خوابوں کے صورت گراورمردہ لمحوں کو لفظوں سے زندہ کردینے والےممتاز ادیب "انتظارحسین"

محمود الحسن  اتوار 10 اپريل 2016
 بعض لکھنے والے انڈرایسٹی میٹ ہوتے ہیں، مجھے احساس ہوتا ہے میں اوور ایسٹی میٹ ہوا ہوں۔:فوٹو : فائل

بعض لکھنے والے انڈرایسٹی میٹ ہوتے ہیں، مجھے احساس ہوتا ہے میں اوور ایسٹی میٹ ہوا ہوں۔:فوٹو : فائل

انتظارصاحب سے، ان کی زندگی کے آخری چند برسوں میں مسلسل ملنا رہا ۔ ان سے ملاقاتوں سے ہم جو بھی کچھ بھر پائے، اس کے حوالے سے یا اپنے تعلق خاطر کے باب میں، لکھنے کا ابھی یارا نہیں ، کیونکہ دل کویقین ہی نہیں آتا کہ وہ ہمیں چھوڑ کرچلے گئے ہیں۔ شاید آگے چل کر ایسی کوئی صورت پیدا ہوکہ ان سے متعلق اپنی یادوں کو مرتب کرسکوں ۔ فی الحال کچھ وہ باتیں قارئین تک پہنچانے کا اہتمام ہے جومختلف نشستوں میں پوچھے گئے سوالوں کا حاصل اور میرے پاس ریکارڈ صورت میں محفوظ ہیں ۔

چار بہنوں کے بعد پیدا ہوا، اس لیے میرا نام انتظار حسین رکھا گیا۔ مجھ سے چھوٹی بہن زندہ ہے، باقی سب گزر گئیں۔ والدہ بہت سیدھی سادھی تھیں، انھیں دنیا کی کوئی خبر نہیں تھی۔ بڑی بہن نے والدہ کا کردار ادا کیا۔ میرے والد مجھے مولوی بنانا چاہتے تھے لیکن میٹرک میں فرسٹ ڈویژن آئی تو بڑی بہن نے کہا کہ خاندان میں بس ایک مولوی کافی ہے، ہمارا بھائی ڈپٹی کلکٹر بنے گا ۔

میری قسمت میں تو ڈپٹی کلکٹر بننا نہیں تھا لیکن میری بہن کا بیٹا حسن ظہیر، پاکستان میں بڑے سرکاری عہدوں پر رہا۔ جب میری بہن نے یہ موقف اختیار کیا کہ مجھے نئی تعلیم حاصل کرنی ہے، تو پھر والد نے میری تعلیم میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ۔ مذہب کی طرف ان کا رجحان ہمیشہ سے تھا ،لیکن آخر میں دوسر ے تمام معاملات سے وہ بے تعلق ہو گئے۔ جلالی وظیفہ بھی انھوں نے کیا ، جس کے آخر میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی تو و ہ فوراً اٹھے ، قرآن ہاتھ میں لیا اورکہنے لگے کہ اس گھر سے نکل جائو یہاں شیاطین اکٹھے ہو گئے ہیں ۔

قریب ہی ہماری بڑی بہن کا گھر تھا، ہم سب ادھر اٹھ کر چلے گئے اور دو تین راتیں ادھر گزاریں۔ اس واقعہ کے بعد قرآن کی تلاوت بہت زیادہ کرنے لگے۔ انھوں نے اپنا علاج خود ہی کرلیا ۔ انھیں احساس رہتا کہ ان کے آس پاس کچھ ہے لیکن رفتہ رفتہ ٹھیک ہو گئے ۔ پاکستان آکر بھی اپنے آپ میں مگن رہے۔ تریسٹھ یا چونسٹھ میں وفات ہوئی۔ والد کے پاس سند کوئی تھی نہیں، میں حیران ہوں کہ انہوں نے عربی کیسے پڑھی ؟ کب اورکہاں سے عربی کی تعلیم حاصل کی ؟ مطالعہ احادیث وغیرہ کا بہت تھا۔ پڑھتے رہتے تھے۔

برادری میں زمیندار قسم کے صاحب حیثیت لوگوں کے خلاف باتیں کرتے، کہتے یہ سب سود کھاتے ہیں ، اس لیے وہ سب رشتہ دار، ان کے دشمن ہو گئے ۔ والد کے اگر کسی سے اچھے تعلقات تھے تو وہ ایک بنیے بھگت جی سے تھے، جن کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ بہت ایماندار آدمی ہے، اس لیے سودا لازمی طور پر اسی سے لینا ہے ۔ ایمانداری پر بہت زور دیتے ۔ لڑکوں کی صحبت میں کہیں بگڑ نہ جائوں ، اس لیے گھر سے نکلنے نہیں دیتے تھے ۔ والدہ نے بچپن میں مجھے بالکل ہاتھ نہیں لگایا ۔

والد رام لیلا میں تو جانے نہیں دیتے ، مگر دسہرہ کے میلے میں چچا جاتے تو والدہ مجھے ساتھ کر دیتیں تو والد اعتراض نہ کرتے ۔ رام لیلا میں بالعموم مسلمان بہت دلچسپی لیتے تھے ۔ رامائن کی تفصیلات سے بچپن ہی میں واقف ہو گیا تھا ۔ شادی سے پہلے میں رات کو دو ڈھائی بجے آتا ، والدہ نے میرا کھانا رکھا ہوتا، ایک چڑیا روشن دان میں بیٹھی انتظار کرتی رہتی ، کھانا شروع کرتا تو وہ بھی آجاتی۔

