری ہے لوگ اقتدار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور یہ اقتدار جس کے لیے کیا کیا جتن کیے گئے اور ہر ممکن قربانی دی گئی لیکن جب اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی یہ راس نہ آیا تو زندگی ایک عبرت بن گئی اور کاٹ کھانے کو دوڑنے لگی۔ بڑے بڑے دل گردے والے شکست کھا گئے اور بچ نکلنے کے راستے تلاش کرنے لگے۔ خیال تو یہ تھا اور بڑا پختہ خیال تھا کہ کون سا دکھ ہے جس کا علاج دولت کے پاس نہیں ہے مگر معلوم ہوا کہ کچھ درد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا علاج صرف دولت کے پاس نہیں ہوتا خصوصاً وہ دکھ درد جو دولت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں دولت ان دکھوں کا علاج نہیں کر سکتی جو وہ خود پیدا کرتی ہے۔ انسانوں کو اس کی سزا ملتی ہے جو بھگتنی پڑتی ہے۔

سزا اور جزا کا قانون شروع دن سے نافذ ہے۔ اچھے عمل کی جزا اور برے عمل کی سزا خود قیامت کا تصور ہے اور اسی سزا و جزا کا ایک نمونہ قیامت کے روز انسانوں کو ملے گا۔ قدرت نے کتنے ہی پیغمبر انسانوں کو یہی بتانے کے لیے پیدا کیے۔ اور ان کی بعثت کا یہی مقصد قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انسانوں پر ہمیشہ اتمام محبت کیا اور بے خبری میں کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ مال و دولت ہر گز ممنوع نہیں ہے بلکہ جائز طریقے سے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور پھر اسے نیک کاموں میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

یہ کس قدر فخر کی بات ہے کہ دولت پرستی کے اس مہلک زمانے میں بھی صدقہ و خیرات میں پاکستان حیرت انگیز حد تک کشادہ دل ہے اور سالانہ اربوں تک کی خیرات کی جاتی ہے۔ کتنے ہی عالمی سطح کے فلاحی خیراتی ادارے چل رہے ہیں اور کتنے ہی گھر پڑوسیوں کی خوشدلانہ مدد سے گزر بسر کر رہے ہیں۔

آپ نے شاید کبھی نوٹ کیا ہو کہ بعض گھروں میں عام لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور کھانا کھانے والے خود ایسے کھانے میں شریک ہوتے ہیں یا پھر ان کے بھائی بیٹے اپنے ان جانے مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور عزت کے ساتھ اپنے ان مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور انھیں کھانے کے بعد رخصت کرتے ہیں ان کی تشریف آوری کے شکریے کے ساتھ۔ یہ بھی درست ہے کہ کچھ دولت مند پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دولت صاف ستھری نہیں ہے لیکن اس احساس کے ساتھ وہ اپنی اس دولت کو پاک کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں البتہ ہمارے کئی سیاستدان بے تحاشا دولت مند ہونے کے باوجود اپنی دولت کو نیکی کے کاموں پر خرچ نہیں کرتے جب کہ وہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے دن رات کوشش کرتے رہتے ہیں جب یہ سیاستدان مزید دولت مندی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی رعونت بڑھ جاتی ہے۔

یہ وہ درخت ہیں جن کی شاخیں کتنی بھی پھلدار کیوں نہ ہوں وہ زمین کی طرف جھکتی نہیں ہیں الٹا اکڑتی ہیں۔ آج پاکستان کا جو طبقہ پریشان ہے اور ایک عالمی ادارے کے نشانے پر ہے وہ یہی طبقہ ہے۔ پاکستان کے مقاصد میں سب کچھ تھا مگر دولت پرستی نہیں تھی۔ اسے بنانے والے درویش لوگ تھے جن کی دولت نیکی پر خرچ ہوتی تھی۔

اور جن یتیم خانوں کے طلبہ کے چند پیسے جو خیرات کا جیب خرچ تھے وہ بھی قائداعظم کو بھجوا دیے جاتے تھے۔ اللہ ہی جانتا ہے ان بچوں کا کیا اجر ہو گا اور قدرت انھیں ان چند پیسوں کے جیب خرچ کے بدلے کیا کچھ عطا کرے گی ہم ان بچوں کو یاد کر کے صرف رو سکتے ہیں آنسو بہا سکتے ہیں۔ یہ تو وہ بچے تھے کہ جہاں یہ رہتے تھے وہ علاقے پاکستان سے محروم تھے لیکن وہ جذبہ پورے ہندوستان میں رواں تھا جو پاکستان کے قیام کی اصل طاقت تھا اور یہ یتیم بچے جس کی نمایندگی کرتے تھے۔ پاکستان کے یہ شہری نہ جانے کہاں ہوں گے جن کے چند پیسوں کا صدقہ ہم کھاتے چلے آ رہے ہیں۔

مقبول خبریں