ہماری تباہ کاریاں

فرح ناز  جمعـء 2 ستمبر 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

مسلم لیگ (ن) نے کچھ سیکھا یا نہ سیکھا مگر الیکشن میں جیتنا بہت اچھے طریقے سے سیکھ لیا ہے۔ جہلم اور بوریوالا کا الیکشن بھی جیت گئے۔ سمجھ سے باہر ہے جو مجمع عمران خان کے ساتھ ہوتا ہے وہ ان کو ووٹ کیوں نہیں ڈالتا ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو ہزاروں، لاکھوں کے مجمع میں شرکت کے بعد بھی ان لوگوں کو پی ٹی آئی سلیکٹ کرنے سے روکتی ہے۔ جب ووٹ بھی پڑ رہے ہوتے ہیں تب بھی پی ٹی آئی والے بڑے پرامید ہوتے ہیں، کاؤنٹنگ ان کے حق میں جا رہی ہوتی ہے مگر جب رزلٹ اناؤنس ہوتا ہے تو (ن) لیگ کامیاب ہوتی ہے۔

عمران خان کرپشن کی کہانیاں سناتے جا رہے ہیں، کھول کھول کر کہانیاں بتا رہے ہیں، مگر نہ جانے کون سی قوت ہے جو عوام کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ وہ کون سی قوتیں ہیں جو ساری فورسز ہونے کے باوجود مافیاز سسٹم کو مرنے نہیں دیتیں۔ ایم کیو ایم کو روتے پیٹتے ماہ و سال گزرے جا رہے ہیں، اس کے باوجود بھی قوال امجد صابری کا قاتل ایم کیو ایم کا سیکٹر انچارج بتایا جارہا ہے۔ اتنے چھاپے اتنی گرفتاریاں پھر کس کام کی؟ ان کو پہلے بھی قاتل بتایا جارہا تھا اور اب بھی۔ اگر یہ اپنے فعل جاری رکھے ہوئے ہیں تو پھر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ پنجاب کی الگ کرپشن، بچوں کا لگاتار اغوا، عورتوں کا اغوا و قتل اور بھی بے شمار ایسی چیزیں جوکہ یقیناً مطمئن کرنے والی نہیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ یہ الیکشن جیت رہے ہیں تو پھر اپوزیشن کیا کر رہی ہے۔ سب اگر بہت زبردست ہو رہا ہے تو پھر چین و امن کیوں نہیں؟ کیوں لوگ گھروں سے نکل نکل کر جلسوں میں جاتے ہیں، کیوں لوگ دوسرے کے بیانات سنتے ہیں، کیوں ان کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں، کیوں؟ کیا کھیل و تفریح کے لیے یہی سب بچا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں اور بہت خوب کہتے ہیں کہ پاکستان تو بنا ہی قائم رہنے کے لیے ہے۔

چیخ چیخ کر دشمن ممالک کو اپنی مدد کے لیے بلایا جارہا ہے اور اس کی وضاحت اس طرح دی جاتی ہے کہ انصاف نہیں ہو رہا، سنوائی نہیں ہو رہی۔ کہاں جائیں، کس سے کہیں۔ کبھی یو این او کو، کبھی کسی کو، ہم کس کس کو روئیں گے اور کس کس کو کوسیں گے۔ کس طرح ایک جیتی جاگتی قوم کو مردار تصور کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ ملک تیزی سے کامیابی و کامرانی کی منزلیں چڑھ رہا ہے، معیشت مضبوط ہو رہی ہے، یہ تو بس اپوزیشن والے دشمنی کرنے پہ تلے ہوئے ہیں، ورنہ حکومت تو بہترین کام کر رہی ہے۔ اب کیا کہیے روشن و تابندہ پاکستان کتنی بلندیوں پہ ہے کہ خودکشیاں اس ملک میں عام ہوگئی ہیں، غربت بے انتہا بڑھتی جا رہی ہے۔ جہالت چاروں طرف سے اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ ایک ایٹمی پاور ہونے کے باوجود ہمارا رویہ اور کردار ایسا بالکل بھی نہیں جیساکہ ہونا چاہیے۔لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔

کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور اﷲ سے انصاف کی امید رکھتے ہیں، بلکہ یقین رکھتے ہیں اور یہی یقین ہمیں روز روز زندگی بھی دیتا ہے، اور اس زندگی میں ہم نے سیکھا ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ جن کے ہم نے عروج دیکھے ان کے ہم زوال بھی دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پلاننگ کے تحت ہر چیز کو چلایا جارہا ہے۔ مگر انسان کتنا ہی اچھا پلانر کیوں نہ ہو وہ اﷲ سے اچھا پلانر نہیں ہوسکتا۔ اﷲ ہی کا حکم ہے کہ اگر قوم گناہوں کے دلدل میں پھنس جاتی ہے تو ظالم حکمران ہی ان کا نصیب ہوگا۔ کوئی شک نہیں کہ قوم کھینچا تانی کا شکار ہے اور سب سے زیادہ نقصان بھی اسی کا ہے۔ باقی سب اپنی دکانیں آگے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ قوم کو اس وقت بیرونی اور اندرونی دونوں محاذوں پر لڑنا ہے۔

