ہم آزاد کب ہوں گے
ان ملکوں کا کمال یہ ہے کہ اس اسلحے کا بیچنا بھی کسی ملک کے ساتھ ایک مہربانی بنا دی جاتی ہے
اسلحہ ساز اور اسلحہ فروش ملکوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنا اسلحہ ایسے ملکوں پر ٹھونس دیتے ہیں جنھیں انھوں نے بڑی محنت اور سازش سے کسی جنگ کا میدان بنا لیا ہوتا ہے۔ دو پڑوسی ملکوں میں کسی بات پر اختلاف پیدا کر دینا پھر اسی اختلاف کو ہوا دینا اور جب جنگ کی صورت حال پیدا ہو جائے تو ان کو اپنا اسلحہ فروخت کر دینا یہ سب ان کی کسی جنگی سازش کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ان ملکوں کا کمال یہ ہے کہ اس اسلحے کا بیچنا بھی کسی ملک کے ساتھ ایک مہربانی بنا دی جاتی ہے۔ مثلاً پاک بھارت جنگ میں ایک اسٹیج پر امریکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کو مزید اسلحہ نہیں دے گا یعنی نہیں بیچے گا جب کہ وقتی ضرورت کے تحت اسی اسلحہ کی فروخت کے لیے ہی یہ جنگ شروع کرائی گئی تھی۔ اس میں بھی ایک سازش چھپی تھی۔
دنیا کی گراں ترین مصنوعات میں اسلحہ کا شمار ہوتا ہے اور کاروباری لحاظ سے ممکن نہیں کہ اسلحہ کی فروخت روک لی جائے لیکن کسی جنگ میں سیاست کو اس انداز سے داخل کر دیا جاتا ہے کہ یہ جنگ اسلحہ اور سیاست دونوں کی جنگ بن جاتی ہے اور عالمی سیاست میں ان کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے اور اسلحہ تو فروخت ہوتا ہی ہے۔ کمزور اور پسماندہ ملکوں کے درمیان جنگ ان بڑے ملکوں کے لیے ایک نعمت ہوتی ہے اور وہ اپنے فوجی ذخیروں کو اپنی مرضی کی قیمت پر کسی کے سپرد کر دیتے ہیں اور پھر نئے اسلحہ بنانے میں لگ جاتے ہیں جو کسی نئی جنگ کا شکار ہونے والے ملک سفارشیں کر کے خرید کرتے ہیں۔
ان بڑے اسلحہ ساز ملکوں کے لیے پاکستان ہندوستان بلکہ یہ پورا خطہ ہی ایک زندہ میدان جنگ ہے جس میں کشمیر کا تنازعہ موجود ہے۔ یہ دونوں ملک اس زندہ تنازعے کے اتار چڑھاؤ کو سامنے رکھ کر ضرورت کا اسلحہ جمع کرتے ہیں اور اس کی نقد قیمت نہ جانے کس طرح ادا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اسلحہ میں دنیا کے سب سے زیادہ قیمتی ایف 16 جہاز بھی ہوتے ہیں۔
امریکی اپنے مہنگے ترین کار خانوں کو چالو رکھتے ہیں اور ان میں جو جہاز وغیرہ تیار ہوتے ہیں ان کو ایشیا کے کسی ایک میدان جنگ میں بھیج دیتے ہیں اور ان کا بھاری معاوضہ وصول کر لیتے ہیں۔ ہم جنگ زدہ کمزور ممالک بعض اوقات سامراجی چالیں سمجھتے ہوئے بھی ان کا شکار ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمارے ارد گرد ایک ایسا جنگی جال بن دیتے ہیں کہ ہم اس میں پھنسنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کبھی ضرورت پڑنے پر ہی ہمیں باہر نکالتے ہیں۔ کسی دوسرے جال کے لیے۔
امریکا نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ F-16 ہوائی جہازوں کا سودا توڑا ہے اور کہا ہے کہ پہلے تو ہم ان کی قیمت میں مدد دے رہے تھے مگر اب ایسا نہیں ہو گا آپ ان کی قیمت کا بندوبست کریں کیونکہ امریکی خزانہ ایسے اخراجات کے لیے نہیں ہے۔ ہمیں سب پتہ تھا کہ امریکا یہ کیوں کر رہا ہے اور بھارت کا اس کے پیچھے کتنا ہاتھ ہے جو ان دنوں امریکا نے پکڑ رکھا ہے لیکن ہم امریکا کو مجبور نہیں کر سکتے تھے۔ ہم سب کچھ جانتے ہوئے اپنے دشمنوں کی سازشوں کو دیکھتے ہوئے مجبور ہو گئے ہیں۔
