دور کے ڈھول اور ڈھولے

ہم سب کچھ ہوں گے ہر قسم کے شرعی اور غیر شرعی عیب ہمارے اندر ہو سکتے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq April 11, 2016
[email protected]

ہم سب کچھ ہوں گے ہر قسم کے شرعی اور غیر شرعی عیب ہمارے اندر ہو سکتے ہیں لیکن خوش فہمی، غلط فہمی اور کج فہمی کے امراض بالکل بھی لاحق نہیں ہیں۔ اس لیے جانتے ہیں کہ شہروں، خاص طور پر بڑے شہروں، میں ہمارے زیادہ پڑھنے والے نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک غیر میں تو بالکل بھی نہیں ہیں کیونکہ ابھی تک نہ تو وہاں ہمارے قدر دانوں کی کوئی ''تنظیم'' بنی ہے نہ ہی کوئی بلاوا مع ٹکٹ و خرچہ کے آیا ہے بلکہ کسی نے دو انگلی خط بھی ہمیں نہیں بھیجا ہے لیکن ''انٹرئیر'' یعنی دیہی علاقوں میں ہمارے پڑھنے والے اچھے خاصے ہیں اور ان کی طرف سے جب رسپانس ملتا ہے تو بڑا اچھا لگتا ہے۔

لیکن ہمیں وجہ کی تلاش بالکل بھی نہیں ہے بلکہ اس میں خوش ہیں کہ کچھ لوگ جو کیسے بھی ہوں ہمیں داد دیتے ہیں۔ ان میں طرح طرح کے بڑے پیارے پیارے لوگ ہیں۔ ان ہی پیارے لوگوں میں ایک قاری وہ بھی ہے جس کا نام تو کوئی اور ہے لیکن ہم اسے حضرت دل پھینک کہیں گے۔ ایک زمانے سے عشق کا پیشہ کرتے ہیں اور اتنی شدت سے کرتے ہیں کہ اس کے لیے کسی مکھڑے کے محتاج بھی نہیں۔ صرف آواز ہی کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ اپنے ابتدائی عشقیہ دور میں ان کا بیشتر وقت ''ریڈیو'' کو گود میں رکھے ہوئے گزرتا تھا کیونکہ دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشنوں میں لگ بھگ ایک ہزار ایک سو ایک نسوانی آوازیں ایسی تھیں جن پر وہ ہزار جان سے عاشق تھے۔

پھر مزید ظلم بر ظلم ستم بر ستم اور غصب بر غصب یہ ہوا کہ برساتی مینڈکوں کی طرح ٹیلی فون کمپنیاں وجود میں آ گئیں اور سب نے ایسی ایسی آوازیں رکھ لیں کہ انسان کا جی چاہیے کہ ہر وقت کوئی غلط نمبر ڈائل کرے تا کہ جواب میں وہ ''نعمت عظمیٰ'' نصیب ہو جائے۔ ایک مرتبہ جی میں آیا کہ ان کو بلاوا بھیجیں کہ آئیں اور اس آواز کے پیچھے والے چہرے اور جسم کو دیکھ لیں جو ان کے خیال میں چندے آفتاب اور چندے مہتاب تھی، کہ موقع پر چندے ''کوا'' اور چندے ''توا'' تھیں، لیکن پھر سوچا کہ یہ آزار نہ لیا جائے کیوں کہ ہمارے خیال میں ہر انسان کسی نہ کسی بھرم کے سہارے زندہ ہوتا ہے اور اگر اس کا بھرم توڑ دیا جائے تو اس سے بڑا ظلم اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

مثال کے طور پر خدا نہ کرے خدا نہ کرے اگر آج پاکستان کے عوام کا یہ بھرم ٹوٹ جائے کہ جنھیں رہبر سمجھ رہے ہو وہ رہزن ہوتے ہیں، جنھیں ڈاکٹر سمجھ رہے وہ ڈاکو ہیں اور جنھیں نجات دہندے سمجھ رہے ہو وہ ہی تمہاری تمام کٹھنائیوں کا باعث ہیں تو بے چارے تڑپ تڑپ کر جان دے دیں۔ ہم نے تو نہیں توڑا لیکن ہمارے اس بے چارے درد کے مارے عشق کے لکڑہارے قاری کا بھرم اس کم بخت ٹی وی نے توڑ دیا۔ اگر صرف بھرم ہی ٹوٹ چکا ہوتا تو پھر بھی اچھا ہوتا لیکن ان کا بھرم نہ صرف ٹوٹ گیا بلکہ اس کے ٹکڑے بھی ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا تو کوئی وہاں گرا۔ روایتاً اور محاورتاً نہیں بلکہ یہ ٹکڑے حقیقت میں گرے کوئی اس چینل میں اٹکا تو کوئی اس چینل میں بھٹکا۔ اب آواز کے ساتھ چہروں نے یہ غضب ڈھایا کہ ان کا عشق گویا خانہ بدوش ہو گیا۔