والدہ نے بڑی عمر پائی ، اور انھی کی عمر سے ڈرتا ہوں کہ کہیں میری اتنی لمبی عمر نہ ہوجائے۔ وہ پچانوے چھیانوے برس زندہ رہیں۔ یادداشت بہت گڑ بڑ ہو گئی تھی ۔ میری بڑی بہن کی عمر بھی بہت ہو گئی تھی، تو لمبی عمر کی ٹینڈنسی والد کی طرف سے تو نہیں لیکن والدہ کی طرف سے ہے، میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں مجھے بھی ایسی صورت حال سے تو واسطہ نہیں پڑ جائے گا۔ اس وقت خاندان میں سینئر موسٹ میں ہی ہوں ۔ لکھنے کے معاملے میں لمبا کام ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا کیونکہ وہ مجھے ادھورا چھوڑنا پڑے گا، اسی لیے ناول نہیں لکھتا۔ میری شادی خاصی لیٹ ہوئی ۔

میرا پروگرام یہی تھا کہ شادی وادی مت کرو۔ ایسے ہی رہو۔ پھر کچھ اس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی تو ہم نے دل میں سوچا اب ہمیں شادی کر ہی لینی چاہیے،ورنہ ہم بھی پھر سترے بہترے ہو جائیں گے ۔ زندگی سے مطمئن ہوں۔ بعض لکھنے والے انڈرایسٹی میٹ ہوتے ہیں، مجھے احساس ہوتا ہے میں اوور ایسٹی میٹ ہوا ہوں۔

حنیف رامے نے ’’نصرت ‘‘ کا بحالیات نمبر نکالا تو مجھ سے پوچھا کہ میں نے کیا الاٹمنٹ کرائی تھی ؟ اس پر میں نے مضمون میں یہ لکھا کہ میں ہندوستان میں نیم کا پیڑ اور تاج محل چھوڑ کر آیا ہوں ، اس کا یہاں بدل نہیں ، تو میں الاٹمنٹ کیسے کراتا ۔ اس فقرے پر خاصی خامہ فرسائی ہوئی ۔ میرے ماموں نے الاٹمنٹ کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کی ، جس مکان کی بنیاد پر کلیم کیا، اس میں میری والدہ کا بھی حصہ تھا ۔ انھوں نے ہمارا بھی انتظام کر دیا ، اور ایک کاغذ دے کر میری والدہ سے کہا کہ انتظار سے کہو یہ کاغذ دکھا کرالاٹمنٹ کرالے ۔ ہم اس زمانے میں آوارگی کر رہے تھے ، سوچا کہ دفتروں میں کیوں مارا مارا پھروں ، چھوڑو۔

اس کے بعد میرے چچا، جو والد کے کزن تھے، محکمہ بحالیات میں افسر بن گئے۔ والدہ نے ان سے ذکرکیا ہوگا تو انھوں نے کہا کہ انتظار سے کہو کہ کوئی جگہ مارک کر کے، میرے پاس آئے،میں اسے الاٹ کر دوں گا ۔

میں نے سوچا کہ اگر الاٹ کرنا ہے توکر دیں ، میں کیوں تلاش کروں ، اور پھر ان سے کہوں، تو یہ موقع بھی ضائع ہو گیا ۔ شادی ہوئی تب کہیں جا کراحساس ہوا کہ اپنا مکان ہونا چاہیے ۔ یہ مکان جس میں رہ رہا ہوں ، یہ میری بیوی کو ترکے سے ملا۔ جن دنوں یہ مکان میری بیوی کے نام ہوا ، انھی دنوں صحافی کالونی میں مجھے پلاٹ کی الاٹمنٹ ہو گئی ۔

فارم میں پوچھا گیا کہ آپ کے یا آپ کی بیوی کے نام پہلے سے کوئی جائیداد ہے ؟ اس سوال کا اگر نفی میں جواب دیتا تو غلط بات ہوتی، اس لیے میں دستبردار ہوگیا ۔ سوچا کہ کمبخت یہ جائیداد انھی دنوں میری بیگم کے نام ہونا تھی ۔ میری ایک کولیگ کو پانچ مرلے کا پلاٹ الاٹ ہوا تھا ، وہ کہنے لگیں کہ آپ اپنا دس مرلے کا پلاٹ مجھے دے دیں ۔ میں نے کہا لائو لکھ دیتا ہوں کہ تمھارے حق میں دستبردار ہو رہا ہوں ۔ ہمارے چیف ایڈیٹر نے کہا کہ اگر میں پلاٹ لے کراس کا آدھا بیچ دیتا تو اس سے اتنی رقم مل جاتی کہ مکان کی تعمیر کا مسئلہ حل ہو جاتا ، میں نے یوں ہی کسی اورکو پلاٹ دے دیا ۔

میرے ایک عزیز ’’مشرق‘‘ میں کام کرتے تھے ، انھوں نے میری بیوی سے یہ ذکرکردیا کہ میں نے اپنا پلاٹ کسی کو دے دیا ہے ۔ اس پر میری بیوی کو شک ہوا کہ یہ کیا چکر ہے ۔ اس پر میں نے کہا کہ جس کے حق میں دستبردار ہوا ہوں، وہ سیدانی ہے، اس پر وہ مطمئن ہوئیں۔ میں نے کبھی پلاٹ کے لیے اپلائی نہیں کیا ۔ رائٹر گلڈ میں بھی اپلائی نہیں کیا ۔ صحافی کالونی کے لیے بھی اپلائی نہیں کیا بلکہ جرنلسٹ یونین نے خود ہی قرعہ نکال کر مجھے بتایا ۔

عسکری صاحب جب لاہور جا رہے تھے تو ایک بار میں نے ان سے ذکرکیا تھا کہ میں ایک بار لاہور جانا چاہتا ہوں ۔ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کس قسم کا یہ شہر ہے ۔ لاہور پہنچ کر انھوں نے ریڈیو کے ذریعے مجھے پیغام بجھوایا کہ میں یہاں آجائوں۔ جب میں ہندوستان سے چلا تو پاکستان مستقل آنے کا نہیں سوچا تھا لیکن یہاں آکر احساس ہوا کہ میں پاکستان آگیا ہوں اوراب واپسی نہیں ہے ۔ یہ عجیب بات ہے ۔ ہندوستان سے چلتے ہوئے دوکتابیں اپنے ساتھ لیں۔ ’’آب حیات‘‘ اورانجیل کا اردو ترجمہ۔ میرٹھ میں ٹی ایس ایلیٹ کی وہ کتاب خریدی جس میں نظم ویسٹ لینڈ تھی۔ پڑھنے پر سمجھ میں نہ آئی، عسکری صاحب نے پھرمجھے ویسٹ لینڈ پڑھائی، اوراس کے بارے میں بتایا۔ کتاب پرکچھ ریمارکس بھی انھوں نے دیے تھے، وہ کتاب مجھ سے سعید محمود نے لے لی۔

