
شامیں، دوپہریں اور راتیں ہمارے ساتھ ہوتی رہی ہیں، لیکن وہاں کے خواب آور مقالوں، نشہ آور تقریروں اور قے آور منظومات نے سوائے آزار کے ہمیں اور کچھ نہیں دیا تھا بلکہ ہر ایسی تقریب کے بعد ہم سوچتے کہ ہم نے تو بے ضرر سا لکھنے لکھانے کا کام کیا اس کی اتنی ''بڑی سزا'' تو نہیں دینی چاہیے کہ چار پانچ گھنٹے بٹھائے رکھا جائے اور دنیا کے ''پورے بوریاں'' سنائی جاتی رہیں، آپ خود سوچئے کہ کسی بے گناہ کو پکڑ کر اور پھر جکڑ کر ایک کرسی پر باندھ دیا جائے اور لوگوں کے ہاتھ مقالوں تقریروں اور منظومات کے کوڑے دے کر اس پر چھوڑا دیا جائے اور پھر ظلم پر ظلم یہ کہ اسے حکم دیا جائے کہ خالی کرسیوں سے کچھ ارشاد فرما دیجیے کیونکہ سامعین تو آزاد ہوتے ہیں اپنی مرضی سے بور ہو کر بھاگ سکتے ہیں لیکن ملزم؟ ایک پشتو کہاوت کے مطابق ''گور'' سخت ہے کہ مردے کی تو مجبوری ہوتی ہے جائے بھی تو جائے کہاں؟
ہوئے ہیں پاؤں پہلے ہی نبرد عشق میں زخمی
کہ نہ بھاگا جائے ہے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
اجازت ہو تو ایسی ہی ایک تقریب کا آنکھوں دیکھا حال آپ کو سنا دیں جو ایک شاعر کے اعزاز میں منعقد ہوئی تھی حالانکہ وہ کوئی خاص شاعر نہیں تھا مشاعروں میں بلایا بھی نہیں جاتا تھا بلکہ خود ہی بن بلائے پہنچ جاتا تھا اور پھر منتظمین سے منتیں کرتا تھا کہ اسے بھی پڑھوایا جائے لیکن اچانک اس کا ایک رشتہ دار وزیر بن گیا تو لوگوں پر اچانک اس کی شاعرانہ عظمت اور ادبی خدمات کا انکشاف ہوا۔ اس تقریب میں کافی بھیڑ تھی کیونکہ موصوف کا رشتہ دار بطور مہمان خصوصی شریک ہو رہا تھا، پیشہ ور مقالہ بازوں نے زبردست مقالے لکھ رکھے تھے اور شاعروں نے منظومے تیار کر رکھے تھے۔
مقررہ وقت پر اس عظیم الشان شاعر کو اسٹیج پر پہنچا دیا گیا، ابھی وزیر صاحب تشریف نہیں لائے تھے مذکورہ شاعر جو بینائی اور شنوائی سے تقریباً محروم تھا اپنے ہاتھوں میں کچھ کاغذات پکڑے اپنی تقریر ''یاد'' کر رہے تھے، منتظمین اور حاضرین میں زیادہ تر سرکاری افسر، سیاسی لیڈر اور شہر کی کریم کہلانے والی خواتین و حضرات ''چھیلا'' بنے پھر رہے تھے، پروگرام کے کرتا دھرتا یہاں وہاں اترائے پھر رہے تھے۔
آخر میں منتظمین بھی چھدرے ہوتے اکا دکا رہ گئے، کرسیاں خالی ہو گئیں صرف چند منتظمین اور چند شاعر رہ گئے، پتہ چلا کہ وزیر محترم کو اسلام آباد میں ضروری کام سے جانا پڑ گیا، شاعر مذکورہ کو پتہ بھی نہیں چلا وہ بدستور اپنی ہونے یا نہ ہونے والی تقریر ازبر کرنے میں لگے ہوئے رہ گئے، خیر یہ تو ویسے ہی ایک غیر متعلق سی بات آ گئی جس کا صرف اتنا سا تعلق ہماری اس تقریب سے ہے کہ اس تقریب میں کوئی وزیر کوئی افسر نہیں تھا سب کے سب صرف قدر دان تھے بلکہ اصل میں یہ کوئی روایتی تقریب تھی بھی نہیں کہ اس میں نہ کوئی صدر تھا نہ مہمان خصوصی نہ کوئی مقالہ نگار نہ نظم گو...بلکہ صحیح معنوں میں ''تقریب بہر ملاقات'' تھی جسے انگریزی اصطلاح میں ''گٹ ٹو گیدر'' کہا جاتا ہے۔
