یہ ’لیکس‘ اور اشرافیہ کی اولاد
پانامہ لیکس کی ہنگامہ خیزی جاری ہے۔ عمران خان قوم سے پرائیویٹ خطاب کر چکے ہیں۔
لاہور:
مغربی دنیا کے خوش مزاج لوگ کبھی کبھار کوئی نہ کوئی ایسا شوشا چھوڑ دیتے ہیں جو اس دنیا کے مال مست اشرافیہ کو پریشان کر دیتا ہے اور دنیا کے حکمران ان اونچے لوگوں کی پریشانی ساری دنیا کو پریشان کر دیتی ہے۔ کچھ پہلے 'وکی لیکس' کے نام سے ایک کامیاب شوشا چھوڑا گیا جس نے پوری دنیا میں پریشانی اور اضطراب پھیلا دیا۔
اب یہ کیفیت کچھ کچھ ختم تو نہیں البتہ مدھم پڑی ہے تو اسے پھر سے زندہ کرنے کے لیے ایک اور شوشا چھوڑ دیا گیا ہے اسے 'پانامہ لیکس' کا نام دیا گیا ہے اگرچہ یہ شوشا بھی بالکل 'وکی لیکس' جیسا ہے لیکن اسے نیا بنانے کے لیے اسے نام بھی نیا دیا گیا ہے۔ دولت جو عموماً ناجائز ہوا کرتی ہے اس نئے شوشے کے بعد دولت مندوں کے لیے عذاب بن گئی ہے۔ کوئی سیاسی عہدوں سے الگ ہو رہا ہے تو کوئی پوچھتا پھرتا ہے کہ وہ اپنی اس دولت کا کیا کرے اسے کیسے ہضم کرے۔ دولت چھپانے کا ایک آف شور ذریعہ بھی ایجاد ہو چکا ہے اور ہمارے دولت مند عوام سے لوٹی ہوئی دولت یہاں کہیں چھپا رہے ہیں۔
حکومت بھی چونکہ ان ہی دولت مندوں کی ہے اس لیے وہ انھیں تنگ نہیں کرتی ورنہ خود تنگ ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے بھانجے بھتیجے اور بیٹے سب ہی دولت مند ہیں اور دولت کوئی ایسی بے حیا شے ہے کہ یہ اپنوں کو بھی معاف نہیں کرتی اور ہر دولت مند اپنے دولت مند حکمرانوں سے ڈرتا اور چھپتا پھرتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ضرورت سے زیادہ ایک کوڑی بھی نہیں دی بلکہ بعض اوقات تو ضرورت بھی کسی کوڑی کے انتظار میں رہتی ہے مگر یہ انتظار اس خوف و ہراس سے بہت بہتر ہے جو کسی 'لیکس' کی وجہ سے پھیلتا ہے اور زندگی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے ان دنوں اگر آپ کی کسی مالدار سے ملاقات ہوتی ہے تو اس خوف سے آپ فوراً ہی باخبر ہو جاتے ہیں جو اس شخص کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے اور اس کی زندگی اتنی دولت کے باوجود پولیس کے کسی ملزم اور مفرور کی سی بنی ہوتی ہے۔
جسے ہر وقت کسی چھاپے کا خدشہ اور خوف رہتا ہے بہر کیف خدا آپ کو دولت دے مگر وہ دولت جو سکون کا باعث ہو نہ کہ پولیس کے خطرے والی اور چھاپوں اور 'لیکس' کی زد میں رہنے والی۔ ہماری اصل بدقسمتی یہ دولت نہیں ہماری حکومت ہے جو ہمیں خطروں کے آگے ڈال دیتی ہے جب حکمران مائی باپ ہوں تو وہ اولاد کو بچاتے ہیں اسے تحفظ دیتے ہیں اور نیک راہ پر چلاتے ہیں یوں نہیں کرتے کہ خود کو بچانے کے لیے اولاد کے نام مال جمع کریں اور مال کے خطرے بھی اولاد کو منتقل کر دیں جو دولت اولاد کو قربان کر دے اس سے تو غربت ہزار گنا بہتر ہے۔
نہ جانے ہمارے مالدار کس دل سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ دولت میری نہیں میرے بیٹے کی ہے اگرچہ وہ اسے اولاد کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے لیکن اگر یہ دولت کبھی خطرہ بنے گی تو پھر وہ خطرہ اولاد بھگتے گی۔ حکومتیں بھی بدلتی ہیں اور حکمران بھی ان کی ضرورتیں بھی اور ان کے تعلقات بھی سب کچھ بدل جاتا ہے اور پیچھے رہ جاتا ہے وہ خطرہ جو یہ دولت چھوڑ جاتی ہے۔
