پاک چین تعلقات کا عظیم سنگ میل

پاکستان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات استوار ہوئے آدھی صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے



KARACHI: پاکستان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات استوار ہوئے آدھی صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس طویل عرصے میں دونوں ملکوں نے تسلسل کے ساتھ قریبی اتحادی اور عظیم دوستوں کی حیثیت کو بحال رکھا ہے۔ ہمارا یہ اتحادی اُس زمانے میں وجود پذیر ہوا تھا جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ انتہائی پیچیدہ سفارتی صورتحال کے دور میں پاک چین دوستی کو قائم رکھنے اور اسے مزید مستحکم بنانے میں ایک شخصیت کا کردار جو دوسروں کی نسبت بہت نمایاں رہا تھا اور اس بات کا کریڈٹ لا محالہ اسی شخص کو جاتا ہے۔

بین الاقوامی سیاست اور سفارتکاری کے اس ہیرو کو اس قدر پذیرائی نہیں مل پائی جس کا وہ مستحق تھا۔ ایک ایسا شخص جس نے جمہوریت، مساوات اور تعلیم کے لیے خود کو غیر متزلزل انداز میں وقف کیے رکھا۔ ایک ایسا شخص جس کی سوچ اپنے دور سے کئی دھائیاں آگے تھیں، ایک ایسی شخصیت جو دوسروں کے لیے تحریک حاصل کرنے کا عظیم منارہ نورتھی۔ یہ تھے عظیم قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو۔ چین کے ساتھ مضبوط تعلقات کے جس ورثہ کو ذوالفقار علی بھٹو نے چھوڑا تھا وہ ان کی بیٹی اور میری اہلیہ شہید بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی زندہ رہا اور ان کے پوتے بلاول بھٹو زرداری کے عہد میں بھی زندہ اور تروتازہ ہے۔

آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اقدامات نے دنیا پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، پاکستان سے باہر بہت کم لوگ ہی اس کا درست ادراک رکھتے ہیں۔ اپنی آخری تحریر میں انھوں نے چین کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کے لیے اپنی جدوجہد کو امور خارجہ کے شعبے میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا ہے کیونکہ ان کی دور اندیشی نے اسی وقت بتا دیا تھا کہ چین بالا آخر برصغیر میں بھارت کی ایٹمی بالا دستی کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کرے گا۔

قرائن کو ذہن میں رکھتے ہوئے قاری یہ سوال کرنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے کہ چین کے ساتھ ایک ایسا تعلق استوار کر کے جسے بعدازاں ہمالیہ سے بلندوبالا، سمندروں سے گہرا، فولاد سے مضبوط، قوت بصارت سے محبوب تر، شہد سے بڑھ کر میٹھا ۔ وغیرہ وغیرہ قرار دیا گیا۔ انھوں نے خود کیا حاصل کیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اس قدر دانا اور دور اندیش تھے کہ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد انھوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ پاکستان کے مفادات واضح طور پر چین کے ساتھ منسلک ہیں لہذا انھوں نے 1963ء میں چین کے ساتھ قراقرم کے سرحدی تنازع کو طے کرنے میں انتہائی برق رفتاری سے کام لیا اور دونوں ملکوں کے مضبوط تعلقات کو یقینی بنا لیا۔

پاک چین اتحاد کی بنیاد بھارت کی توسیع پسندی پر مبنی اقدامات سے پیدا ہونے والے غصے اور ناراضی کے جذبات پر استوار ہے اور یہ دوستی باہمی تعاون، باہمی احترام اور اعتماد کے اصولوں پر قائم ہے۔ 1972ء میں جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے انتہائی کامیابی کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے پاکستان کے لیے 300 ملین ڈالر مالیت کی فوجی اور اقتصادی امداد کا پیکیج حاصل کیا۔ اس کے نتیجے میں چین نے110ملین ڈالر کا قرضہ معاف کرنے پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ۔ عالمی سفارتکاری میں اپنی قوت اختراع اور صلاحیت کی بنا پر چین اور امریکا کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے سہولت کار کے طور پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو غالب حیثیت رکھنے والے ہنری کیسنجر کے ساتھ مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ ان سفارتی کوششوں کے نتیجے میں صدر نکسن نے 1972ء میں چین کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں عوامی جمہوریہ چین کو ریپبلک آف چائنا (تائیوان) پر ترجیح دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن تسلیم کر لیا گیا۔

آنجہانی چیئرمین ماؤ اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیات درحقیقت پاک چین اتحاد کی نمایندگی کرتی ہیں۔ یہ دونوں مدبر انتہائی دوستانہ بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے ملاقات کی سبیل کر لیا کرتے تھے جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ چیئرمین ماؤ کی آخری تصاویر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہیں۔

ذرا تصور کریں کہ اگر شہید ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں شہید نہیں کر دیے جاتے تو وہ اپنے ملک پاکستان اور اتحادی چین کی بہتری کے لیے اور کیا کچھ نہ کر چکے ہوتے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے ورثے کی حفاظت کی اور دونوں ملکوں کی قربت کو مزید بڑھایا۔ اس عرصہ میں انھوں نے چین کا دو مرتبہ دورہ کیا جن میں سے ایک چیئرمین ماؤ کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر تھا۔

جب میں ملک کا صدر منتخب ہوا تو میں نے محترمہ کا کام مزید آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی خدمت کے نقطہ نظر سے دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ صرف پاکستان کے عوام اور تاریخ ہی میری ان کوششوں کی گواہی دے سکتے ہیں۔ مسلح انتہا پسندی میں اضافے کے مقابل، یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ پاکستان اپنی اور اپنے اتحادی چین کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

باہمی تعاون کو ہمارے تعلقات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور کسی انتہا پسند اور غیر ریاستی عناصر میں اتنی ہمیت نہیں کہ ہمارے عزم کے ساتھ ٹکر لے سکے۔ میرے دور صدارت میں چین نے اس بات کو ثابت کیا کہ وہ ہمارا سب سے قابل قدر دوست ہے۔ 2010ء کے موسم گرما میں جب ہمیں شدید سیلاب کا سامنا تھا چین نے ہمیں 250 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ میرے ہی صدارتی عہد میں گوادر کی بندرگاہ اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور دنیا کو کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والے منصوبے کامیابی کی راہ پر گامزن ہوئے اور ان کی بدولت پاکستان میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس وقت ہمارا اتحادی نئی بلندیوں کو چھو لے گا جب یہ سرمایہ کاری اور فری ٹریڈ ایگریمنٹ دونوں ملکوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے بروئے کار آئیں گے۔ سی پیک پاکستان کی موجود نسل کے لیے ''ترقی کی عظیم جست'' ثابت ہو گی اور اس سے 21ویں صدی میں ہماری معاشی کامیابی کے امکانات طے ہوں گے۔

پاکستان کی ترقی میں پاک چین تعاون لازمی حیثیت کا حامل ہے۔ ضروری انفراسٹریکچر کی تعمیر و ترقی میں چین مدد اور معاونت جاری رکھے ہوئے ہے۔ لاہور کراچی موٹر وے، گوادر بندگاہ کی مزید توسیع اور 1100میگا واٹ کے دو ایٹمی ریکٹروں کی تعمیر جیسے بڑے منصوبے چین کی سرمایہ کاری کی بدولت ممکن ہوئے۔ کراچی اور گوادر ایک ایسے تزویراتی تجارتی راستے کو ممکن بناتے ہیں جو چین کو شاہراہ ریشم کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ساتھ منسلک کردے گا۔ پاکستان کی بندرگاہوں کو چین کے ساتھ منسلک ایک بہترین سڑک اس بات کی ضمانت فراہم کرتی ہے کہ چینی معیشت پھلتی پھولتی رہے۔ اپنے اتحادی کے لیے ایسی کامیابی پر ہمیں یقیناً فخر ہوگا۔

پاکستان کے عوام اپنے اتحادی چین کی اس خواہش پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں وہ پاکستانی قوم کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی خوشحالی کے ساتھ چین کی اپنی خوشحالی وابستہ ہے۔ یہ وقت ہم سے تقاضہ کرتا ہے کہ ہم پیچھے مڑ کر شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو اور چیئرمین ماؤ جیسے ان مدبروں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے پاک چین اتحاد کو ممکن بنایا جیسے آج ہم ہمالیہ سے بلند تر قرار دیتے ہیں۔

مقبول خبریں