رامائن کا اردو ترجمہ ایک دفعہ میرے پاس دیکھ کرکہا کہ’ یہ میں دیکھنا چاہتا ہوں لیکن میں پنسل سے نشان لگایا کرتا ہوں‘، میں نے کہا کہ شوق سے لگائیں، اس پر پھر انھوں نے بہت جگہ نشان لگائے، یہ کتاب میرے پاس موجود ہے۔بیروزگاری کے زمانے میں ایک بار لاہور چھوڑنے کا ارادہ بنا۔ ناصر کاظمی سے میں نے کہا کہ یہاں میرا کچھ نہیں بنے گا ، اس لیے میں کراچی جار ہا ہوں ، تو وہ کہنے لگا،کراچی میں مہاجر تیرا وہی حال کریں گے ، جو میں نے اپنی بیوی کا کر رکھا ہے ۔

میں نے دل میں سوچا بات توٹھیک ہے ۔ یہ بھی سوچا کہ میں ایک سرزمین چھوڑ کر مہاجر بنا ہوں تو ہجرت کا تجربہ تو یہ ہے کہ نئی برادری میں رہوں، کراچی میں تو میں پہلی برادری میں شامل ہو جائوں گا تو میرے ہجر ت کے تجربے کا کیا ہوگا ۔ میں ہندوستان سے نہ آتا تو کیا میں واقعی افسانہ نگار بنتا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ اگر میں وہاں رہتا تو ہندوستان کو اس حوالے سے دیکھتا کہ یہاںمسلمانوں کی برادری تھی اتنی شاد آباد اور اب شہر کے شہر خالی ہوگئے ہیں ، کیونکہ میری ساری کہانیاں شروع کی اسی حوالے سے ہیں ، یعنی مجھے یادیں آرہی ہیں ۔ ایک دوکہانیاں اتنی حقیقت پسندانہ تھیں کہ ان میں خاندان کے ایک بزرگ کا نام بھی آگیا تو ایک بی بی کو شک ہوا یہ تو ہمارے والد صاحب کا نام ہے، باتیں انھی کی ہیں، تو انھوں نے اس کا برا مانا۔

پاکستان آنے سے پہلے ہندوستان میں راشنگ کے محکمے میں سینئر انسپکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا ۔ اس سے پہلے بھی ایک دوجگہ کچھ دیر کام کیا ۔ ہمارے ایک رشتے دارسٹی مجسٹریٹ تھے ۔ ہمارے بہنوئی نے جا کر ان سے کہا کہ انتظار کا کچھ کرو۔ انھوں نے مجھے سینئر انسپکٹر لگوا دیا ۔ مستقل تنخواہ ملتی۔ ٹھیک ٹھاک اور معقول قسم کی جاب تھی۔

یہ جاب چھوڑ کر میں پاکستان آیا ۔ یہاں آکرجوعام طور سے مہاجرین کودقتیں تھیں، ان کا مجھے سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سیدھا اترکرعسکری صاحب کے ہاں چلا گیا ۔ انھوں نے فوراً آفتاب صاحب سے کہاکہ اس کا کچھ کریں ۔ انھوں نے فیض صاحب سے بات کی۔ شاہد صاحب کی سفارش ’’نظام‘‘ کا ایڈیٹر بن گیا۔ ڈیڑھ سال گزارا۔ پاکستانی ادب کی کنٹرورسی ’’نظام ‘‘ سے شروع ہوئی۔ ’’نظام‘‘کے بعد ’’امروز‘‘ میں ملازمت مل گئی۔ لاہور آیا تو حلقہ ارباب ذوق میں ’’قیوما کی دکان‘‘

نے پڑھا ہے اور فسانہ آزاد کا بہت قائل ہوں ، اس زمانے میں نئے فکشن کا شہرہ تھا ، سرشار کا کوئی نام نہیں لیتا تھا ، تومظفرسے میری سرشار کے بہانے دوستی ہو گئی۔ کالم نگاری میں نے شروع کی تو سرشار حوالہ بنا میرے لیے، اسی کا پیرایہ میں نے اختیار کیا کہ ایک لائٹ موڈ میں آپ لکھیں۔ اس لیے میری زبان صحافتی ہوتے ہوئے بھی ادبی رہی اور وہ خالص صحافت کی زبان نہیں ہے۔

٭ جب منٹو نے افسانے کا نام بدل دیا
عسکری صاحب اورمنٹو صاحب نے مل کر’’اردو ادب ‘‘کے نام سے جورسالہ نکال ااس میں میری بھی کہانی شائع ہوئی ۔میں نے کہانی کا نام’’وہ ‘‘رکھا، منٹوصاحب نے عنوان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ‘‘کیا نام ہوا اور اس کا نام ’’پھرآئے گی‘‘ ہوگا اوریہ افسانہ اسی عنوان سے چھپا۔ منٹو نے پاس بٹھا کر اعتراض کیا، لیکن افسانے میں تبدیلیاں خود نہیں کیں، بلکہ مجھے تجویزکیا، جس پر میں نے تھوڑا ری رائٹ کیا ۔ اشفاق احمد کو پہلی داد منٹو نے دی ، بعد میں وہ منٹو کا حوالہ نہیں دیتا تھا ، ناشکرا تھا ، اسے تو فخر کرنا چاہیے تھا کہ منٹو نے اسے سراہا ۔

