معذور افراد معاشرے کا حصہ ہیں، محرومی کے کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا!!

 ایکسپریس فورم میں ’’معذوروں کی بحالی اور حکومتی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ ۔  فوٹو : فائل

 ایکسپریس فورم میں ’’معذوروں کی بحالی اور حکومتی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

معذور افراد کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور دیگر شہریوں کی طرح اپنی زندگی اچھے طریقے سے بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس طبقے کو ’’خصوصی افراد‘‘ کا نام دیا گیا ہے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہوسکے مگر صرف انہیں یہ نام دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی قانون خصوصی افراد کے تمام تر بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے جبکہ ہمارے ملکی قانون میں بھی معذور افراد کے لیے خصوصی مراعات رکھی گئی ہیں۔ قومی بحالی و روزگار برائے معذوراں ایکٹ 1981ء میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ، علاج کی مفت سہولتیں اور ان کے اعضاء کی بحالی کے اقدامات کو شامل کیا گیا۔اس کے علاوہ معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہیں۔

اس قانون کے علاوہ بھی حکومت کی جانب سے اقدامات کا اعلان کیا جاتا رہا ہے لیکن ان پر کتنا عمل ہوا اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکثرمعذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ معذور افراد کی تعداد کا جائزہ لیں تو ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تیس کروڑ آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ80 لاکھ افراد معذور ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ پاکستان نے معذور افراد کی بحالی کے عالمی کنونشن بھی دستخط کیے ہوئے ہیں اور ریاست ان معذور افراد کی بحالی کی ذمہ دار ہے۔

ملک میں معذور افراد کی صورتحال کا جائزہ لیں توسرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اورہسپتالوں میں معذور افراد کو رسائی باآسانی ممکن نہیں۔ چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذور افراد کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور ان کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے لہٰذا معذوروں کے احساس محرومی کا خاتمہ کرنے اور ان کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

بجٹ کی آمد آمد ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی معذور افراد امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اب ان کی بحالی کے لیے ضرور بجٹ مختص کیا جائے گا اور پھر ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ملک کے اس اہم طبقے کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’معذوروں کی بحالی اور حکومتی ترجیحات‘ ‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و خصوصی افراد کے نمائندوں اور قانونی ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

خلیل طاہر سندھو
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
معذور افراد معاشرے کا حسن ہیں لہٰذا انہیں احساس محرومی نہیں ہونے دینا چاہیے بلکہ محرومی کے اس کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ معذور افراد کی بحالی کے لیے احساس چاہیے اور ہم ان کے لیے درد رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب میں معذوروں کی بحالی کا کام بہتر ہو رہا ہے اور ابھی مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک معاشرے میں معذور افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے کا احساس پیدا نہیں ہوگا تب تک معذوروں کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ معذور افراد کا معذور ہونا جرم نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ان کا کوئی ہاتھ ہے، جو لوگ ان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور ان کا حق نہیں دیتے انہیں خدا خوفی کرنی چاہیے۔ جو لوگ معذور افراد کو کوٹہ پر ملازمت دینے کے بجائے جرمانہ ادا کر دیتے ہیں اگر ان کے خاندان کا کوئی فرد معذور ہو تو انہیں احساس ہوگا کہ وہ کتنا بڑا ظلم کررہے ہیں۔

یہ باعث افسوس ہے کہ معذور افراد میں بھی بہت سارے گروپس بنے ہوئے ہیں ، جب نابینا لوگوں نے احتجاج کیا تو میں نے دیکھا کہ بصیرت سے محروم بہت سارے لوگ، بصارت سے محروم لوگوں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کررہے تھے۔ پھر ہم نے انہیں سمجھایا اور معاملہ حل کیا۔ عالمی سطح پر معذور افراد کو ریاست کی طرف سے سہولیات دی جاتی ہیں۔ ہم بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور معذور افراد کی بحالی کے لیے کام کررہے ہیں۔پاکستا ن کے لوگ مدد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں بشرطیکہ انہیں علم ہو کہ ان کا پیسہ صحیح جگہ خرچ ہورہا ہے۔

