ہوٹل میں آگ کیسے لگی؟ معمہ حل نہ ہو سکا

کاشف ہاشمی / ساجد رؤف / ناصر الدین  بدھ 7 دسمبر 2016
ہوٹل میں آگ لگنے کی وجہ جاننے کیلیے اداروں کو خطوط ارسال کردیے، پولیس۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

ہوٹل میں آگ لگنے کی وجہ جاننے کیلیے اداروں کو خطوط ارسال کردیے، پولیس۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

 کراچی:  شاہراہ فیصل پر ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں آتشزدگی کے واقعے کی تحقیقات کرنے والے ادارے اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ آتشزدگی کا واقعہ بجلی کے وولٹیج کے بڑھنے کے نتیجے میں شارٹ سرکٹ کے باعث تو پیش نہیں آیا کیونکہ کے الیکٹرک کے ناقص نظام کے باعث شہر میں وولٹیج کی کمی اور بیشی کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔

گزشتہ روز ریجنٹ پلازہ کے نزدیک واقع دکانداروں اور صدر الیکٹرونک مارکیٹ میں بجلی کے وولٹیج بڑھنے کے نتیجے میں دکانداروں کے بھاری مالیت کے آلات جل گئے تھے اور تاجر برادری نے اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا تھا لہٰذا اس بات کا بھی امکان ہے کہ تحقیقاتی ادارے کے الیکٹرک کے ذمے داران سے بھی اس سلسلے میں بازپرس کرسکتے ہیں، ہوٹل میں آگ وولٹیج کی کمی وبیشی سے لگنے کا امکان ہے، علاوہ ازیں محکمہ فائر بریگیڈ نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب شارع فیصل ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں لگنے والی آگ کی ابتدائی رپورٹ جاری کر دی۔

رپورٹ کے مطابق ہوٹل میں آگ لگنے کی اطلاع 2 بج کر 44 منٹ پر ہوٹل کے دیسک کلرک کی جانب ملی اور2 بج کر 45 منٹ پر صدر فائر اسٹیشن سے فائر ٹینڈر روانہ ہوا، فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ جب فائر بریگیڈ کے عملے ہوٹل پہنچنے کے فوری بعدآگ پر قابو پانا شروع کردیا ، فائر بریگیڈ حکام کے مطابق ہوٹل میں آگ گراؤنڈ فلور پر واقع اعلیٰ گارڈ کچن میں لگی اور وہیں سے ہوٹل میں پھیلی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہوٹل میں آتشزدگی کے نتیجے میں گراؤنڈ فلور پر قائم فرسٹ ایڈ روم ، 7دکانیں، جھروکا ریسٹورنٹ، الماس ریسٹورنٹ، الماس پینٹری، روبی ہال، اوپل ہال، کراؤن پینٹری اور لفٹ ایریا مکمل طور پر جل گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جس وقت ہوٹل میں آگ لگی اس وقت ہوٹل میں سینٹرل لائزڈ ایئر کنڈیشن سسٹم آن تھا جس کے باعث ایئر کنڈیشن کی ڈکس کے باعث دھواں ہوٹل کے تمام فلور اور کمروں تک جا پہنچا2گھنٹے تک نہ بجلی بند کی گئی اور نہ ہی سینٹرلائزڈ اے سی سسٹم بند کیا گیا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہوٹل میں آتشزدگی کے دوران فائر بریگیڈ کے عملے نے81 افراد کو اسنارکل کی مدد سے ریسکیو کیا اور کام دوران ایک فائر فائٹر مظہر رفیق سمیت 2 فائر فائٹرز کو کرنٹ بھی لگا فائر بریگیڈ حکام کے مطابق ہوٹل میں باقاعدہ ایمرجنسی ایگزٹ ایک ہی تھا لیکن وہ کچن اور لفٹ کے ساتھ ہی تھا اور ہوٹل میں دھواں بھرے ہونے کے باعث اخراج ممکن نہیں تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایمرجنسی ایگزٹ عمارت کے باہر ہونا چاہیے جو کہ عالمی معیار کے تقاضہ ہے جبکہ ہوٹل کے کچن میں آگ بجھانے کا موثر انتظام موجود نہیں تھا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ آتشزدگی کے دوران ہوٹل میں موجود افراد نے اپنی جان بچانے کے لیے کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہوٹل میں تمام اموات 5 بج کر 50منٹ اور 6بج کر 6 پر ہوئیں اور جس وقت ہوٹل میں آگ لگی تو ہوٹل کے عملے نے آگ بھجانے کے لیے پہلے خود کو شش کی اور ناکام ہونے پر فائر بریگیڈ کو اطلاع دی۔