کسی ٹی وی پر کسی چہرے میں ''ناک'' پسند آتی ہے تو دوسرے چینل کے دوسرے چہرے میں ہونٹ یا آنکھیں یا کان یا دانت یا کچھ اور۔ اب ان سب کو چن چن کر یکجا کرنا تو ممکن نہیں ہے اس لیے جس کی جو چیز پسند آئی، دل نے کہا کہ ''جا ایں جاست'' یوں اگر کوئی منشی حساب کرنے بیٹھ جائے تو کم از کم ایک مہینہ تو لگ ہی جائے گا تمام پسندیدگیوں کا شمار کرنے میں۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ اس وقت تک نئے چینل نئے چہرے اور ان میں نئی نئی پسندیدگیاں نہیں پیدا ہوں گی کیا؟

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا؟

اب کے ہمارے اس قاری نے علاقہ باجوڑ کے مقام عشق آباد محلہ پریم نگر اور کالونی ہجر و فراق سے جو خط بھیجا ہے اس سے پتہ چل گیا کہ موصوف نے آخر کار تھک ہار کر اپنی اس مصروفیت سے ہاتھ بلکہ آنکھیں اٹھا لی ہیں'اس لیے آوازوں، چہروں اور اداؤں کی دنیا سے گزر کر ایک اور مشکل مقام تک پہنچ گئے ہیں۔

اب تو آ پہنچے ہیں کچھ اور بھی دشوار مقام
اس کی فرقت میں فقط جی کا زیاں تھا پہلے

بہتر ہو گا کہ اس حادثہ فاجعہ کا بیان ہم ان ہی کے الفاظ میں آپ تک پہنچا دیں زباں و بیاں اور گرامر وغیرہ پر مت جایئے پرابلم کی جڑ کو سمجھنے کی کوشش کریں، لکھتے ہیں
''میں نے اپنی پنتالیس سالہ (سسرال والوں کو بتائی گئی بتیس سالہ ورجنیٹی (Virginity) پرائیویٹ اسکول کی ایک استانی سے بصورت شادی توڑ ڈالی۔''

حضرت! شادی سے پہلے جب کوئی کم عمر والی کے ساتھ شادی کی اہمیت بیان کرتا تو مجھے کچھ اچھا نہ لگتا تھا اور خیال تھا کہ پچاس سال تک کسی بھی خوب صورت عورت سے شادی قابل تعریف ہونا چاہیے ... لیکن ایک (36) سالہ (میرے ابتدائی خیال کے مطابق پچیس سالہ) سے شادی نے خیال اول کو نظر ثانی پر مجبور کر دیا''

یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجیب آزاد مرد تھا

عشق میں اتنا ڈھیر سارا تجربہ ہونے کے باوجود ہمارے اس دوست کو یہ معلوم نہ تھا کہ جس طرح دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں ٹھیک اسی طرح دور کے یہ ڈھولے بھی صرف سڈول ہی سڈول ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اس میک اپ اور کیمیکلز کی دنیا میں تو صرف وہی لوگ عشق کر سکتے ہیں جن کی دور کی بینائی کمزور ہوتی ہے اور دوری ہی ان کے لیے بہتر ہوتی ہے۔ بزرگوں نے صرف ایک نصیحت یہ بھی کر رکھی ہے کہ عید اور کسی شادی کے دن ہر گز ہر گز کسی پر عاشق نہیں ہونا چاہیے کہ ان مواقع پر بڑے حسن افزا اہتمامات کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہم یہ تیسری نصیحت بھی ایڈ کرتے ہیں کہ دور سے کبھی بھی عاشق نہیں ہونا چاہیے ویسے یہ بھی گر کی بات ہے کہ

حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

مقبول خبریں