منٹوکو تقسیم کے بعد زیادہ شہرت ملی، سن سنتالیس سے پہلے پوری فضا پرکرشن چندر چھایا تھا ، اس کے جتنی مقبولیت اردوکے شاید ہی کسی اور ادیب کو ملی ہو۔ افسانہ اس کا سنتالیس کے بعد ختم ہوگیا، مقبولیت جاری رہی۔ فسادات پر اس نے پشاور ایکسپریس لکھی، جس کا چرچا ہوا لیکن وہ کہانی کمزور تھی، اسے لکھنے میں جوفارمولا استعمال کیا اورترازو لے کربیٹھ گیا کہ اگرفسادات میں اتنے ہندو مرے ہیں، تو اتنے ہی مسلمان ، یہ ٹھیک نہیں تھا ۔ تقسیم کے بارے میں سب سے اچھا منٹو اورقرۃ العین حیدر نے لکھا حالانکہ دونوں کی سینسی بلٹی مختلف ہے، مسائل اور ہیں ۔ قرۃ العین حیدر کا کام براہ راست فسادات کے حوالے سے نہیں مگر بہت بامعنی ہے ۔

سجاد ظہیراورسبط حسن کودیکھنا
ٹی ہائوس کے پاس دکان تھی، جہاں پرکمیونسٹ لٹریچر بکتا تھا ، عسکری صاحب کے الہ آباد یونیورسٹی کے کلاس فیلو وہاں پر ہوتے تھے،ادھر سے گزرتے ہوئے عسکری صاحب ان کے پاس رکتے ۔ گپ بازی اورطنز ونز کرتے ۔ میں بھی عسکری صاحب کے ساتھ ہوتا ۔ ایک روز ہم گئے تو وہ کہنے لگے کہ عسکری صاحب چھوڑیے ادھر ادھر کی باتیں، اندر بنے بھائی بیٹھے ہیں ، ان سے ملاقات کراتا ہوں ۔ اندر ہم گئے سجاد ظہیر بیٹھے ہیں ، حفیظ جالندھری رواں تھے اور رکنے میں نہیں آرہے تھے، تو ہم نے السلام علیکم کہا اور نکل آئے ۔

امروز میں لیٹ نائٹ ایک ڈیڑھ بجے کاپی جاتی تھی ۔ ایک روز یہ ہوا کہ ساڑھے بارہ کے قریب ایک صاحب ہیٹ لگائے نمودارہوئے، عینک لگی ہے، جاڑوں کا موسم۔ میرے بالکل برابر بیٹھ گئے ۔ نیوز ایڈیٹر اوران کے سامنے مجھ سمیت تین سب ایڈیٹر بیٹھے تھے ۔ مہمان کے لیے چائے آئی ۔ کوئی بات نہیں ہوئی ۔ تھوڑی دیر بعد حمید ہاشمی کے ساتھ چلے گئے ۔ کاپی جڑنے کا وقت آیا توحمید ہاشمی واپس آگئے ۔ جب باقی لوگ ادھر ادھر ہوگئے تومجھ سے حمید ہاشمی نے پوچھا کہ پہچانا وہ کون صاحب تھے ؟میں نے کہا، مجھے کیا پتا ۔ کہنے لگے سبط بھائی۔ میں نے کہا آپ تعارف ہی کرادیتے ۔کہنے لگے،بائولے ہوئے ہو وہ توانڈر گرائونڈ ہیں ۔ پہلے ہی ہلے میں جب ہم آئے تھے ۔

علی سردارجعفری بھی ادھر تھے ۔ اڑتالیس کے شروع میں ترقی پسندوں کی کانفرنس ہوئی تھی، جس میں بہت سے لوگ آئے تھے ۔ بخاری صاحب اور تاثیر صاحب اس کانفرنس میں گئے تھے کہ وہاں کشمیر کے مسئلے پرقرار داد پیش کریں گے لیکن وہاں کچھ ایسا گھپلا ہوا کہ یہ ہو نہیں سکا ، پھر ایک بیان کشمیرکے حوالے سے شائع ہوا ، میں جب لاہور پہنچا تو کرشن نگر میں دیواروں پراس بیان کا اشتہار لگا دیکھا ۔ اس کا پہلا ڈرافٹ فیض صاحب نے تیار کیا تھا ، اس پرغلام عباس، بخاری صاحب ،فیض ، تاثیر، صوفی تبسم ، یعنی نیازمندان لاہور کے پورے گروپ کے دست خط تھے ۔

1949میں جب ترقی پسندوں کی کانفرنس ہوئی میں امروز میں تھا وہاں کوئی جھگڑا وگڑا ہوگیا توسیف الدین کی قیادت میں جلوس نکلا کہ پہلے میکلوڈ روڈ پرامروز میں بیٹھے ہوئوں سے بھگتتے ہیں ۔ سیف الدین سیف دفتر میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے نظر مجھ پر پڑی ،میرے بارے میں جانتے تھے کہ ترقی پسند نہیں بلکہ رجعت پسندوں میں شمار ہوتا ہوں تو انھوں نے مجمعے سے کہا کہ ان غریبوں کی کیا خطا ہے، یہاں سے چلو ۔ ایوب کرمانی کا ترقی پسند ذکر نہیں کرتے ۔ احمد علی کی کتاب میں ان کا ذکر ہے اور نہ ہی لیفٹ کے بارے میں کامران اصدرعلی کی کتاب میں ۔

میں نے ’’جستجو کیا ہے ‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے ۔ میاں افتخارالدین کی نظروں میں مشکوک ہوکر امروز سے ہٹے۔ بعد میں وہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں افسر بن گئے ۔گھرکی اوپری منزل سے گرے تھے ، خود کشی کی تھی، یا کوئی اور معاملہ تھا ، پتا نہیں چلا ۔ لاہور میں ان کی جذباتی تقریر میں نے سنی ۔ میجر اسحاق کی دانشورانہ تقریر بھی سنی ۔ فیض صاحب سے ان کی دوستی تھی ۔ ظفر اللہ پوشنی کا ذکر بھی بہت سنا ،جوراولپنڈی سازش کیس میں پکڑے گئے اوراب کراچی میں ہیں۔

