کشمیر عالمی ضمیر اور نوالوں کے لیے منہ

کشمیر پر ’’عالمی ضمیر‘‘ جگانے کے لیے وزیراعظم نے 22 نمایندے نامزد کیے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq August 29, 2016
[email protected]

PESHAWAR: کشمیر پر ''عالمی ضمیر'' جگانے کے لیے وزیراعظم نے 22 نمایندے نامزد کیے ہیں، جی تو چاہتاہے کہ اپنا سر پیٹ ڈالیں یا پھر بھی اپنا ہی سر پیٹ ڈالیں اور پھر پیٹتے چلے جائیں، نوالوں کے لیے 22 کی جگہ اگر ہمارے سمیت یہ منہ 23 ہو جاتے تو کسی کا کیا بگڑ جاتا، یہی تو ہمیں وزیراعظم سے شکایت ہے۔ ویسے تو جب ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا ہے ہمیں یاد رکھتے ہیں لیکن جب ان کے پاس ''نوالوں'' کے ڈھیر ہوں اور ان کے لیے ''منہ'' تلاش کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ہمارا کم بخت منہ نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں، بلکہ وہ چھوٹے والے شریف میاں تو ان سے بھی زیادہ سبحان اللہ ہیں حالانکہ ہم نے کئی بار یاد بھی دلایا اور اس کالم کے ذریعے یاد دہانیاں کرائیں کہ

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلاؤں،

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

لیکن لگتا ہے کہ ایسے اونچے مقامات پر کان بہرے اور آنکھیں دھندلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں بلکہ دماغ سے یادداشت کا خانہ بھی کہیں گر پڑتا ہے، خیر باقی تو ہم نے صبر کیا ہوا ہے ورنہ امیر مقام اور جھگڑا کے ''مقام'' پر ان سے ''جھگڑا'' ہو سکتا تھا کہ آخر دوسروں کی طرف اتنی دور دور تک گل پھینک رہے ہو تو اے خانہ برانداز چمن ۔۔۔۔ کوئی کلی کوئی پھول ادھر بھی سہی ۔۔۔۔ بلکہ ''خار'' بھی قبول ہیں کم از کم یہ تو کہہ سکیں گے کہ ''بہار'' سے کچھ تو ہمیں بھی ملا لیکن ہم وہ بدنصیب ہیں کہ گاؤں میں سو دیگوں کی خیرات بھی ہو تو کوئی یاد نہیں کرتا، وہ لوگ تو پھر بھی دور سات دریا پار لاہور میں رہتے ہیں یہاں اپنے ہی ''حلقہ انتخاب والوں'' کے پاس کیا نہیں ہے۔

شفق دھنک مہتاب ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول

اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے مگر وہ ''دامن'' ہاتھ میں آئے تو

خیر گولی مار کر ایک اور چھید کا اضافہ کر دیجیے جب اپنا دامن ہی سو چھیدوں الا ہو تو کئی کیا کرے، ہم تو وہ ہیں کہ ۔ ڈوبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے ۔ اگر بجلی کے کھمبے سے لٹک کر خودکشی کرنا چاہیں تو لوڈ شیڈنگ کو خدا غارت کرے ... بلکہ بقول آتش

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش

برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

دراصل یہ ''عالمی ضمیر'' جسے جگانے کے لیے ہماری جگانے والی پارٹی ترتیب دی گئی ہے کچھ کچھ شرف الدین عطار کے ''منطق الطیر'' نامی مثنوی سے ملتی جلتی کہانی لگتی ہے۔

عطار نے منطق الطیر میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ پرندوں نے سوچا کہ ہمارا بھی ایک بادشاہ ہونا چاہیے لیکن کون؟ یہ مسئلہ بڑا ٹیڑھا تھا کیوں کہ پرندوں کی دنیا بھی کچھ کچھ پاکستان جیسی تھی جہاں ہر پرندہ امیدوار تھا، پھر پرندوں نے کہیں سے سنا کہ بہت دور کسی دشوار گزار گھاٹی میں سیمرغ نام کا ایک نہایت ہی قابل لائق فائق اور دانا و بینا پرندہ رہتا ہے ۔ اس زمانے میں حکمرانی کے لیے ذہانت اور قابلیت کی ضرورت ہوتی تھی آج کل کی طرح اس کے لیے ''نالائقی'' کوالی فیکیشن نہیں ہوتی، چنانچہ پرندوں نے ایک بڑا قافلہ ترتیب دیا جس میں مضبوط اور جفاکش قسم کے پرندے شامل کیے گئے۔ قافلہ چل پڑا تو راستے میں سات نہایت ہی دشوار گزار وادیاں آئیں ، ہر وادی میں کچھ پرندے تلف ہو جاتے تھے۔

