کراچی یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلے
18 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کو ملنے والی گرانٹ میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا ہے
PESHAWAR:
کراچی یونیورسٹی کا 26 واں کانووکیشن گزشتہ ہفتے منعقد ہوا۔ یونیورسٹی کے چانسلر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کانووکیشن کی صدارت کے لیے حسبِ روایت موجود نہیں تھے۔ یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر نثار کھوڑو نے اپنے خطاب میں کہا کہ یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی تبدیل ہونی چاہیے، اب کوٹا سسٹم کے بجائے میرٹ پر داخلے ہونے چاہییں۔ کراچی یونیورسٹی گزشتہ 10 برسوں سے مالیاتی بحران کا شکار ہے۔
18 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کو ملنے والی گرانٹ میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی یونیورسٹی کو گرانٹ دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن (H.E.C) سے ملنے والی گرانٹ سے اساتذہ اور غیرتدریسی ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ پورا نہیں ہوتا۔ گرانٹ نہ ملنے سے یونیورسٹی کا انفرا اسٹرکچر زبوں حالی کا شکار ہے، جس کی بناء پر معیارِ تعلیم متاثر ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی کو تبدیل کرانا چاہتی ہے صوبائی حکومت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ داخلہ پالیسی سندھ کے اضلاع کے کوٹے کی بنیاد پر ترتیب دی جانی چاہیے تا کہ اندرونِ سندھ کے طالب علموں کو بھی آسانی سے داخلہ مل سکے۔
کراچی یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی کے تحت پہلی K کیٹیگری میں ان امیدواروں کو ترجیح دی جاتی ہے جنہوں نے میٹرک، انٹر اور گریجویشن یا مساوی امتحانات کراچی میں واقع ان درسگاہوں سے پاس کیے ہوں جو کراچی یونیورسٹی سے الحاق شدہ یا تسلیم شدہ ہوں، 5 فیصد نشستیں ان طلبہ کے لیے مخصوص کی گئی جنہوں نے گریجویشن کے امتحانات ایسی نجی درسگاہوں سے پاس کیے ہوں جو کراچی کی حدود میں واقع ہوں اور کراچی یونیورسٹی سے تسلیم شدہ ہوں۔ یونیورسٹی کی داخلے کی S کیٹیگری ان طلبہ کے لیے مختص ہے جنہوں نے کراچی کے علاوہ صوبے میں قائم تعلیمی اداروں سے میٹرک، انٹر اور گریجویشن میں سے کم از کم ایک امتحان پاس کیا ہو۔
داخلے کی P کیٹیگری ان طلبہ کے لیے مختص ہے جنہوں نے صوبہ سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں سے امتحانات پاس کیے ہوں۔ اس کے تحت یونیورسٹی کی پہلی ترجیح K کیٹیگری میں آنے والے طلبہ ہوتے ہیں، نشستیں خالی ہونے کی صورت میں S اور پھر P کیٹیگری کے طلبہ کو داخلے دیے جاتے ہیں۔ سندھ کی دیگر یونیورسٹیوں میں سندھ کے تمام اضلاع کا کوٹہ مقررہ ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے داخلے کے مسئلے پر کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اساتذہ کو اعتماد میں نہیں لیا مگر یہ مسئلہ سندھ اسمبلی میں اٹھایا گیا اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے حقائق کا علم نہ ہونے کی بناء پر منفی تقاریر کیں جس سے فاصلے بڑھ گئے۔
وزیر تعلیم نثارکھوڑو نے پہلی دفعہ یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی کو بہتر بنانے کے لیے تجویز پیش کی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں داخلے میرٹ پر ہونے چاہئیں اور دنیا بھر کی معیاری یونیورسٹیوں کی طرح داخلہ ٹیسٹ منعقد ہونا چاہیے۔ صرف کراچی یونیورسٹی میں ہی نہیں بلکہ سندھ کی تمام جنرل مضامین والی یونیورسٹیوں میں کوٹہ سسٹم کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر داخلے ہونے چاہئیں اور داخلوں کے لیے ایک معیاری ٹیسٹ ہونا چاہیے، اگرچہ یہ ٹیسٹ کوئی ایک اتھارٹی تیار کرے اور اس کا ایک ہی معیار ہو تو اور زیادہ بہتر ہے۔ سندھ حکومت کو سندھ کی مختلف یونیورسٹیوں میں دیگر شہروں سے داخلہ لینے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے وظائف اور فیس معافی کا سلسلہ رکھنا چاہیے۔
کراچی یونیورسٹی میں رجعت پسند ماحول کی گہرائی کی بناء پر موسیقی کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا۔ سندھ یونیورسٹی میں سندھیالوجی اور ابلاغِ عامہ کے شعبوں میں موسیقی کا مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ اب کراچی کے طالب علم جو موسیقی کی تعلیم کے لیے سندھ یونیورسٹی جانا چاہیں حکومت سندھ کو ان کی حوصلہ افزائی کے لیے تعلیمی فیس اور ہاسٹل کی فیس کی معافی اور وظائف کی خصوصی اسکیم شروع کرنی چاہیے تا کہ کسی طالب علم کی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش محض پیسے نہ ہونے کی بناء پر ختم نہ ہو جائے۔