یہاں ایک واقعہ یاد آ گیا جو ہر مسلمان دولت مند کو یاد رکھنا چاہیے۔عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ اونٹوں کے لیے شاملات دیہہ میں زمین کے وسیع خطے چھوڑ دیتے تھے جو اونٹوں کی چراگاہ بن جاتے تھے اور لوگ اپنے کمزور اونٹ یہاں چرنے کے لیے چھوڑ جاتے تھے جب یہ اونٹ بحال ہو جاتے تو وہ انھیں ہانک کر گھر لے جاتے۔ یہ ایک معمول تھااور اس چراگاہ کا کوئی معاوضہ نہیں تھا کیونکہ یہ شاملات دیہہ یعنی اس گاؤں اور علاقے کی ملکیت ہوتی تھی۔ ایک بار خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ان کا بیٹا ایک اونٹ اس چراگاہ سے باہر لا رہا ہے۔
انھوں نے اسے روک کر پوچھا کہ یہ اونٹ کس کا ہے۔ بیٹے نے عرض کیا کہ میرا ہے اور حسب معمول میں اسے اس چراگاہ میں چھوڑ گیا تھا اب اس کی حالت بہت بہتر ہو گئی ہے اور میں اسے گھر لے جا رہا ہوں۔ اس کے والد ماجد نے کہا کہ تم اس رعایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ بیٹے نے رواج کا حوالہ دیا اور اپنے کام کو جائز قرار دیا، اس پر اس مسلمان حکمران نے جس کے فیصلے بعد میں انسانی تاریخ کے جھومر بن گئے اپنے بیٹے سے کہا کہ تمہاری بات درست ہے مگر تم امیر المومنین کے بیٹے ہو تمہیں اس چراگاہ میں اونٹ چرانے کا حق نہیں ہے۔ یہ عوام کے لیے ہے تم اس چراگاہ کا معاوضہ بیت المال میں جمع کرا دو اور اونٹ لے جاؤ تمہارا اس پر وہ حق نہیں جو عوام کا ہے۔
بات ختم ہو گئی تاریخ کا حصہ بن گئی کہ حکمران یا اشرافیہ کی اولاد کے حقوق کیا ہیں اور کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم ہوجاتے ہیں لیکن ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئے دن اخبار میں خبر پڑھتے ہیں کہ فلاں نوجوان نے کس پر تشدد کیا مگر چونکہ یہ فلاں کا بیٹا تھا اس لیے پولیس نے چھوڑ دیا بلکہ یہاں تو بڑوں اور اشرافیہ کے بیٹوں نے قتل بھی کر دیے۔ بڑی ہی بددلی کے ساتھ گرفتاری ہوئی مقدمہ چلا اور فیصلہ قاتل کے حق میں ہو گیا کہ یہ سب اتفاقاً ہوا ہے قتل عمد نہیں تھا۔
ہماری اشرافیہ جو صاحب اولاد ہے اسے اولاد کو کھلا چھوڑ دینے کی سزا مل سکتی ہے جب ان کی دولت ان کی مدد نہیں کر سکے گی کیونکہ دوسری طرف بھی دولت ہو سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خوفناک خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب امیر و غریب اور اشرافیہ اور عوام کے درمیان مقابلہ ہو جاتا ہے اور فیصلہ قانون نہیں سیاسی اور حکومتی اثرورسوخ کی عدالت میں چلا جاتا ہے۔
ہمارے سامنے اس قسم کی لاتعداد مثالیں ہیں شہروں میں تو حالات مختلف ہوتے ہیں لیکن دیہاتی زندگی میں اگر کسی کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے تو پھر اس کا بدلہ مظلوم کے وارث لیتے ہیں اوراس طرح کوئی بھی واردات ختم نہیں ہوتی چلتی چلی جاتی ہے۔ امن کی بنیاد انصاف ہے اور یہ انصاف جب تک نہیں ہو گا امن نہیں ہو گا۔