ضروری ہے کہ اندرونی دشمن کی نشاندہی ہو۔ ہمارا کراچی شہر دنیا کا بدامن ترین شہر ہے۔ یہاں موت سستی اور زندگی مہنگی ہے۔ اسی بدامنی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بے روزگاری، غربت، جہالت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی ہب بھی ہے۔ اس شہر میں آبادی بھی سب سے زیادہ ہے، صنعتیں، کارخانے سب سے زیادہ، اسکول و کالج سب سے زیادہ، بڑے بڑے سرمایہ کار گروپ بھی زیادہ ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ کس طرح کی تباہی یہاں کی جا رہی ہے۔ دنیا کے کسی بھی شہر میں امن قائم ہوجائے تو وہ شہر کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں۔ مگر اس سونے جیسے شہر میں امن قائم ہی نہیں ہونے دیا جاتا۔

امن و سکون جب تک شہروں میں قائم نہیں ہو گا،ترقی و خوشحالی خواب و خیال ہی رہے گی۔ شہروں میں امن وسکون ہوگا تو انسانوں کے دماغ بھی بہتر طور پر کام کرسکیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ شہروں اور دیہاتوں میں یہ تمام مسائل تو پھل پھول ہی رہے ہیں اس کے ساتھ انسانوں میں نفسیاتی مسائل بھی بے تحاشا پھیل رہے ہیں اور یہ کوئی اچھی خبر نہیں۔ آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے اور مسائل جوں کے توں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم ایک صوبے کا نہیں پورے پاکستان کا ہوتا ہے اور یہی اس میں خاصیت ہو کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ تمام صوبوں میں ترقی ہو، تمام صوبے کے افراد پاکستان سے جڑے ہوئے ہوں، بلوچستان سے لے کر سندھ تک، پنجاب سے لے کر پشاور تک۔ وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو عام آدمی کے ساتھ جڑے ہونا چاہیے، اور اس کے لیے ان تمام لوگوں کو اپنا وقت اور زندگی وقف کرنا ہوگی۔

ملک دشمن عناصر کہیں بھی ہوں ان کو مل کر شکست دیں۔ خرابیاں بہت زیادہ پھیل گئی ہیں ان کو سدھارنا بہت مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں اور ایک آدمی چاہے کتنا بڑا عہدیدار ہو یہ کام اکیلے نہیں کرسکتا جب تک کہ حکومت اور تمام ارکان کا بھرپور تعاون نہ ملے۔ بیرونی دشمن پاکستان پر نظر جمائے بیٹھے ہیں اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ میڈیا ہمارا خود رو پودے کی طرح پھل پھول رہا ہے۔ ہر ادارہ جب تک اپنی ذمے داریوں کو سمجھے گا نہیں جب تک اپنے مفادات کو چھوڑ کر ملکی مفادات کے لیے سنجیدہ نہیں ہوگا تو کیسے بات بنے گی۔ ہم اور زیادہ نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے اور تمام لوگوں سے دل بڑا کرکے بات کرنا ہی بہتر عمل ہوگا۔

یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے ہی ملک کو تباہ کرنے میں لگے ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ ہیرو بنیں، تاریخ میں سنہرے لفظوں سے لکھے جائیں یہ لوگ ولن بننے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ جس کو دیکھیے وہ اپنے آپ کو افلاطون سمجھ رہا ہے، جس کو دیکھیے وہ اپنے آپ کو چنگیز خان بنانا چاہ رہا ہے، جو لکھنے والے ہیں وہ لکھے جا رہے ہیں، جو بولنے والے ہیں وہ بولے جا رہے ہیں اور بولتے ہی جائیں گے۔ اس امید کے ساتھ کہ انشا اﷲ جلد ازجلد میرے ملک میں بہار آئے گی۔ عدل و انصاف بہتر ہوگا۔ تعلیم حاصل کرنے کے ذرایع بڑھائے جائیں گے، اسکول و کالج کو انڈسٹری نہ بنایا جائے بلکہ ان کو صحیح طور پر درس گاہیں بنایا جائے۔ جہاں پیسے کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہو اور زیادہ سے زیادہ طالب علموں کو علم وہنر سے نوازا جائے۔

سندھ کے نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے عہدہ سنبھال لیا ہے، ان کے جذبے بھی ہیں اور وہ کام کرنا بھی چاہتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی بہت ایکٹیو ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا جائے، ملک فلاح و بہبود کی اسکیمیں بنائی جائیں، مل کر عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے سوچا جائے تو کوئی شک نہیں کہ منفی رویے اور منفی محرکات ضرور دم توڑیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