دراصل پشتو کے نوجوان شاعر ادیب اور لیکھک اسرار اتل اور بہت ہی کم عرصے میں شہرت کی اونچائی پر پہنچنے والے فن کار موسیقار گلوکار اور شاعر کرن خان کو یہ نیا خیال سوجھا کہ بعد از مرگ واویلا تو سب کرتے ہیں لیکن اپنے زندہ ادیبوں، شاعروں اور اہل قلم کی کوئی پوچھ نہیں ہوتی، چنانچہ ان دونوں نے کچھ اور نوجوانوں کو ساتھ ملا کر اس تقریب کا اہتمام کیا جس میں چار زندہ لوگوں کی قدر افزائی مقصود تھی جن میں ڈاکٹر اسرار، شمس بونیری، نور البشر نوید اور یہ خاکسار ذرہ بے مقدر شامل تھے، تقریب تو ہر لحاظ سے منفرد اور جدت سے بھرپور تھی کُھلا کُھلا بغیر کسی پروٹوکول اور قاعدے قانون کے نہایت ہی آزادانہ ماحول میں وہ سب کچھ ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔
کسی صدر، اسٹیج سیکریٹری، مہمان خصوصی یا پروسیجر کے بغیر تقریباً ہر موضوع پر بات ہوئی، سوالات پوچھے گئے، نظریات شیئر کیے گئے صرف ایک کمی رہ گئی تھی کہ ڈاکٹر اسرار بوجہ علالت نہ پہنچ سکے اور اس کی نمایندگی زبیر حسرت نے کی، خیبر پختون خوا، افغانستان اور اسلام آباد سے کافی بڑی تعداد میں قدر دان آئے ہوئے تھے، پاکستان میں افغانستان کے سفیر زاخیلی صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ چونکہ اسرار اتل اور کرن خان جدید نسل کے پسندیدہ شاعر اور گلوکار ہیں اس لیے تقریب میں نئی نسل کے پڑھے لکھے اور روشن فکر نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اچھی بات یہ ہوئی کہ ان مہمانان خصوصی کے بارے میں کچھ سکہ بند قسم کی باتیں اور مقالے نہیں تھے۔
لیکن سب سے اہم بات تو یہ رہ گئی کہ یہ تقریبات کہاں پر ہوئی اور اسی بات کے لیے ہم نے یہ کالم لکھا تھا۔ یہ مطالبہ تقریباً پاکستان جتنا پرانا ہے کہ پشاور میں کوئی رائٹرز کلب یا اس قسم کی کوئی چیز بنائی جائے تا کہ دور دراز سے آنے والے شاعر ہر زبان کے ادبا و شعرا بھی وہاں ٹھہر سکیں اور تقریبات بھی ہو سکیں، خدا ہمیشہ خوش و خرم رکھے صوبے کے انقلابی گورنر افتخار حسین شاہ نے اس کے لیے ایک عمارت بھی مخصوص کی اس پر ایک بورڈ بھی لگایا گیا لیکن دینداروں کی حکومت نے آتے ہی اسے ''لہو و لعب'' اور کفر کی نشانی قرار دے کر دفن کر دیا۔ اس کے بعد قوم پرست آئے انھیں تو سب سے پہلے یہی کام کرنا چاہیے تھا کیونکہ دنیا میں اگر کسی تحریک کے ساتھ سب سے زیادہ شعرا و ادبا وابستہ رہے ہیں تو وہ اے این پی ہے۔
لیکن اب اے این پی کا جو نیا ''پُنرجنم'' برسر اقتدار تھا اس میں ایسی کوئی گنجائش نہیں تھی اور اسی بات پر ہم نے اس پارٹی کے ساتھ اپنی نسلوں کا تعلق توڑ دیا، لیکن آج وہ حکومتوں کے کرنے والا کام ایک فرد واحد خالد ایوب کر رہا ہے جس نے اپنے اسپرنگ نائٹ ویلج کو شعر و ادب کے لیے مختص کیا ہوا ہے اور اعلان کر رکھا ہے کہ شعرا و ادباء اور دانشور آئیں، اپنی تقریبات منائیں اور سب کچھ انتظامات میری طرف سے فری۔