اسی طرح اندرونِ سندھ کے طالب علم ایچ ای جے یا کمپیوٹر سائنس کے انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینا چاہئیں تو انھیں انٹری ٹیسٹ پاس کرنے پر خصوصی مراعات ملنی چاہئیں۔ یورپ اور امریکا میں کوئی بھی طالب علم اپنے مضمون کا کوئی بھی کورس کسی دوسری یونیورسٹی میں کر سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تا کہ کوئی بھی طالب علم کسی بھی شہر میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کا عالمی حق استعمال کر سکتا ہے۔ داخلہ پالیسی کے تنازعہ کو مثبت انداز میں حل کرنا چاہیے، مگر داخلہ پالیسی پر نظرثانی سے پہلے اہم معاملہ کراچی یونیورسٹی کی گرانٹ میں اضافے کا ہے۔ کراچی یونیورسٹی اپنے قیام کے بعد سے اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔
ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں مختلف شعبوں کی ترقی کے باوجود عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ کلاس رومز میں فرنیچر جب کہ تجربہ گاہوں میں آلات اور کیمیکلز کی کمی ہے، اساتذہ اور طلبا کے لیے باتھ روم موجود نہیں اور ایک اہم معاملہ ٹرانسپورٹ کی کمی کا ہے۔ طالب علموں کے لیے ایک شعبے سے دوسرے شعبہ تک جانا ایک انتہائی مشکل معاملہ ہے۔ شعبہ اقتصادیات کے بی اے آنرز کی طالبات کا کہنا ہے کہ انھیں ذیلی مضمون ابلاغِ عامہ کی کلاس لینے کے لیے کم سے کم 40 روپے رکشہ والوں کو دینے پڑتے ہیں۔ یہ رکشہ پوری یونیورسٹی میں دھواں چھوڑتے پھرتے ہیں مگر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اب طالبات پوائنٹ کی بس دستیاب نہ ہونے کی بناء پر ویگن کے ذریعے آتی جاتی ہیں۔
یہ ویگن ڈرائیور، جن کی اکثریت یونیورسٹی میں ملازمت کرتی ہے، ہر طالبہ سے کم از کم 2 ہزار روپے لیتے ہیں۔ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی طالبات کے لیے یہ رقم مہیا کرنا ایک مشکل ترین بات ہے۔ یونیورسٹی کے مختلف تعلیمی شعبوں میں کلاس رومز کی شدید قلت ہے۔ بعض شعبوں کی عمارتیں مخدوش ہو چکی ہیں اور کلاس رومز دستیاب نہیں ہیں۔ گرانٹ نہ ہونے کی بناء پر آلات کی خریداری ممکن نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اب بھی ملٹی میڈیا استعمال نہیں کرتے۔ ایک استاد کا کہنا ہے کہ ملٹی میڈیا ہر کلاس کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔
ایک استاد کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے کلاس رومز میں تبدیلی آئی ہے۔ اب استاد چاک کا استعمال نہیں کرتا، بلیک بورڈ کے بجائے وائٹ بورڈ اور مارکر آ گئے ہیں مگر تبدیلی کا عمل بہت آہستہ ہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ وزیرتعلیم نثارکھوڑو نے گزشتہ کانووکیشن میں تقریرکرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ شعبہ ابلاغِ عامہ میں جدید ٹی وی اسٹوڈیو قائم کیا جائے گا۔ مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ ملک کی بیشتر سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغ عامہ میں ٹی وی اسٹوڈیو قائم ہو چکے ہیں۔
موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر جب اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تو انھوں نے وہاں جدید ٹی وی اسٹوڈیو قائم کیا تھا۔ ایسا ہی اسٹوڈیو سندھ یونیورسٹی میں بھی قائم ہے، نثارکھوڑو کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ اس کانووکیشن کے وقت یونیورسٹی کے دو اساتذہ ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی کو بھی یاد کرنا ضروری تھا۔ پولیس ان اساتذہ کے قاتلوں کوگرفتار کر سکی، نہ ان کے لواحقین کو معاوضہ دیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کو سندھ حکومت کے رویے پر افسوس ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے پولیس اور دیگر افسروں کو معاوضے دیے گئے۔ وزیراعلیٰ نے نہ چاہتے ہوئے بھی کچی شراب پی کر ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا، مگرکراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کے لواحقین معاوضے سے محروم ہیں۔
اساتذہ حکومت کی یونیورسٹی کی خودمختاری کو ختم کرنے کی کوششوں سے سخت برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھٹو حکومت نے پاکستان میں یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کے نزدیک کر دیا تھا۔
حکومت سندھ کے نئے قانون کی بناء پر یونیورسٹی اور اسکول میں فرق نہیں رہے گا۔ سندھ اسمبلی میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ نثارکھوڑوکی کراچی یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی کی تبدیلی اور کوٹہ سسٹم ختم کر کے میرٹ نافذ کرنے کی تجویز انتہائی مثبت ہے مگر نثارکھوڑو کو حکومتِ سندھ کی ملازمتوں کی پالیسی بھی تبدیل کرنی چاہیے۔ یہ پالیسی کوٹہ سسٹم کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ میرٹ کی بنیاد پر ملازمتوں سے قابل نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا اور دیہی شہری تضاد ختم ہو جائے گا مگر حکومت کو یونیورسٹی کی خود مختاری کو پامال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