دعا ہے والدین کے ساتھ بُرا کرنے والوں کا بُرا نہ ہو

معذرت کیساتھ ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں اپنے حقوق توچھین کرلیے جاتےہیں لیکن فرائض کی ادائیگی کےوقت چوربن جاتےہیں


مہوش کنول November 06, 2016
ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی طرف آپ کے کچھ حقوق ہیں، اب بھلا ایسے معاشرے میں والدین کو کون چھوڑ سکتا ہے؟

ایک محاورہ ہم اپنے بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ''ضرورت ایجاد کی ماں ہے''۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہاں کوئی ضرورت ہوتی ہے وہاں اُسے پورا کرنے کے لئے بنی نوع انسان دسیوں طریقے سوچ لیتا ہے۔ اسی طرح ضرورت کے تحت مختلف علاقوں میں تعمیر کئے گئے''اولڈ ایج ہومز'' قائم کئے گئے۔ اولڈ ایج ہومز ایسے بوڑھے ماں باپ کے لئے ایک سائبان کی حیثیت سے متعارف کرائے گئے۔ جن والدین کو بڑھاپے میں اُن کی اپنی اولاد اس گھر میں برداشت نہیں کر پاتی جس میں انہی کے ساتھ اس کا بچپن گزرا تھا، جہاں انہوں نے بچپن سے جوانی کا سفر طے کیا تھا، اور یہیں وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے اور ماں باپ کے لئے کچھ کر سکیں۔

اولاد جب پیدا ہوتی ہے تو والدین سے بڑھ کر کوئی خوش نہیں ہوتا۔ اولاد کی چھوٹی چھوٹی حرکتیں یعنی اس کی مسکراہٹ، اس کا کھیلنا، اس کا پہلا قدم غرض کہ ہر چیز ہی والدین کے لئے دلی خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کا اسکول میں پہلا دن ہوتا ہے تو والدین اسے خود سے دور کرتے ہوئے ہی بے چین ہونے لگتے ہیں لیکن اس کے بہتر مستقبل کی امید انہیں اولاد سے کچھ گھنٹوں کی دوری پر آمادہ کردیتی ہے۔ اسکول سے شروع ہونے والا سفر کالج، اعلیٰ تعلیم سے ہوتا ہوا شادی تک پہنچ جاتا ہے۔

یہ وہ ساری منازل ہیں جس میں ماں باپ کے لئے ایک سے بڑھ کے ایک خوشی ہوتی ہے۔ اپنی اولاد سے زیادہ خوشی والدین کو اپنی اولاد کی اولاد کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ جب وہ ننھی سی جان اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتی ہے تو والدین جو دادا، دادی بن چکے ہیں انہیں یہ محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ان کا بچپن لوٹ آیا ہو اور یہ احساس ہی ان میں ایک نئی زندگی بھر دیتا ہے۔

جب بوڑھے والدین کے پاس دعاؤں کے علاوہ اپنی اولاد کو دینے کے لئے کچھ نہیں رہتا تو رفتہ رفتہ ان والدین کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب والدین اپنی ہی پیدا کی ہوئی اولاد کے لئے ذمہ داری سے بھی بڑھ کر ایک بوجھ بن جاتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ کچھ والدین سے ان کا سائبان چھن جاتا ہے اور وہ والدین جو اپنی اولاد کو اسکول میں چند گھنٹے چھوڑنے پر بھی بے چین ہوجایا کرتے تھے انہیں زندگی بھر کے لئے اپنی اولاد کی خوشی کی خاطر ہی اپنی اولاد سے دوری برداشت کرنی پڑتی ہے۔

جس عمر میں انہیں اولاد سے فرائض کی ادائیگی کی توقع ہوتی ہے اُس عمر میں وہ کسی اولڈ ایج ہوم میں داخل کرادئیے جاتے ہیں۔ پھر اُن کا سونا، جاگنا، کھانا، نہ کھانا، خوش ہونا نہ ہونا غرض کہ سب ہی کچھ ایک برابر ہوجاتا ہے۔ بوڑھی آنکھوں کے آنسو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتے ہیں۔

اگر یہ سب کسی مغربی معاشرے کی منظر کشی ہوتی تو ہم خود کو یہ کہہ کر بہلا دیتے کہ چلو اُن کا رہن سہن ہم سے الگ ہے یا وہاں تو سب چلتا ہے۔ یہی سوچ کر نظریں پھیرلیتے لیکن المیہ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اپنے مشرقی معاشرے کی منظر کشی ہے جس کا حسن تو یہ ہے کہ والدین تو کیا بلکہ معاشرے میں آپ کے اردگرد بسنے والے ہر فرد کی طرف آپ کے کچھ نہ کچھ فرائض بنتے ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے اتنے بڑے فرض کی ادائیگی سے نظریں چُرا سکتے ہیں تو پھر باقی سب تو بہت ہی معمولی ہیں۔

معذرت کے ساتھ ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جس میں ہم اپنے حقوق تو چھین کرلیتے ہیں لیکن جب فرائض کی ادائیگی کی باری آتی ہے تو ہم سب چور بن جاتے ہیں۔

ایک منٹ کے لئے تصور کیجئے کہ یہی والدین جنہیں ہم بوڑھا ہوتے ہی اولڈ ایج ہومز کا راستہ دکھا کر ان پر اپنے ہی گھر کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیتے ہیں، اگر یہی والدین بچپن میں ہمارے نخرے اٹھانے سے جان چھڑانے کے لئے ہمیں کہیں چھوڑ جاتے تو کیا ہم اس قابل ہوتے کہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکتے؟ اِس طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے جس کے لئے والدین نے کتنے ہی جتن کئے ہیں؟ یا پھر معاشرے میں وہ مقام پانے کے اہل ہوتے جو والدین کی وجہ سے آج ہمیں مل پایا ہے؟۔

اس کا جواب ہوگا نہیں! کچھ خود غرض لوگوں کا جواب یہ ہوگا کہ اولاد کو پالنا، کھلانا پلانا، اچھا پہنانا، اچھی تعلیم و تربیت دینا ہر والدین کا فرض ہے اور اگر ہمارے ماں پاب نے بھی ایسا کیا ہے تو کونسا دنیا سے نرالا کام کرلیا ہے اور ایسی ہی اولاد کی جان نکلتی ہے اپنے فرائض کی ادائیگی میں۔

ہم سب غرض کے پجاری ہیں۔ جب تک جس سے کام نکل رہا ہے اسے اہمیت دیتے ہیں اور کام ختم ہوتے ہی اسے دودھ میں مکھی کی طرح سے نکال پھینکتے ہیں۔ پھر چاہے وہ ہماری خوشیوں کی خاطر دکھوں کی چکی میں پسنے والے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔

بس دعا یہ ہے کہ اللہ ایسی اولاد کو اس کے بڑھاپے میں وہ سائبان نہ دے جو وہ اپنے والدین کے لئے منتخب کرچکے ہیں۔ آمین

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں