اخلاص اور اس کے ثمرات

پس آپ اللہ کی عبادت کیجیے اُس عبادت کو اُسی کے لیے خالص کر تے ہوئے۔‘‘ ( سورۃ الزمر: 2)


مدثر جمال January 18, 2013
وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو اُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔ فوٹو : فائل

انسانیت کی پیدائش اور اس دنیا میں آنے کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت میں جاناُس وقت پڑتی ہے جب وہ عمل '' اخلاص'' کے ساتھ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: '' (اے نبی!) کہہ دیجیے! بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا ( سب) اللہ رب العالمین کے لیے ہی ہے۔'' (الانعام: 162)

چناں چہ اخلاص تمام اعمال کی روح ہے اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو اُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔ ہر انسان کا بنیادی مطمع نظر یہی ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اس کی رضا حاصل کرے اور جنت کا داخلہ اس کو نصیب ہو۔ اس مقصد کے لیے اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا حسن معتبر ہوتا ہے نہ کہ محض کثرت ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : '' جس نے موت اور زندگی کو ( اس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔''(الملک: 2)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اعمال کے حُسن کو جانچنے کا تذکرہ کیا ہے، نہ کہ کثرت کا۔ مفسرین کرام نے اس آیت کریمہ میں لفظ '' احسنُ عملاً'' کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے وہ عمل مراد ہے جو خالص ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ اسی آیت کریمہ کے پیش نظر علماء و محققین نے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے دو شرائط ذکر کی ہیں۔۱۔ اخلاص: یعنی وہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہو اور اسی کو مطمع نظر بنا کر کیا جائے۔ ۲۔ اتباع سنت: یعنی وہ عمل قرآن و سنت کی تعلیمات کے موافق ہو اور بدعت یا کسی اور طرح سے خلاف شرع نہ ہو۔

علمائے کرام نے اخلاص کی حقیقت بیان کر تے ہوئے مختلف طریقوں سے اس کی وضاحت کی ہیتاکہ ہر پہلو سے بات مکمل ہو جائے اور کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ اطاعت میں صر ف اللہ تعالیٰ کو مقصود بنانا اخلاص ہے۔ بعض نے کہا کہ عمل اس انداز سے کرنا کہ اُس میں نہ تو مخلوق کی واہ واہ یا مذمت پیش نظر ہو اور نہ ہی خود وہ کام کرنے والا شخص اس پر اِترا رہا ہو۔ بعض کے نزدیک انسان کے اعمال میں اُس کا ظاہر و باطن باہم موافق ہو، یہ اخلاص ہے۔ بعض نے فرمایا اپنے اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہو۔

ایک حدیث مبارکہ میں خاتم النبین ﷺ نے فرمایا : '' یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے متقی، مخلوق سے مستغنی اور اخفا پسند بندے سے محبت رکھتے ہیں۔'' (مسلم)

اس حدیث مبارکہ میں تین صفات والے بندے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب قرار دیا ہے : التقی، وہ بندہ جو ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہو اور اس کی معصیت سے بچتا ہو۔ الغنی: وہ بندہ جو لوگوں کے مال و جاہ سے کوئی غرض اور کوئی حرص و مفاد وابستہ نہ رکھتا ہو، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے فقر و حاجت کا اظہار کر تا ہو، وہ مخلوق سے استغنا برتتا ہو اور اللہ کے سامنے خود کو محتاج بنا کر رکھتا ہو۔ الخفی، وہ بندہ جو اپنے نیک اعمال بھی مخلوق کے دکھاوے سے بچنے کے لیے چھپ کر کرتا ہو اور اگر کوئی گناہ صادر ہو جائے تو اس کو بھی چھپاتا ہو اور اس پر خوب توبہ و استغفار کرتا ہو، کیوں کہ اپنے گناہوں کا بندوں کے سامنے اظہار بھی شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا :'' اخلاص سے خالی عمل کرنے والے شخص سے کہہ دو کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو نہ تھکائے، کیوں کہ بغیر اخلاص کے عمل کرنے والے کی مثال اُس مسافر کی سی ہے، جو اپنے سفری سامان کی جگہ مٹی سے اپنی چادر بھر رہا ہو۔ کیوں کہ اس طرح وہ خود کو فضول کام میں تھکا رہا ہے ،جس میں اُسے کوئی نفع نہیں ہے۔ ''

امام ابن کثیر و مشقی ؒ فرماتے ہیں : تم نیت کی درستی اور اس کی حقیقت اچھی طرح سیکھ لو، کیوں کہ یہ عمل سے زیادہ طاقت ور ہے اور یہ نیت بسا اوقات انسان کو اتنی بلندی تک پہنچا دیتی ہے، جہاں تک عمل نہیں پہنچا سکتا ۔

بعض اسلاف سے منقول ہے، وہ فرماتے تھے، میرا دل یوں چاہتا ہے کہ مجھے اور کوئی مصروفیت نہ ہو تو میں لوگوں کو صرف نیت کی تعلیم دینا شروع کر دوں، کیوں کہ بہت سے لوگ اس کی حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے اپنے بڑے بڑے اعمال ضائع کر بیٹھتے ہیں۔

حضرت سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں ''ہر وہ عمل جسے میں لوگوں کے سامنے ظاہر کر بیٹھتا ہوں تو پھر میں اسے اپنے اعمال کے شمار میں نہیں لاتا، کیوں کہ ہم جیسوں سے اُس عمل کو اخلاص سے ادا کرنا اور باقی رکھنا مشکل ہے ،جسے لوگوں نے دیکھ لیا ہو۔''

اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ لوگوں کے دیکھنے کی وجہ سے عمل کو ہی ترک کر دیا جائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دکھانے کی نیت سے نیک عمل نہ کیا جائے۔ اسی طرح اگر قصد و ارادے کے باوجود لوگ آپ کو عمل کرتا دیکھ لیں یا وہ عمل لوگوں پر ظاہر ہو جائے تو یہ چیز اخلاص کے منافی نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات لوگوں کو عمل پر ابھارنے کی نیت سے اگر کوئی عمل ظاہراً کر دیا جائے تو اس میں بھی مزید اجر کی امید ہے۔ پھر یہ بات اُن اعمال کے لیے ہے جو اخفا کے ساتھ کرنا افضل ہیں، ورنہ جو اعمال ہیں ہی ایسے کہ وہ اجتماعی شکل میں کیے جاتے ہیں تو اُن کو چھپا کر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مثلاً نماز با جماعت ادا کرنا، جہاد کرنا اور تعلیم و تدریس وغیرہ۔

اب ہم اُن اعمال کے بارے میں جنہیں انسان بکثرت بجا لاتا ہے، اخلاص کی کچھ مثالیں بیان کر تے ہیں۔ اولاً تو اپنے ہر نیک عمل میں اپنی نیت کو ٹٹولا جائے اور دیکھا جائے کہ آیا میں وہ عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں یا کوئی اور فاسد غرض اس کا محرک ہے؟ یوں سب سے پہلے اپنی نیت میں اخلاص پیدا کیا جائے۔

وضو میں اخلاص
وضو ایک ایسا عمل ہے جس سے عمومی طور پر انسان کو پانچ وقت کی نمازوں میں واسطہ پڑتا ہے، اب وہ عمل پورے اخلاص اور اس بات کو ذہن میں حاضر رکھ کر کیا جائے کہ یہ عمل میرے لیے اجر و ثواب کا باعث ہے اور میں اسے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں ۔ اسی طرح اذان کا جواب دینے میں اخلاص، نماز میں اخلاص، روزوں میں اخلاص، زکوۃ و صدقات میں اخلاص، توبہ میں اخلاص، اللہ تعالیٰ کی خشیت سے رونے اور گریہ زاری کرنے میں اخلاص، باپردہ عورت کے لیے پردہ کرنے میں اخلاص، یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اتباع شریعت کی نیت کرنا ضروری ہے، ورنہ تو وہ محض ایک معاشرتی رسم بن کر رہ جائے گی۔ اس حوالے سے بعض احادیث کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ مثلاً صدقات کے بارے میں ارشاد فرمایا: '' وہ اشخاص جن کو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے کا اعزاز عطا فرمائیں گے اُن میں ایک وہ آدمی ہوگا جس نے صدقہ اس خفیہ انداز سے کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔'' اسی طرح حدیث مبارکہ میں اُس شخص کا تذکرہ بھی ہے جس نے تنہائی میں اللہ کا ذکر کیا اور اس کے خوف و خشیت سے وہ گریہ و زاری کرنے لگا تو اُسے بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ (بخاری شریف)

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مسند میں حضرت انس بن مالک ؓ کی روایت سے یہ حدیث منقول ہے کہ'' جس شخص نے '' لا الہ الااللہ'' اخلاص قلب سے کہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ( المناقب للکردری) الغرض اس موضوع پر بہت سی احادیث ہیں، ان کا خلاصہ دیکھنا ہو تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو پیش نظر رکھنا چاہیے: ''( اے نبی!) ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے۔ پس آپ اللہ کی عبادت کیجیے اُس عبادت کو اُسی کے لیے خالص کر تے ہوئے۔'' ( سورۃ الزمر: 2)

قرآن و سنت میں اخلاص سے کی گئی عبادات اور نیک اعمال پر بہت ہی عمدہ اور دنیا و آخرت میں مفید ثمرات و فوائد کی خوش خبری دی گئی ہے، چند فوائد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
٭ آخرت میں مخلصین کو بلند درجات نصیب ہوں گے ۔
٭ دنیا میں مخلصین کو گم راہی سے بچالیا جاتا ہے۔
٭ مخلص عبادت گزار کے نورِ ہدایت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کا ظاہر و باطن نورِ ہدایت سے روشن ہو جاتا ہے۔
٭ زمین و آسمان کی مخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُس بندے سے محبت کرتی ہے۔
٭ دنیا وی مصائب میں اُن کے لیے آسانی کی راہ پیدا کر دی جاتی ہے۔
٭ دل کو اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔
٭ مخلصین کو پاکیزہ صحبت میسر آتی ہے۔
٭ مصائب دنیوی جس قدر بھی شدید ہو جائیں، اُن کو صبر کی توفیق مل جاتی ہے۔
٭ قبر کی تنہائی اور وحشت میں اُس کو اُنسیت اور انعامات ربانی سے سرور و فرحت پہنچتی ہے۔
٭ اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یوں وہ مستجاب الدعوات بن کر اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاص کی حقیقت اور اس کا نور نصیب فرمائے، ہمیں اپنے مخلص بندوں کی جماعت میں شامل فرمائے اور اپنی رضا والی موت نصیب فرمائے ۔ آمین

مقبول خبریں