اب ہم ان جنگی جہازوں کی قیمت کہاں سے ادا کریں گے اور امریکا کیا اس میں کوئی رعایت کرے گا یا نہیں دیکھا جائے گا لیکن ایک بات جو ہر پاکستانی کے ذہن میں بے چینی کا سبب بن جاتی ہے وہ ہے امریکا سے مناسب حد تک گلو خلاصی۔ اب جب ہم ایٹم بم بنا چکے ہیں بھارت ہمارے خلاف سازشیں ضرور کر سکتا ہے مزید کچھ نہیں کر سکتا۔ فی الحال امریکا اور بھارت اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو اس بم سے محروم کر دیا جائے اس کے لیے بھارت اور امریکا کیا کریں گے میں اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ میں اس تکنیک سے واقف نہیں جو ایسے موقعوں پر استعمال کی جاتی ہے لیکن ہمارے پاس اگر بم بنانے والے ہیں تو اس کی حفاظت کا ہنر جاننے والے بھی ہیں۔
اگر بھارت نے امریکا کی شہہ پر کوئی حرکت کی تو یہ اس کی ایک تاریخی حماقت ہو گی لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانی کب تک امریکا کے محتاج رہیں گے۔ امریکا ہمارا شروع دن سے ساتھی ہے اور ہم نے شروع میں بھی روس پر امریکا کو ترجیح دی تھی اور روس شکوہ کرتا رہ گیا تھا۔ روس یعنی اس وقت سوویت یونین ہمارے دروازے پر تھی جب کہ امریکا بہت دور تھا لیکن ہمارے امریکی ذہن رکھنے والے لیڈروں نے پڑوسی روس کو مسترد کر دیا۔ اس کے بعد ہم امریکا کے قریب قریب غلام ہی بن گئے ہمارا دفاع امریکا نے لے لیا۔ اور ہمیں چھاؤنیاں تک بنا کر دیں جن میں کھاریاں کی بڑی چھاؤنی سرفہرست ہے۔ دفاع کے علاوہ بھی ہم اپنی ضروریات امریکا سے پوری کرنے لگے امریکیوں کے ہاں یہ مذاق تھا کہ جب پاکستان جاؤ تو بریف کیس میں دو ٹائیاں ضرور رکھ لو متعلقہ افسر اسی تحفے پر خوش ہو جائے گا۔
ہم نے اپنی نئی زندگی کی تعمیر بھی امریکی اسٹائل پر شروع کر دی اور اس میں امریکا کو یوں برتری حاصل تھی کہ اس کے تعلیمی ادارے چونکہ نہایت ہی اعلیٰ معیار کے ہیں جو اس وقت دنیا میں بہترین سمجھے جاتے ہیں اس لیے ہمارے طالب علموں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی امریکی تعلیمی ادارے میں داخلہ پا سکیں۔ امریکا اور پاکستان کے باہمی تعلق اور رابطوں کا ذکر بہت طویل ہے لیکن میرے جیسا عام پاکستانی اپنے بڑوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ جس قدر ممکن ہو امریکا کی سرپرستی اور برتری سے الگ ہو جائیں اور اپنی نئی زندگی شروع کریں اب ہم پاکستانی خود ایک اعلیٰ علمی زندگی شروع کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے ذہنوں سے امریکا جھٹک دیں۔
مطلب یہ نہیں کہ امریکا سے دشمنی مول لے لیں بلکہ ماضی کے تعلقات کو سامنے رکھ کر امریکا سے اپنی ترقی میں مدد لیں اور آج کی دنیا میں تعاون اور مدد آسان ہو گئی ہے۔ ہم پاکستانیوں کو بہر حال اس کیفیت سے نکل آنا چاہیے کہ امریکا ہمیں عین موقع پر چھوڑ دے۔ بلاشبہ امریکی جہاز بہت مفید ہیں لیکن ایسے ملک بھی زندہ ہیں جس کے پاس یہ جہاز نہیں ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو اس پر غور کرنا چاہیے بلکہ عملی صورت پیدا کرنی چاہیے آخر بھارت کے اشارے پر ہم کب تک دنیا کی محتاجی برداشت کریں گے۔ امریکا نے بھارت کی خواہش پر ہمیں اپنے جہازوں سے محروم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ باغیرت پاکستانیوں کے لیے یہی بہت ہے۔ ہمیں اپنی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ اور اسے ہر حال میں حاصل کرنا اپنے اوپر لازم کر دیا جائے۔