دوسری جانب پولیس حکام کے مطابق ہوٹل میں آگ لگنے کی اطلاع مدد گار 15 کو 3 بج کر9 منٹ پر ایک ڈاکٹر کی جانب سے دی گئی، 3بج کر 11منٹ پر صدر تھانے کی پولیس موبائل ہوٹل پہنچ گئی تھی اور اس دوران فائر بریگیڈ کا عملہ اور ایمبولینس موجود تھیں ، پولیس کے مطابق ہوٹل میں 2 فائر الارم سسٹم نصب تھے جن میں ایک جدید اور دوسرا مینول تھا آتشزدگی کے دوران فائر الارم سسٹم بالائی منزلوں پر نہیں بجا صرف ایک شخص نے بتایا کہ گراؤنڈ پر فائر الارم سسٹم بجا تھا، کچن میں کام کرنے والا عملہ آگ لگتے ہی فوری طور پر وہاں سے نکل گیا تھا آگ بجھانے کا نظام عالمی تقاضوں کے مطابق نہیں تھا آگ کچن میں لگی اور اس میں گیس لیکج کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،کوئی بھی آگ اتنی اچانک نہیں پھیلتی۔

پولیس حکام کے مطابق ہوٹل میں 3 ایمرجنسی راستے تھے ایک راستہ کچن کے قریب ہی لفٹ کے ساتھ بنا ہوا تھا، جس میں دھواں بھرنے کے باعث وہ قابل استعمال نہیں تھا دوسرا راستہ جناح اسپتال والی سڑک کی طرف تھا جس کو استعمال کیا گیا، وہاں لوگوں نے نکلتے وقت حفاظتی اقدامات کے تحت شیشے بھی توڑے، تیسرا ایمرجنسی راستہ پارکنگ کی جانب تھا لیکن اس کے استعمال کے بھی شواہد نہیں ملے، لائٹ اور اے سی سسٹم بند نہیں کیا گیا تھا ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے ایمرجنسی رسپانس میں تاخیر برتی گئی، ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے مسافروں اور عملے کی فہرست فراہم نہیں کی گئی جب عملے کی فہرست فراہم کی جائے گی تو ان سے تفتیش کی جائے گی۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہوٹل میں آگ لگنے وجہ کا تعین کرنے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو خطوط ارسال کردیا گیا ہے اور جواب آنے کے بعد ہی آگ لگنے کہ وجہ معلوم ہو سکی تھی ، انسپیکشن ٹیموں نے اپنا کام شروع کردیا ہے جبکہ ماہرین سے ان بھی رائے حاصل کی جا رہی ہے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ قوی امکان ہے کہ یہ حادثہ ہی ہے لیکن تخریب کاری سمیت کچھ بھی خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا ،حکومت سندھ محکمہ شہری دفاع صرف سند جاری کرنے تک محدود رہے گیا، ریجنٹ پلازہ ہوٹل کو محکمے کی جانب سے رواں برس انسپکشن سند جاری کی گئی تھی یا نہیں یہ بات کوئی بھی افسر بتانے کو تیار نہیں، جس کی وجہ سے معاملہ پرسراریت اختیار کرگیا۔