اس کے لیے اچھے لوگوں کو سامنے آنا چاہیے اور معذوروں کی بحالی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک معذوروں کی بحالی کے لیے تھنک ٹینک بنا کر معذور افراد کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اور معذور افراد کے لیے علیحدہ وزارت بھی ہونی چاہیے تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں۔اس کے علاوہ معذور افراد کے لیے ہیلتھ کارڈ کے اجراء کے ساتھ ساتھ سفری کرائے میں رعایت بھی یقینی بنانی چاہیے اور معذور افراد کے لیے مختص بجٹ بڑھانا چاہیے۔ 81ء کے حالات اور موجودہ حالات میں بہت فرق ہے لہٰذا اب معذوروں کے حوالے سے قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے۔

اس کے لیے پینل سیکشن کو قانون کا حصہ اور قانون پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے سزا یقینی بنانی چاہیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب تک بہت ساری باتیں نہیں پہنچتی لیکن اگر معذور افراد کے مسائل وزیراعلیٰ تک پہنچ گئے تو حل ہوجائیں گے لہٰذا اب میں خود وزیراعلیٰ پنجاب کو معذوروں کے مسائل سے آگاہ کروں گا اور ان کی بحالی کے حوالے سے تجاویز دوں گا۔

ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
ہم شروع دن سے ہی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جب معذوروں کی بحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تو اس میں معذوروں کو بھی شامل کیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ حکومت کاسمیٹک اقدامات کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسائل حل نہیں ہوپاتے۔

حکومت نے معذوروں کو خدمت کارڈ کے اجراء سلسلہ شروع کیا ہے، اگر ہمارے ساتھ مشاورت کی جاتی تو ہم اس سے منع کردیتے کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں 12سو روپے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس میں معذوروں کو شامل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے معذوروں کے اصل مسائل حکومت تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس وقت معذور افراد کے تین بڑے مسائل صحت، تعلیم و تربیت اور روزگار ہیں۔ افسوس ہے کہ معذور افراد کی بحالی کے لیے کسی ہسپتال میں ایک بستر بھی نہیں ہے جس سے معذوروں کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ہمیں وزیراعلیٰ پنجاب کی نیت پر کبھی شک نہیں ہوا بلکہ حکومت پنجاب نے وزیراعلیٰ کی خواہش پر 6برس پہلے معذور افراد کے لیے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانے کا اعلان کیا اور اس کے لیے زمین بھی الاٹ کردی گئی مگر ابھی تک وہ ہسپتال نہیں بن سکا۔ اس کے نہ بننے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ہسپتال کو بنانے والی ٹیم ہے جس میں معذوروں کی بحالی کا ایک بھی ڈاکٹر شامل نہیں تھا۔

میرے نزدیک معذور افراد کے مسائل نہ حل ہونے کے پیچھے پلاننگ کا فقدان ہے، حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر معذوروں کے لیے ہسپتال بنائے اور ان ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے معذوروں کی بحالی کے ڈاکٹرز پر مشتمل کمیٹی بنائے جائے۔ اس کے علاوہ ٹیچنگ ہسپتالوں میں معذور افراد کی بحالی کا الگ شعبہ قائم کیا جائے ۔ حکومت کو معذور افراد کی تعلیم مفت کردینی چاہیے لیکن اس میں شفافیت قائم رکھی جائے اور معذوری کی نوعیت دیکھ کر کسی شعبے میں داخلہ دیا جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ٹانگوں سے معذور شخص کو انجینئرنگ میں داخلہ دے دیا جائے لیکن وہ کسی عمارت پر چڑھنے سے قاصر ہو ۔ زیادہ تر معذور بچے ہنر مندی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لہٰذا ووکیشنل ٹریننگ اور سکل ڈویلپمنٹ میں معذور افراد کا کوٹہ دس فیصد کیا جائے۔

پنجاب کے 90لاکھ معذور افراد میں سے 45لاکھ کے قریب بچے ہیں، حکومت صرف ََ5 ہزار بچوں کو سکول بھیج رہی ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ باقی کے چالیس لاکھ بچوں کی بحالی کون کرے گا؟ ہماری حکومت کو یہ تجویز ہے کہ پہلے سے موجود سکولوں میں ایک ایک کلاس روم معذور دوست بنادیں تاکہ بچوں کو ان میں تعلیم دی جا سکے۔