میری محبوب سڑک
ٹہل کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہے ۔ ہاپوڑ میں ہمارے ایک دادا جو میرے والد کے ماموں تھے، انھوں نے اپنی جائیداد سے متعلق کام میرے والد کے سپرد کردیا ۔ان کی بیچ باغ میں کوٹھی میں ہم رہنے لگے ۔ مجھے باغ میں جانا اچھا لگتا۔ گرمیوں میں صبح صبح ٹوکری لے کر نکل جاتا اور پھل اورسبزی توڑتا۔ ہاپوڑ ہی میں ، میں نے آٹھویں جماعت میں ہائی اسکول میں داخلہ لیا ، اس سے پہلے کی تعلیم والد سے گھرمیں حاصل کی ۔

لاہور آیا توکچھ عرصہ عسکری صاحب کے ہاں کرشن نگرمیں رہنے کے بعد اپنے بھانجوں کے ساتھ مسلم ٹائون میں رہنے لگا ۔ وہاں نہرساتھ ہی تھی توصبح صبح نہروالی سڑک پرچلتا، اس سیرکے دوران لاہورمیں پہلی بارکوئل کی آواز سنی توکہا اچھابھئی ، یہاں کوئل بول رہی ہے، تو پھر وہ سڑک میری محبوب سڑک بن گئی ۔مسلم ٹائون میں آٹھ نوبرس گزارے ، پھر رحمان پورہ میں رہنے لگا ۔ فیروز پور روڈ پر میرا بہت وقت گزرا ہے تواس سڑک پرٹہل جاری رہی۔ موجودہ گھرمیں آیا تو پھر لارنس گارڈن میں صبح کی سیر کے لیے جانے لگا اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔

٭کہانی ٹیکا ٹیک دوپہری میں لکھی
ناصرکاظمی کہا کرتا تھا کہ رات کا و قت تخلیق کا ہوتا ہے، اس سمے فرشتے اترتے ہیں ۔ میں نے گرمیوں کی دوپہر کو بیٹھ کر زیادہ لکھا ۔ میں نے ایک بارجب یہ کہا کہ میں توکہانی ٹیکا ٹیک دوپہری ہی میں لکھتا ہوں تو’’نقوش‘‘والے محمد طفیل ٹیکا ٹیک لفظ کے استعمال سے بہت محظوظ ہوئے ۔ یہ لفظ میں نے اپنی بستی میں سنا ۔ کھڑی دوپہری کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی۔ رات کو میں نے کم لکھا ۔مشرق میں پچیس سال کالم اخباری کاغذ پر اور بال پوائنٹ سے لکھا، اس کے برعکس فکشن سفید کاغذ اور روشنائی والے قلم سے لکھا ۔ اب ایسے قلم آرہے ہیں جو میرے ہاتھ میں رواں نہیں ہوتے ۔ لکھا میں نے کمرے میں بیٹھ کرہی ۔

ایک نشست میں کبھی افسانہ نہیں لکھا
فوری طور پر جو میں نے ا فسانہ لکھا ، یعنی ایک واقعہ ہوا اورمیں نے افسانہ لکھ ڈالا ہوتواس کی مثال ’’مور نامہ ‘‘ ہے ۔ اخبارمیں چھوٹی سی خبر دیکھی کہ راجستھان میں ایٹمی دھماکے کی وجہ سے مور مر رہے ہیں ۔ یہ خبر پڑھ کر میں نے فوراً کالم لکھا ۔ پھرمجھے کچھ خیال آیا تو میں نے افسانہ لکھ دیا ۔ ایک اورافسانہ ’’بنی لکھی رزمیہ ‘‘ایسے لکھا گیا، جومیرے پہلے مجموعے’’گلی کوچے ‘‘میںہے۔ یہ اس وقت لکھا ، جب خبرآئی کہ مہاجروں کے لیے پاکستان حکومت نے راستہ بند کر دیا ہے اور ہندوستان سے اب کوئی یہاں نہیں آسکتا ۔ اس کا مجھ پر بہت اثر ہوا ۔ وہ افسانہ خبر پڑھ کر ری ایکشن میں لکھا گیا ۔

حنیف رامے نے مجھ سے کہا کہ وہ ’’سویرا‘‘میں ناولٹ چھاپ رہا ہے تومیرا بھی ناولٹ چاہیے ۔ اس پرمیں نے ’’دن ‘‘لکھا ۔ دوستوں کی محفل میں ’’کٹا ہوا ڈبا‘‘پڑھا تو حنیف رامے نے کہا کہ یہ’’سویرا‘‘میں شائع ہوگا۔ میں نے کہا کہ یہ افسانہ تو میں ’’نقوش ‘‘میں چھپنے کے لیے دے چکا ہوں، تو وہ کہنے لگا کہ ان سے واپس لو۔ میں نے جب محمد طفیل سے بات کی تو انھوں نے انکار کر دیا ۔ اس پر حنیف رامے نے کہا کہ اسے اب اپنے رسالے کے لیے ’’کٹا ہوا ڈبا ‘‘کے پائے کا افسانہ چاہیے،اس پرمیں نے انڈرپریشرہوکر’’سیڑھیاں‘‘لکھا ،جس کوپڑھ کرحنیف رامے نے کہا کہ یہ ’’کٹا ہوا ڈبہ‘‘ سے بھی اچھا افسانہ ہے ۔ ’’دن ‘‘اور’’ سیڑھیاں‘‘ دونوں ہی انڈر پریشر لکھے اوردونوں کومیرے نقادوں نے بہت سراہا۔ ’’سیڑھیاں ‘‘میں تکنیک نئی آگئی ۔

محمد عمر میمن نے پوچھا کہ یہ افسانہ کب لکھا تھا،میں نے بتایا کہ شروع کے زمانے کا ہے، اس نے کہا کہ دوسرے افسانوں سے اس کی تکنیک مختلف ہے، میں نے کہا کہ بس ایک رو میں لکھا گیا ۔ میں اورناصر جب ’’خیال ‘‘کا اٹھارہ سوستاون نمبرترتیب دے رہے تھے تو میں نے ایک روز اس سے کہا کہ اس میں افسانہ بھی توہونا چاہیے ، وہ کون لکھے گا تووہ کہنے لگا تم لکھوگے اورکون لکھے گا، اس پر میں نے ’’جل گرجے‘‘ لکھا ۔