محکمہ شہری دفاع کے اس عمل سے ہوٹل میں 12افراد کی موت کا ذمہ دار تاحال کوئی ٹہرایا نہیں جاسکا ، محکمہ کو شدید افرادی قوت کے بحران کا سامنا بھی ہے،ریجنٹ پلازہ کو گزشتہ برس محکمہ شہری دفاع کی جانب سے دفاعی آلات کی درستگی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا، ایکسپریس کی تحقیقات کے مطابق محکمہ شہری دفاع ( سول ڈیفنس) صرف انسپکشن سند جاری کرنے تک محدود رہے گیا ہے جبکہ کسی بھی ادارے، شاپنگ سینٹر، کثیر المنزلہ عمارت، فیکٹری، چھوٹے بڑے ہوٹل، تعلیمی اداروں، عدالتیں، کے پی ٹی، ایئرپورٹ، پیٹرول پمپ، سینما گھر، سینٹرل پولیس آفس سمیت دیگر مقامات پر دفاعی آلات کے نہ ہونے یا آلات کے درست نہ ہونے پر صرف انکے خلاف خطوط اعلیٰ حکام کو ارسال کرنے کا اختیار رکھتا ہے، ہر سانحے کے بعد محکمہ شہری دفاع کو متحرک کرنے کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تاہم اسے کبھی بھی مکمل طور پر فعال نہیں کیا گیا۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 259 افراد کے لقمہ اجل بننے کے بعد بھی شہری دفاع کے محکمے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا تاہم اب ایک بار پھر سانحہ ہوٹل ریجنٹ پلازہ کے بعد بھی محکمہ شہری دفاع کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، محکمہ شہری دفاع سندھ کے ڈائریکٹر حاجی احمد نے نمائندہ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں انکی مکمل افرادی قوت 200ہے جن میں سے فیلڈ ورکنگ میں 151افراد ہے۔

ہمارے محکمے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مذکورہ مقامات پر دفاعی آلات موجود ہیں اور درست طریقے سے کام بھی کر رہے ہیں اس حوالے سے ہم ان مقامات کو سند جاری کرتے ہیں جبکہ دفاعی تربیت بھی کرائی جاتی ہے، انھوں بے بتایا کہ مختلف اداروں کے ملازمین کو دفاعی تربیت دیے جانے کے حوالے سے رواں برس ریجنٹ پلازہ سمیت دیگر بڑے ہوٹلز، بڑے تعلیمی اداروں، اسپتالوں، پی آئی اے، سینٹرل پولیس آفس سمیت دیگر اداروں کو خطوط ارسال کیے گئے تھے جن میں سے صرف پی آئی اے کی جانب سے ہمیں جواب موصول ہوا تھا جنہیں تربیت دی جارہی ہے اسکے علاوہ کسی ادارے نے ہمارے خطوط کو اہمیت نہیں دی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دفاعی تربیت لینے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں لیتا۔

ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ ہم متعلقہ اداروں کی جانچ اور جائزہ لینے کے بعد انہیں سند جاری کرتے ہیں اور دفاعی آلات درست نہ ہونے یا مکمل نہ ہونے کی صورت میں ہم چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ سمیت دیگر متعلقہ حکام کو شکایت کرتے ہیں اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی ایسے اختیارات نہیں ہیں کہ ہم خود کسی ادارے کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کر سکیں، قانونی کارروائی کا مجاز ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹس کو ہی حاصل ہیں تاہم پچھلے کئی برسوں میں ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کسی ادارے کے خلاف ہماری کی گئی شکایات کی روشنی میں کارروائی بھی کی گئی ہو۔

انھوں نے بتایا کہ ہم نے متعدد بار بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام کو بھی اس حوالے سے خطوط ارسال کیے تھے اور کرتے رہتے ہیں کہ ہماری سند کے بغیر کسی عمارت کو این او سی جاری نہیں کی جائے لیکن اسکے باوجود شہر میں بڑی تعداد میں ایسی کثیر المنزلہ عمارتیں قائم ہورہی ہیں جن میں دفاعی نظام تو دور کی بعد ہنگامی اخراج اور وینٹیلیشن تک موجود نہیں ہے ایسی صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں ، کسی ایک ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا درست نہیں بلکہ تمام اداروں کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانی پڑے گی۔

