فیض صاحب خوش قسمت تھے جو یہ کہہ گئے اور ان پر مقدمہ نہ چلا، جو مقدمے چلے اور انھوں نے قید کاٹی ان کی نوعیت دوسری تھی۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
…٭…
نثار تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیئے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
٭………٭
زمانہ بالکل نہیں بدلا، اب بھی ’’ سنگ و خشت ‘‘ قید میں ہیں اور ’’سگ‘‘ آزاد ہیں۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کو عوام کا درد کھائے جا رہا ہے، یہ سیاست دان عوامی درد میں مرے جا رہے ہیں، الیکشن میں لاکھوں خرچ کرکے کروڑوں کمانے کا ڈھنگ یہ جانتے ہیں، وہ لوگ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، قابل ہیں، عوامی خدمت کا درد رکھتے ہیں۔
وہ کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتے کیوں کہ ان کے پاس نہ پارٹی کو دینے کے لیئے فنڈز ہیں، نہ الیکشن لڑنے کے لیئے پیسہ۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کروڑوں لوگوں میں سے صرف چند لوگ ہی کیوں ہر بار اقتدار میں آتے ہیں۔ پیٹ میں عوام کا درد لیئے اور پھر اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دیتے ہیں، ٹینڈر میں لاکھوں وصول کرتے ہیں، جعلی اکاؤنٹ بینک میں کھلواتے ہیں، بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں جو کبھی واپس نہیں کیا جاتا، پاکستان میں صرف ساٹھ فی صد افراد پڑھے لکھے ہیں۔
وڈیرے، جاگیردار، زمیندار، سردار اپنے اپنے علاقے میں اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ اپنے مزارعوں کو بتا دیتے ہیں کہ کس نشان پر ٹھپہ لگانا ہے، اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو ان کا حقہ پانی بند کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رہ گئے سرمایہ دار وہ اپنے پیسے کے بل بوتے پر من پسند سیٹ خرید لیتے ہیں اور من پسند وزارت پر قابض ہو جاتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کے سلسلے میں کالجوں کے پروفیسرز اور لیکچرر کو پریزائیڈنگ افسر بنایا جاتا ہے۔ جو امیدوار ووٹوں کی گنتی کے دوران سب سے آگے ہوتا ہے اسے ایک فون کال پر ہرا دیا جاتا ہے اور جو منظور نظر ہوتا ہے اس کے گلے میں وَر مالا ڈال دی جاتی ہے اور یہ چند سو افراد عوام پر حکومت کرنے کے لیئے حلف اٹھاتے ہیں جس میں قوم کی خدمت کی قسم کھائی جاتی ہے، پھر بتایا جاتا ہے کہ اس سال موجودہ حکومت کے دور میں بے پناہ کامیابی حاصل کی ہے۔
اعداد و شمار کا گورکھ دھندا اخبارات میں شایع ہوتا ہے اور اگلے دن منی بجٹ پیش ہو جاتا ہے جس میں اشیا کی قیمتیں بڑھ جانے کا تحفہ دیا جاتا ہے لیکن اس سال تو کوئی منی بجٹ کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی، بجٹ کے فوراً بعد بجلی،گیس، پٹرول، ڈیزل اور چینی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے،اسے اس طرح سمجھیے کہ چینی پہلے ایک سو چالیس اور ایک سو پچاس روپے کلو مل رہی تھی، اچانک حکومت میں پنجے گاڑنے والوں نے مقتدر قوتوں سے کہا کہ چینی ضرورت سے زیادہ ہے اس لیئے برآمد کی اجازت دی جائے، حکومت نے فوراً گرین سگنل دے دیا اور مقامی طور پر چینی کی قیمت ایک سو نوے تک پہنچ گئی، جب لوگوں کا احتجاج بڑھا تو قیمت حکومتی سطح پر ایک سو پینسٹھ روپے مقرر کر دی گئی، لیکن ایسے حکومتی اعلانات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، چینی اب بھی 190 روپے فی کلو بک رہی ہے۔
ایک دن پہلے ہی میری ملازمہ اسی قیمت پر چینی لائی ہے۔ چینی کا بحران عمران خان کی حکومت کے دوران ہوا تھا، جب چینی برآمد کرکے خوب ڈالر کمائے گئے تھے اور اب بھی وہی ہوا، موجودہ ارکان اسمبلی اپنی تنخواہیں بڑھواتے رہتے ہیں، خود ہی اضافے کی درخواست کرتے ہیں اور فوراً ہی خود اضافہ کر لیتے ہیں۔ آپ ستم ظریفی دیکھیے کہ جو تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اس کی تنخواہوں میں صرف 10 فی صد اضافہ کیا گیا اور پنشنرز کی پنشن میں صرف7 فی صد اضافہ کیا گیا جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔
میں سوچتی ہوں ان ارکان اسمبلی میں ایسا کیا خاص جوہر ہوتا ہے کہ یہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتے ہیں، کیونکہ وہ زیادہ امیر ہیں اس لیے اقتدار کا ہما ہمیشہ ان کے سر پر بیٹھا رہے گا اور وہ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے رہیں گے۔ انھوں نے حکومت سے کہا کہ ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں، فوراً بڑھا دی گئیں، لیکن عوام کے پاس یہ استحقاق نہیں کہ وہ اپنی تنخواہیں اور پنشن خود بڑھا سکیں، تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں کم از کم 40 فی صد اور پنشنرز کی پنشن میں 20 فی صد اضافہ کرنا چاھیئے۔ ارکان اسمبلی کروڑوں اور اربوں کے مالک ہیں لیکن ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔
کچھ عرصہ قبل ہی اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ بڑھائی گئی اور پھر سب ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ الگ سے ملتے ہیں، جس میں سے آدھے ان کی جیب میں جاتے ہیں، اسی لیے ناقص میٹریل والی بلڈنگیں دھڑا دھڑ گر رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں یوٹیلیٹی اسٹورز بند کر دیے گئے جس میں تقریباً بارہ ہزار ملازمین کام کر رہے تھے، انھیں بے روزگار کرکے ان کے چولہے ٹھنڈے کر دیے گئے، پی ڈبلیو ڈی کو بند کر دیا گیا۔ بجلی، گیس، ڈیزل کی قیمت بڑھا دی گئی اور حکمرانوں کے بچوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا، وہ خوب کمائیں اور اپنے اپنے کاروباروں کو ترقی دیتے رہیں۔
میں سوچتی ہوں یہ کون سا سایہ مسلط ہے اس ملک پر جو ’’عوام کے ووٹوں سے‘‘ عوام کے لیے برسراقتدار آتا ہے جس کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے نوکریاں نہیں ہیں، قومی اداروں کی نجکاری ہو رہی ہے، حکومت نے گیارہ مزید ٹرینوں کی نجکاری کا فیصلہ کر لیا ہے، کتنی بدقسمت قوم ہے ہماری کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ان کا نعم البدل آج تک نہ مل سکا، ہمارے ملک کا اندازہ لگائیں کہ جس نے ملک کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کیا، اس قاتل کی بیوہ کو پوری مراعات حاصل رہی ہیں۔ سنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس عورت کا سو سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ بدقسمت قوم ہر لمحہ دعا کرتی ہے کہ کوئی تو ایسا آئے جسے عوام سے ہمدردی ہو، مگر۔۔۔۔؟