’’شہرافسوس ‘‘ بھی فوری طور پر لکھا گیا ، سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد میں نے فوری طور پر یہ کہانی حلقہ ارباب ذوق میں سنائی۔ مشرقی پاکستان سے جب خبریں آرہی تھیں ، تو اچانک ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ 1947کے بعد کی یادیں آتی چلی گئیں، یادوں کا ریلا آتا گیا اور میں نے فوراً قلم اٹھا کر لکھنا شروع کردیا اور ایک حد تک جاکر چھوڑ دیا ۔یہی ’’بستی ‘‘ کا پہلا باب ہے ۔ ایک نشست میں کبھی افسانہ نہیں لکھا ۔ کئی نشستوں میں لکھا جاتا ۔ ری رائٹ بہت کم کرتا تھا ۔ بہت کم ایسا ہوا کہ پورا افسانہ ری رائٹ کیا ہو۔کاٹ چھانٹ اور تبدیلیاں کرتا رہتا تھا۔

چوری کے افسانے
پہلا افسانہ جس پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ میں نے اپنا رنگ چھوڑ دیا ہے، وہ ’’آخری آدمی‘‘ تھا ۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ چرایا ہوا افسانہ ہے ، یہ بات سب سے پہلے محمود ایاز نے کی کہ یہ تو آئنسکو کے ڈرامے سے لیا ہوا ہے ۔ اس افسانے پر شمیم احمد نے میرے خلاف کمپین چلایا۔ اس زمانے میں عسکری صاحب نے کہا کہ بھئی !تمھاری کوئی کتاب چھپی ہے، ’’آخری آدمی ‘‘ میرا بھانجا کہہ رہا تھا کہ وہ اسے پڑھنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا کتاب بجھوا دوں گا آپ کا بھانجا ضرور اسے پڑھے، آپ پڑھیں نہ پڑھیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ ’’آخری آدمی ‘‘کے بارے میں شمیم احمد کہتا پھرتا ہے، چوری کا افسانہ ہے، تووہ کہنے لگے، اسے چھوڑو۔دوسرا اعتراض’’ نرناری ‘‘ پر ہوا۔ یہ اعتراض شیخ صاحب نے کیا تھا۔ شیخ صاحب سے میری ان دنوں ملاقات نہیں ہورہی تھی۔

اعجاز بٹالوی نے مجھ سے اس افسانے کی تعریف کی اور کہا کہ تمھارے ایک عزیز دوست کا کہنا ہے کہ تم نے ٹامس مان کی کہانی سے مستعار لیا ہے، میں نے دوست کا نام پوچھا تو کہنے لگے کہ نام میں نہیں بتائوں گا۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ دوست شیخ صلاح الدین ہی ہوں گے۔ میں نے کہا کہ میرے دوست سے کہیے کہ آپ نے مغربی فکشن تو بہت پڑھ لیا اور کھنگال ڈالا۔ اب ذرا کتھا کہانی کی قدیم روایت میں تانک جھانک کر لے کیونکہ مجھے اگلی چوریاں ادھر سے کرنی ہیں ۔

سب سے بڑا پچھتاوا؟
پچھتاوے توبہت سے ہیں۔ سب سے بڑا پچھتاوا؟یہ کہ بڑی خشک زندگی گزری ہے ہماری جوگزرنی نہیں چاہیے تھی۔

زندگی سے مطمین ہوں۔کبھی کبھی احساس ہوتا ہے، بعض لکھنے والے انڈرایسٹی میٹ ہوتے ہیں، مجھے احساس ہوتا ہے میں اوور ایسٹی میٹ ہوا ہوں۔

فلموں سے تعارف اورریونکا دیوی
فلموں سے میرٹھ میں میرے کزن نے تعارف کرایا۔ پہلی بار ادھر سینما دیکھا۔ پہلی فلم ’’بھابھی ‘‘دیکھی، جس میں ریونکا دیوی ہیرئوین تھی اسکے بارے میں پتا چلا کہ علی گڑھ میں کوئی صاحب ہیں ، ان کی بیٹی ہے ۔ اورمسلمان ہے ۔ پہلی مرتبہ جس فلمی ہیروین کی تصاویردیکھیں ، وہ ریونکا دیوی تھی ، تو ہم اس کے فوراً عاشق ہو گئے ،اس وقت میں انٹرمیڈیٹ میں تھا ۔ میڑھ میں اور بھی فلمیں دیکھیں۔ ایک فلم جو مجھے ہمیشہ یاد رہی ، وہ ’’کپال کنڈلا‘‘ تھی۔ اس میں سمندرسے آواز آتی ہے تو ہیروین کو احساس ہوتا ہے کہ کوئی اسے بلا رہا ہے اور وہ بھاگتی ہے ۔

وہ سین آج بھی میرے ذہن میں ہے ۔ یہ فلم مجھے دوسری فلموں سے الگ نظر آئی ۔ پاکستان آیا تو دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے جاتا رہا ۔ شروع کے زمانے میں عسکری صاحب کے ساتھ جاتا رہا ایک فلم’’سندور‘‘جس میں شمیم ہیروین تھی، ہم دیکھنے گئے تو ہال خالی پڑا تھا ، عسکری صاحب نے بعد میں اس فلم پر مضمون بھی لکھا ۔ ایک زمانے میں نرگس اور کامنی کوشل پسند تھیں۔ لیلا چٹنس بھی اچھی لگتی تھی، جس کے نام کے ساتھ بی اے لگا ہوتا تھا ۔گیتا دت نے بجھن جس طرح سے گائے ہیں، وہ بہت خوب ہیں۔ خورشید کی آوازبھی اچھی لگتی تھی ۔