میرے نزدیک معذور افراد کے لیے وظائف بے معانی ہیں، اگر حکومت صحیح معنوں میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہے تو انہیں 50ہزار سے 5لاکھ روپے تک کا قرض حسنہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار کما سکیں۔ معذور افراد کے لیے مختص 3فیصد کوٹہ پر ملازم نہ رکھنے والے کو جرمانہ کیا جاتا ہے، مالکان جرمانہ ادا کردیتے ہیں مگر معذور افراد کو نوکری نہیں دیتے جس کی وجہ سے معذور افراد بے روزگار ہیںلہٰذا جرمانے کے بجائے سخت سزا مقرر کی جائے تاکہ 3 فیصد کوٹہ پر عملدرآمد ہوسکے۔ یہ درست ہے کہ دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب میں معذوروں کی بحالی کا کام بہتر ہورہا ہے لیکن جب تک حکومتیں مدد کرنے کا رویہ نہیں اپنائیں گی تب تک صحیح معنوں میں معذوروں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

ایڈووکیٹ اظہر صدیق
(قانونی ماہر)
معذوروں کی بحالی کے لیے دیے جانے والے اشتہارات کے ذریعے حکومت جو کریڈٹ لے رہی ہے اس کی بنیادی وجہ لاہور ہائی کورٹ ہے کیونکہ جب ہائی کورٹ نے وفاقی اور صوبائی سطح پر ڈیٹا اکٹھا کیا تو حیران کن نتائج سامنے آئے اور معلوم ہوا کہ معذوروں کی بحالی کے حوالے سے قانون پر عملدرآمد ہی نہیں ہورہا۔ حقیقت یہ ہے کہ معذوروں کے لیے مختص کوٹہ کی ہزاروں نشستیں خالی پڑی ہیں اور ان پر بھرتیاں ہی نہیں کی گئیںجبکہ نصف سے زائد بھرتیاں سفارشی ہیں اور ان پر وہ لوگ بھرتی کیے گئے ہیں جن کا اس کوٹہ پر کوئی حق ہی نہیں ہے۔

میرے نزدیک اس حوالے سے حکومت کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہے۔ضرورت یہ ہے کہ مخصوص کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے نیا قانون بنایا جائے اور اگر 3فیصد کوٹہ پر عمل نہ ہو تو معذور افراد کو متعلقہ سیکرٹری کیخلاف پرچہ کروانے کا اختیار دیا جائے۔ میرے نزدیک معذور افراد کی بحالی کے 1981ء کے قانون میں سقم ہے لہٰذا اس میں ترامیم بہت ضروری ہیں۔ ترامیم کے لیے باقاعدہ تھنک ٹینک بنایا جائے جس میں معذور افراد کو شامل کیا جائے اور پھر ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جو معذور افراد کے حوالے سے معاملات دیکھ سکے۔

افسوس ہے کہ معذور افراد کو صرف مخصوص کوٹہ پر ملازمت کا حق حاصل ہے جو اس طبقے کے ساتھ زیادتی ہے۔ میرے نزدیک معذور افراد کے دو استحقا ق ہونے چاہئیں اور معذور افراد کو مخصوص نشستوں کے ساتھ ساتھ جنرل کوٹہ پر بھی ملازمت کا حق دیا جائے۔ حکومت معذوروں کے حوالے سے جن سہولیات کی تشہیر کررہی ہے ان کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ معذور افراد کو 50 فیصد کرایوں میں کمی، صحت کی مفت سہولیات اور انہیں وظیفہ اور قرض حسنہ کی فراہمی کو قانون کا حصہ بنایا جائے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہوسکے۔

آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کے مطابق بنیادی سہولیات معذوروں کا حق ہے لیکن انہیں یہ سہولیات فراہم نہیں کی جارہی، حکومت کو اس حوالے سے سخت قانون سازی کے ساتھ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔ افسوس ہے کہ اورنج لائن ٹرین پر 250 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ معذوروں کے لیے 5 ارب کا بجٹ بھی نہیں ہے ۔ معذور افراد کو روزگار فراہم کرنے کے لیے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں ، دونوں میں ان کے لیے مختص کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ معذور افراد کی ملازمتوں کے حوالے سے ڈیٹا ویب سائٹ پر دیا جائے اور نادرا سے تصدیق کروائی جائے تاکہ بوگس بھرتیو ں کا علم ہوسکے۔

ملک مظہر نواز
( صدر انجمن بحالی معذوراں ضلع اوکاڑہ)
معذور افراد کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ چند سال قبل منظر عام پر آنے والی ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نوے فیصد معذوار افراد بے روزگار ہیں۔ اس کے علاوہ قانون ساز اداروں ، سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں معذور افراد کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لیے کوئی مخصوص کوٹہ ہے جس کے باعث معذور افراد کے مسائل حل نہیں ہورہے۔

معذور افراد کو علاج معالجے کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے ، انہیں صحت کے مسائل کا سامنا ہے اور ایسے افراد جن کی بیماری حساس نوعیت کی ہے ان کے لیے وظائف کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سفری کرایوں میں معذوروں کے لیے پچاس فیصد کمی کے حکومتی دعوے بھی غلط ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ معذوروں کا استحصال ہورہا ہے۔ میرے نزدیک بے روزگاری معذوروں کے مسائل کی ماں ہے، اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دیگر مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ حکومت نے کچھ عرصہ قبل معذور افراد کی بحالی کے بارے میں سوچا ہے اور حوالے سے اقدامات بھی کیے ہیں۔

ہمیں یہ گلہ ہے کہ جب حکومت نے معذوروں کے لیے اقدامات کیے تو اس میں معذور افراد سے مشاورت نہیں کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ ہمیں وزیراعلیٰ پنجاب کی نیت پر شک نہیں مگر خدمت کارڈ بھیک کی ایک نئی شکل ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ معذور افراد کو وظیفہ دینے کے بجائے قرض حسنہ دیا جائے تاکہ وہ اپنا روزگار باعزت طریقے سے کما سکیں اور جن معذور افراد کی بیماری حساس نوعیت کی ہے صرف ان کے لیے وظیفہ مقرر کیا جائے۔

حکومت کی جانب سے معذوروں کے علاج معالجے، کرایوں میں کمی و دیگر سہولیات کی فراہمی کے اشتہارات دیے جارہے ہیں مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہورہا۔ مفت علاج کی سہولیات تو دور کی بات ہے، معذوروں کے لیے تو ہسپتالوں میں علیحدہ کاؤنٹر بھی نہیں ہے۔ اسی طرح کرایوں میں پچاس فیصد کمی پر بھی کہیں عملدرآمد نہیں ہورہا بلکہ معذوروں کے لیے تو سفر عذاب بن گیا ہے۔

یہ باعث افسوس ہے کہ کسی بھی حکومت نے بجٹ میں معذور افراد کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب میں جو 2 ارب روپے معذور افراد کودیے جارہے ہیں وہ نابینا افراد کے احتجاج کے بعد مختص کیے گئے۔اگر آبادی کے تناسب سے دیکھیں تو پنجاب میں نوے لاکھ معذور افراد ہیں جبکہ دو ارب روپے کی حکومتی امداد دو سو بائیس روپے فی کس بنتی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ کیا معذور افراد کی اتنی وقعت نہیں ہے کہ ان کے لیے میٹرو بس جتنے روپے مختص کردیے جائیں؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر بجٹ میں وفاق کم از کم پچاس ارب روپے جبکہ صوبے تیس ارب روپے معذور افراد کے لیے مختص کریں۔

اس بجٹ کا بڑا حصہ معذوروں کو قرض حسنہ دیا جائے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ اگر یہ پیسے منصفانہ طریقے سے معذوروں کی بحالی پر خرچ کیے گئے تو اگلے پانچ سالوں میں معذور افراد کی زندگی میں بہار آجائے گی اور ان کے مسائل کافی حد تک ختم ہوجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