عطار نے اصل میں تصوف کے سفر کا استعاراتی خاکہ کھینچا ہے اور راہ سلوک کے سات مقامات کی تفصیل بیان کی ہے، جس سے بات لمبی ہو جائے گی، اس نام کا کوئی پرندہ یہاں نہیں ہے بلکہ تم خود ہی وہ ''سی مرغ'' (تیس پرندے) ہو ، جاؤ اور خود پر خود حکومت کرو، لیکن ''عالمی ضمیر'' کا سلسلہ بھی اگر یہ ہو تو یہ جو جگانے والی پارٹی بھیجی جارہی ہے اس کی تعداد صرف 22 ہے یعنی آٹھ کی ابھی کمی ہے، اس لیے ''بیروزگار'' سیاست دانوں اور نوالوں کے لیے بنے ہوئے آٹھ اور ''منہ'' بھی شامل ہونے چاہیں، پڑوسی ملک میں آج کل بیروزگار اداکاروں اور اداکاراؤں کو روزگار دلانے کی خاطر بڑا اچھا طریقہ رائج ہوا ہے کہ ان سے اپنی دواؤں یا جادو اثر لاکٹوں وغیرہ کی پبلسٹی کراتے ہیں ... میں پہلے بہت موٹی تھی، میرے گھٹنے کام نہیں کر رہے تھے، مجھے بواسیر نے بہت تنگ کیا ہوا تھا، مجھے شوگر کی بیماری تھی۔

مجھے انگریزی بالکل نہیں آتی تھی تب کسی نے ''کشمیر'' کے بارے اور میں اب پندرہ سال سے باروزگار ہوں، ''کشمیر'' خالص آئرویدک پروڈکٹ ہے اس کے سائیڈ ایفکٹ نہیں ہیں، شوگر والے مریض بھی ''کشمیر'' سدھی سوندا کو بے خطر استعمال کر رہے ہیں، کشمیر اللہ برکت لاکٹ سونے کا بنا ہوا ہے، کشمیر لاکٹ کے اندر ہنومان چالیسا بھی لکھا ہوا ہے، ''کشمیر'' کبھی ختم نہ ہونے والا لاکٹ ہے، پاکستان اور ہندوستان ستر سال سے اسے پہنے ہوئے ہیں اور اس کا دیا کھاتے ہیں، ویسے تو سیاست میں ''مسائل'' کو ہمیشہ ''طوطے'' کی طرح پالا جاتا ہے ۔کبھی اس سے فال نکلوائی جاتی ہیں اور کبھی توپ چلوائی جاتی ہے لیکن کشمیر ایک ایسا کثیر الاولاد مسئلہ ہے کہ اس سے دوسرے بہت سارے کثیر الاولاد مسائل بھی پیدا کیے جاتے ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ ایسا کیا نہیں ہے جو کشمیر کے مسئلے میں نہیں ہے۔

روشن از پر تو رویت نظر نیست کہ نیست

منت خاک درت بر بضرے نیست کہ نیست

یعنی ایسا کوئی چہرہ نہیں جو تیرے اجالے سے روشن نہیں ہے ایسی کوئی آنکھ نہیں جو تیرے کوچے کے گرد کا احسان مند نہیں ہے

ناظر روئے تو صاحب نظر آنند آری

سر گیسوئے تو درہیچ سرے نیست کہ نیست

یعنی تمہارا چہرہ دیکھنے والا تو صاحب نظر ہے لیکن تیری زلفوں کا بھید ایسا کوئی سر نہیں جس میں موجود نہیں ہے

اب یہ پورے بائیس مونہوں کے لیے نہایت ہی بھرپور قسم کا دستر خوان بھی بن گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر اس سے بھی زیادہ وسیع تر ایک اور دستر خوان بچھایا جائے اور اس پر سیاسی بے روزگاروں کو تسا بیج دے بٹھایا جائے کہ کشمیر کشمیر کا ورد کریں تو اور بھی زیادہ ''مونہوں'' کے لیے نوالوں کا بندوبست کیا جا سکتا ہے،اگر وہ جان بوجھ کر سو جائے تو اور بات ہے۔

مقبول خبریں