ڈائریکٹر شہری دفاع حاجی احمد سے جب یہ معلوم کیا گیا کہ ریجنٹ پلازہ ہوٹل کو اس سال انسپکشن ٹیم نے سارٹیفیکٹ جاری کیا تھا کہ نہیں جس پر انھوں کہا کہ شاید رواں برس انھیں سرٹیفکیٹ جاری نہیں ہوا اس بات کا تصدیق شہری دفاع ساؤتھ کے ایڈیشنل کنٹرولر خورشید اور ڈپٹی کنٹرولر سہیل اعظم کرسکتے ہے۔

سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے حوالے سے نمائندہ ایکسپریس ایڈیشنل کنٹرولر خورشید کے دفتر جا کر ملاقات کی کوشش کی لیکن وہ دفتر میں موجود نہیں تھے، تاہم ایڈیشنل کنٹرولر خورشید سے جب انکے موبائل فون پر رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ شہری دفاؑع کی جانب سے ہوٹل ریجنٹ پلازہ کے عملے کو 2015 مئی کو تربیت اور دفاعی آلات چیک کرنے کے بعد انہیں سند جاری کی تھی، انھوں نے بتایا کہ رواں برس کے بارے میں علم نہیں کہ ریجنٹ پلازہ ہوٹل کو سند جاری ہوئی کہ نہیں ہوئی اس بارے میں ڈپٹی کنٹرولر سہیل اعظم ہی بتاسکے گے جب ایکسپریس نے سہیل اعظم سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے موبائل فون اٹنیڈ کرتے ہی کہا کہ میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور لائن کاٹ کر موبائل فون بند کردیا تاکہ دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کرسکے۔

ایڈیشنل کنٹرولر خورشید سے جب دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ سہیل اعظم ہی انسپکشن ٹیم کے انچارج ہے ، سہیل اعظم ہی تربیت اور انسپکشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے اختیارات رکھتے ہیں اگر وہ اپنی ذمہ داری سے لاعلمی ظاہر کررہے تو میں اس میں کچھ نہیں کرسکتا، ذرائع کا کہنا ہے کہ شہری دفاع کے کنٹرولرز اور انسپکٹر مبینہ طور پر خاص طور پر نجی اداروں سے مبینہ طورپر رشوت وصول کرتے ہے اورہر سال اسپیکشن کے نام پر مبینہ طور پر بھاری نذرانہ لیکر خاموشی اختیار کرلیتے ہے اس ہی وجہ محکمہ دفاع کا کوئی بھی افسر ہوٹل ریجنٹ پلازہ کی رواں برس انسپکشن سرٹیفکیٹ کے حوالے سے کچھ بھی بتانے سے گریز کررہے ہیں جس کی وجہ سے معاملہ پرسراریت اختیار کرگیا ہے۔

شارع فیصل ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں آتشزدگی کے دوران جاں بحق ہونے الے ڈیوٹی منیجر الیاس بابر کو عیسیٰ نگری قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ، متوفی الیاس بابر والدہ کی بیماری کے باعث حال ہی میں سوڈان سے ملازمت چھوڑ کر وطن پہنچے تھے اور20 روز قبل ہی ریجنٹ پلازہ ہوٹل بطور ڈیوٹی منیجر جوائن کیا تھا،نماز جنازہ اور تدفین کے موقع متوفی کے اہلخانہ شدت غم دے نڈھال تھے اور ایک دوسرے سے گلے لگ کر دھاڑے مار مار کر روتے رہے۔

تفصیلات کے مطابق شارع فیصل ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں آتشزدگی کے دوران جاں بحق ہونے والے ڈیوٹی منیجر الیاس بابر کی نماز جنازہ منگل کو بعد نماز عصر گلشن اقبال بلاک 13-Dمیں واقع جیلانی مسجد میں ادا کی گئی، بعد ازاں متوفی کو عیسیٰ نگری قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا ، نماز جنازہ اور تدفین کے متوفی کے اہلخانہ عزیز واقارب، دوست اور علاقہ مکینوں کے علاوہ ریجنٹ پلازہ ہوٹل کی مالکان اور انتظامیہ کے لوگ شریک ہوئے، اس موقع پر ہوٹل مالکان نے متوفی کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے، الیاس بابر کے بچوں کی کفالت کرنے کی بھی یقین دہائی کرائی، نماز جنازہ اور تدفین کے موقع متوفی کے اہلخانہ شدت غم دے نڈھال تھے، ایک دوسرے سے گلے لگ کر دھاڑے مار مار کر روتے رہے، متوفی الیاس بابر2 بچوں کے باپ اور6 بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔

متوفی الیاس بابر کے چھوٹے بھائی اعجاز نے ایکسپریس کو بتایا کہ متوفی الیاس بابر20 سال تک پی سی ہوٹل میں ملازمت کر چکے ہیں جس کے بعد وہ سوڈان چلے گئے تھے اور ایک سال 4 ماہ بعد وہ والدہ کی بیماری اور ان کی دیکھ بھال کے لیے وطن واپس آئے تھے اور 20 روز قبل ہی انھوں نے ریجنٹ پلازہ ہوٹل بطور ڈیوٹی منیجر جوائن کیا تھا انھوں نے ایک روز قبل ہی ان کی اپنے بھائی سے تفصیلی بات چیت ہوئی تھی انھوں نے بتایا کہ ان کا ایک ساتھی چھٹیوں پر گیا ہوا ہے اس وجہ سے وہ نائٹ ڈیوٹی کر رہے ہیں جسے ہی ان کا ساتھی واپس آئے گا وہ شام کی ڈیوٹی پر آجائیں گے۔

الیاس بابر کے بھائی نے بتایا کہ واقعے کے روز ان کے بھائی کی ہوٹل کے منیجر عظیم الدین سے موبائل فون پر بات چیت ہوئی تھی الیاس نے بتایا کہ ہوٹل میں آگ لگی ہوئی ہے اور فرسٹ فلور پر لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں اس لیے وہ انھیں باہر نکالنے کے لیے راستہ بنا رہے ہیں تاکہ لوگوں کی جانوں کو محفوظ کیا جا سکے انھوں نے بتایا کہ الیاس بابر کی 3 بار موبائل فون پر منیجر عظیم الدین سے بات چیت ہوئی تھی اور تیسری مرتبہ الیاس لوگوں کو بچانے کیلیے ہوٹل کی دوسری منزل پر پہنچ گئے تھے جہاں انھوں نے عظیم الدین کو بتایا کہ دوسری منزل پر بہت زیادہ دھواں ہے اور لائٹ بھی بند ہے جسکی وجہ سے انھیں راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے اور انکا دم بھی گھٹ رہا ہے اور انکی حالت خراب ہوجاتی رہی ہے لہذا انہیں گائیڈ کیا جائے کہ کیا کرنا چاہیے اور انھیں فوری طور پر اس جگہ سے نکالا جائے تاہم عظیم الدین چھٹی پر ہونے کی وجہ سے گھر پر تھے اور انہیں صورتحال کا صحیح طور پر اندازہ بھی نہیں ہورہا ہے جس کے بعد الیاس بابر کا فون بند ہوگیا۔

3فائیو اسٹار ہوٹلز کی جائزہ رپورٹ وزیر اعلیٰ کو ارسال

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی برہمی پر ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں شہری دفاع ، فائر بریگیڈ اور لیبرڈپارٹمنٹ نے ضلع جنوبی میں قائم (باقی صفحہ4۔ نمبر15 ) 3فائیو اسٹار ہوٹلز کی انسپکشن مکمل کرکے رپورٹ وزیر اعلیٰ کو ارسال کردی ،محکمہ شہری دفاع کے ایڈیشنل کنٹرولر خورشید نے ایکسپریس کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر جنوبی کی زیر نگرانی شہری دفاع، فائربریگیڈ اورلیبرڈیپارٹمنٹ کے افسران نے مووان پک، میرٹ اورپرل کانٹینٹل فائیو اسٹار ہوٹلز کا سروے کیا،سروے کے دوران دفاعی آلات اورہوٹلز کے عملے کی تربیت کا جائزہ لینے کے بعد انسپکشن سرٹیفکیٹ جاری کردیے اور رپورٹ وزیر اعلیٰ کو ارسال کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