ٹی وی پرمیرا پلے بخت خان چلا تو اسے دیکھ کرشوکت حسین رضوی کی بیوی یاسمین کا جس سے نورجہاں کے بعد انھوں نے شادی کی تھی پیغام مجھے ملا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ میری ان سے ملاقات ہوئی توانھوں نے میرے پلے کی تعریف کی اورکہا کہ بخت خاں کے کردار میں میری بڑی دلچسپی ہے اورمیں چاہتی ہوں، اس پرفلم بنے جس کا اسکرپٹ آپ لکھیں تو اس میں عشق کی داستان بھی ہو ۔

میں نے کہا کہ ہاں وہ تو پھر ہوگی۔ شہزادے شہزادی کا عشق ۔ پھر انھوں نے کہا ، نچلے طبقے کے ملازمین کا بھی عشق ہو، تواس پرمجھے یاد آیا کہ فلم ’’پکار ‘‘ میں بھی ایسے ہے ، تو اس پر بھی میں نے کہا ٹھیک ہے ۔پھروہ کہنے لگیں ، تیسرا عشق بخت خان کا ہونا چاہیے، اور وہ بھی کسی مراٹھی عورت سے ۔ اس پرمیں نے کہا کہ اس غازی مجاہد کا میں عشق کروائوں اوروہ بھی مراٹھی عورت سے ۔ اورایک اسکرپٹ میں تین عشق اکٹھے ، مجھ سے توکہانی میں ایک عشق نہیں نبتا توتین کیسے نبیں گے ۔ اس کے بعد جب ان کا پیغام آیا تومیں نے منع کردیا کہ میں نہیں لکھ سکتا۔

ٹرین کے سفر کا رومانس
ٹرین میرے کئی افسانوں میں آتی ہے۔ اس کا سفرمجھے ہانٹ کرتا ہے ۔ریل کی سیٹی کے بارے میں منیرکی یہ لائنیں بہت ہانٹ کرتی ہیں۔

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھرگیا

اس سارے تجربے کو منیر نے اچھے طریقے سے کیپچر کیا ہے ۔ شاہد حمید نے ’’ ریل بازار‘‘کتاب دی، وہ بھی اچھی لگی ۔ ریل کے سفر نے واقعی لوگوں کو انسپائر کیا ۔ ہوائی جہاز کے سفر میں رومانس نہیں ۔ بیٹھے اور اتر گئے ۔ریل میں میلوں کا سفر ہے ۔ ریل بستیوں ، جنگلوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزر رہی ہے ۔ آپ کھڑکی کے برابر بیٹھے دیکھ رہے ہیں ۔رات کو منظر عجیب ہوتا ۔ سارا ڈبہ سویا ہے ۔ آپ جاگ رہے ہیں ۔ گاڑی رکی۔ ایک سواری خاموشی سے جھٹ پٹ اترگئی، ایک سوار ہو رہی ہے ۔

میرٹھ سے ڈبائی واپس جاتا تو شام کو گاڑی علی گڑھ اسٹیشن پہنچتی، جہاں سے صبح بریلی جانے والی ٹرین پکڑنی ہوتی،توساری رات پلیٹ فارم پرگزارنی پڑتی۔ علی گڑھ کے لڑکوں کو وہاں چائے پیتے دیکھتا رہتا ۔ پینگوین نے ایک انتھالوجی چھاپی تھی، جس میں ٹرین کے سفر پرکہانیاںہیں، اس میں میرا افسانہ ’’کٹا ہوا ڈبہ ‘‘شامل کیا ۔اس کے علاوہ بھی میری کہانیاں ہیں، جس میں ٹرین کا سفرآیا ہے۔ ہاپوڑ میں جس جگہ ہم رہتے تھے ، وہ گھر آبادی سے باہر تھا ۔ دہلی سے جو ٹرین مراد آباد جاتی ، وہ باقاعدگی سے گزرتی ۔ دور سے سیٹی کی آواز عجیب قسم کی لگتی ۔ ممٹی پربیٹھی چیل والی لائن بھی منیرکی بہت اچھی ہے۔

میں خود دیکھتا تھا کہ چیل بیٹھی ہے ، اور بیٹھی ہوئی ہے ، اس کے ہاں تصور ہی نہیں کہ اڑنا ہے ۔ اڑ رہی ہے تولگتا ہے سو رہی ہے ، بس ہوا میں تیرتی چلی جا رہی ہے ،خود کچھ نہیں کر رہی۔ بڑی ہانٹنگ چیز ہے ۔ منیرجس طرح سے خانپور کویاد کرتا ہے، وہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔میری دوستی زیادہ ترشاعروں سے رہی ، کسی افسانہ نگار سے دوستی نہیں ہوئی، جیسے ناصرکاظمی ، احمد مشتاق اورمنیرنیازی ہیں ۔ میرا یہ مسئلہ رہا ہے کہ اس حقیقت سے پرے جو حققیت ہے وہ کیا ہے ، شاعری میں منیرنیازی کے ہاں یہ دیکھا تومجھے لگاکہ جومیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہہ رہا ہے ۔

کھجرائودیکھنے کی تمناہی رہی

ہندوستان میں کھجرائوایسی جگہ ہے ، جسے خواہش کے باوجود نہیں دیکھ سکا ۔ گوپی چند نارنگ سے کہا کہ میں کھجرائوجانا چاہتا ہوں ۔ انھوں نے کہا کہ ٹکٹ دیں گے اور ہوٹل میں ٹھہرنے کا بندوبست بھی ہوجائے گا ، لیکن آپ اکیلے جائیں گے ، تومیں نے کہا کہ اکیلے میں نہیں جائوں گا ۔ میں نے کہا کہ جس طرح بنارس مجھے بھیج کریونیورسٹی کواطلاع دے دی تھی اور اردوفارسی شعبہ کا اسٹاف میرا میزبان بن گیا ۔اب اگرکجھرائو میں کوئی کالج یونیورسٹی ہوجومیری میزبانی کرے تومیں جاسکتا ہوں ، وہاں کالج یونیورسٹی نہیں تھی، اس لیے میں پھرنہیں گیا ۔

کلیم اور بازاروف
٭ ڈپٹی نذیر احمد ’’توبتہ النصوح‘‘ میں کلیم سے توبہ نہ کراتے تو ’’فادرز اینڈ سنز ‘‘میں بازاروف کا جوباغی کردار ہے، nihilistقسم کا تو کلیم کا کردار اس کی ٹکر کا تھا بلکہ اس سے بڑھ جاتا ۔ بازارف اپنے باپ کو خاطر میں نہیں لاتا تھا لیکن باپ اس قسم کا نہیں تھا جواسے چیلنج کرتا ۔ اس کا باپ بس ایسے ہی تھا ۔ ادھر تو جنریشن کا سوچ میں فرق دکھایا ہے ۔ ’’توبتہ النصوح ‘‘توکلیم کوچیلنج کرتا ہے ۔ ادھربیٹا گھر میں بیٹھا باپ کوچیلنج کر رہا ہے اور باپ اس کی ساری کتابیں جلا دیتا ہے۔

اتنا بڑا کردار ابھر رہا تھا ، جسے ڈپٹی نذیر نے سوچے سمجھے بغیر ختم کردیا ۔ تقسیم سے پہلے جب میں کرشن چندرکوبہت پسند کرتا تھا توایک دن جب میں ان کی بہت تعریف کررہا تھا توعسکری صاحب نے مجھ سے پوچھا ، ان کے ہاں ظاہر دار بیگ قسم کا کردار بھی کہیں ابھرتا ہے، تومجھے جواب میں کچھ سوجھا نہیں۔ کچھ بن نہ پڑا۔ اس پرانھوں نے مجھے ٹامس مان کی ٹرائیلوجی پڑھنے کوکہا۔

صحافیانہ تحریروں کوادب سمجھا جارہا ہے
جس طریقے سے ہمارے ہاں کے انگریزی ناولوں کو جن میں لکھنے والے سیدھے سیدھے موضوعات لیتے ہیں ،مثلاً جس طرح کسی نے ضیاء الحق کوپکڑ لیا تواب لازمی ہے کہ ایکسپریشن جرنلسٹک زیادہ ہوگا ، لیکن اسی کو لوگ آج کل ادب سمجھ رہے ہیں ۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا ادبی روایت بدل رہی ہے ۔ وہ جو بہت شائستہ اور منجھا ہوا ادبی اظہار ہوتا تھا ،اسے چھوڑ کرجرنلسٹک اظہار کی طرف جایا جارہا ہے ۔ تبدیلی ہورہی ہے ۔

ہم خوامخواہ سیاست میں انوالو ہوئے ہیں ،سیاست سے ہٹ کرہم سوچ نہیں سکتے، اس کا اثر توہونا تھا ۔ ادبی اظہار تبدیل ہورہا ہے، اچھا ہے یہ برا ، میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، ممکن ہے ، زمانے کی تبدیلی ادبی اظہار کواور طرف لے جارہی ہو کیونکہ جو یورپ میں بیٹھے ہیں ، وہ ان ناولوں کوپسند کرتے ہیں، وہ اعلیٰ سطح کے ادبی اظہار سے واقف ہیں، وہ ایسے ناولوں کواچھا جانتے ہیں ، جس میں سیدھا سیدھا جرنلسٹک اظہار ہے، اس کا مطلب ہے ، بین الاقوامی سطح پرکوئی تبدیلی آئی ہے ۔ میں حیران ہوں کہ یہ لوگ پاکستان کے بارے میں کیسے لکھ رہے ہیں، لکھنے کے لیے معاشرے میں پورا انوالمنٹ ہونا چاہیے۔

جیسے میں ہندوستان سے پاکستان آگیا ۔ یہاں کے حالات اور سیاست میں انوالمنٹ تو تھا لیکن چونکہ یہاں کی بنیادی چیزوں سے واقف نہیں تھا اس لیے ایسی کہانی نہیں لکھ سکتا تھا ، جس میں پنجاب پورے طور پر اجاگر ہو۔ کہانی یا توسیدھی سی ، ایسی ہو جس کا لینڈ اسکیپ نہ ہو، لیکن جب لینڈ اسکیپ آتا تو وہ وہاں کا ہوتا جہاں سے آیا تھا ، لیکن ’’بستی‘‘ میں اور ’’تذکرہ ‘‘میں لاہور کا لینڈ اسکیپ آیا ،اسی طرح ’’آگے سمندر ہے‘‘ میں کراچی کا ماحول ہے، تو یہ سب رفتہ رفتہ آیا ۔ میرے نقاد ’’گلی کوچے ‘‘کی کہانیوں کو لیے بیٹھے تھے کہ اس کی کہانیوں کا لینڈ اسکیپ پاکستانی نہیں ۔ میرے ناولوں میں افسانوں کے کسی ٹکڑے کی گونج آئی ہے تووہ میری اطلاع کے بغیر آئی ہے ۔ خود بخود آئی ہے۔ شعوری طور پر نہیں ۔

جمال عبدالناصر
٭جمال عبدالناصر کا بہت قائل ہوں۔ اس کے سواکسی سیاسی شخصیت نے اپیل نہیں کیا۔ وہ بہت جینوین آدمی نظر آتا تھا۔ 1967میںاس سے جنرل عامر پر سارا معاملہ چھوڑ دینے کی فاش غلطی ہوئی۔ وہ سیٹ بیک ساری عرب دنیا کے لیے تھا۔ اس کے بعد وہ شیک ہوگیا۔ شکست کے دوسرے دن تقریر کی تو سارا قاہرہ امڈا ہوا تھا ۔ اس نے کہا کہ مجھ سے یہ خطا ہوگئی ہے اس لیے میں صدارت سے الگ ہوتا ہوں۔ مگر لوگوں نے قبول نہیں کیا۔ اس کرائسز میں شکست خوردہ آدمی کا بھرے مجمے میں یہ کہنا کہ مجھ سے قصور ہوا ہے ، اس لیے میں مستعفی ہوتا ہے، یہ بڑی جرات کی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