موہنجوڈرو کبھی ایسا بھی ہوا کرتا تھا۔۔۔

نور پامیری  جمعرات 11 مئ 2017
کیا بکواس کر رہے ہیں آپ؟ موہن جو ڈرو کو تباہ ہوئے پانچ ہزار برس گزر گئے۔ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے غصے سے پوچھا۔

کیا بکواس کر رہے ہیں آپ؟ موہن جو ڈرو کو تباہ ہوئے پانچ ہزار برس گزر گئے۔ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے غصے سے پوچھا۔

کمرہ اتنا چھوٹا اور تنگ تھا کہ گھستے ہی بے اختیار زبان پر مشہور و معروف مصرعہ آگیا کہ ’پاوں پھیلاؤ تو دیوار سے سر لگتا ہے۔‘ سوچنے کا وقت نہیں تھا، سوٹ کیس زمین پر پھینک دیا، کپڑے تبدیل کئے، اے سی کی کولنگ بڑھائی اور بیڈ پر کود پڑا۔ دن بھر کی تھکن کی وجہ سے جلد ہی نیند آگئی۔

آنکھ کھلی تو کمرے میں دھیمی سی روشنی تھی، بیڈ کے قریب ہی میز لگا ہوا تھا، جس پر لیمپ روشن تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ میز کے ساتھ رکھی کرسی پر ایک ہیولا سا بیٹھا ہوا ہے۔ پہلے تو مجھے لگا کہ نظروں کا دھوکہ ہے، مگر تھوڑی دیر کے بعد ہیولے میں حرکت سی پیدا ہوئی تو میری چیخ نکل گئی۔ میں نے کہا کہ یہ بندہ کمرے میں کیسے گھس آیا؟ دروازہ تو میں نے بند کردیا تھا۔ یہ جن بھوت تو نہیں ہے؟ روشنی کی رفتار سے سوالات ذہن میں اُبھرے۔ چیخ ابھی بند نہیں ہوئی تھی کہ ہیولا کھڑا ہوگیا۔ ٹانگیں اور جسم کا اوپری حصہ برہنہ تھا۔ کاندھے پر اجرک بالکل اسی طرح رکھی تھی جیسے حج اور عمرہ کے لئے جانے والے احرام باندھتے ہیں۔ ایک کاندھا بھی کُھلا تھا، عمر رسیدہ شخص تھا، سر پر بال بھی بہت کم تھے، چہرے پر ایک ملائم سی مسکراہٹ تھی۔ وہ جن تو کسی طور نہیں لگ رہا تھا۔

کمرے میں کیسے گھسے آپ؟ کیوں آئے ہیں؟ کون ہیں آپ؟ میں نے ہذیانی عالم میں پوچھا۔

میں پریسٹ کنگ ہوں، موہن جو ڈرو کا، اُس نے مسکرا کر کہا۔

کیا بکواس کر رہے ہیں آپ؟ موہن جو ڈرو کو تباہ ہوئے پانچ ہزار برس گزر گئے۔ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے غصے سے پوچھا۔

سائیں! میں جھوٹ نہیں بولتا، میں پریسٹ کنگ ہوں۔ آپ نے آج جو بُت خریدا، اُس میں شامل ذرات میں میری روح بھی موجود تھی۔ آپ مجھے وہاں سے نکال کر یہاں لے آئے ہیں۔ ہیولے نے اُسی  پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

اِن سب باتوں سے میں بے وقوف نہیں بنوں گا۔ فضول باتیں چھوڑو اور مجھے بتاؤ کہ روم میں کیا کر رہے ہو؟ یہ کہہ کر میں نے ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں میرا ڈیجیٹل کیمرہ پڑا تھا۔

آپ مجھے موہن جو ڈرو سے اُٹھا کر لائے ہیں۔ مجھے واپس لے جائیں اور وہی رکھ دیں، اُس نے کہا۔

میں نے ایک لمحے کے لئے مورتی کی طرف دیکھا، جو میز میں ابھی تک اخباری کاغذ میں لپٹا پڑا تھا۔

یار کیوں دماغ خراب کر رہے ہو؟ وہاں دن میں ایسی سینکڑوں مورتیاں بِکتی ہیں۔ میں نے تُنک کر جواب دیا۔ ایسی باتوں پر کون یقین کرتا ہے؟

آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، سینکڑوں مورتیاں بِکتی ہیں، لیکن جو مورتی آپ اُٹھا کر لے آئے ہیں اِس کی مٹی موہن جو ڈرو میں موجود عبادت گاہ سے اُٹھائی گئی ہے۔ اِس لئے یہ مورتی خاص ہے اور اِس لئے میں یہاں ہوں۔ خود ساختہ پریسٹ کنگ نے جواب دیا۔

میں نے بیزاری کے عالم میں کہا کہ ایسی باتیں اِس دور میں نہیں چلتی ہیں۔ سائنس بہت آگے نکل گئی ہے۔ لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کسی پانچ ہزار سالہ قدیم شخص کا روپ دھارنا احمقانہ حرکت ہے۔

وہ ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ کرسی پر دوبارہ بیٹھ کر مجھے دیکھنے لگا۔

میں نے کہا کہ میں بہت تھک چکا ہوں۔ لاڑکانہ سے حیدرآباد تک سفر کرنا تھکا دینے والا تجربہ ہے۔ میں نے التجائی انداز میں ہیولے سے اپیل کی کہ وہ کمرے سے نکل جائے لیکن وہ ڈٹا رہا۔

میں کیسے لے جاؤں گا یار تمہیں لاڑکانہ؟ آفس کی گاڑی ہے، اپنی نہیں ہے۔ میں نہیں جاسکتا سات گھنٹے کے سفر پر ایک بار پھر، میں نے زور دے کر کہا۔

لیکن وہ نہیں مانا۔ میں نے کپڑے پہنے، اُسے تیار ہونے کا کہا۔ مورتی لی اور کمرہ بند کرکے ہوٹل کی پارکنگ تک چلا گیا۔ اِس شخص کو سیکیورٹی کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ ڈرائیور خوش قسمتی سے پارکنگ میں ہی تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے بازار تک جانا ہے اگر وہ نہیں آسکتا تو مجھے چابی دے۔ وہ تھکا ہوا تھا، چابی میرے حوالے کردی۔ میں نے سرگوشی کے انداز میں اُسے بتایا کہ اِس بندے نے تنگ کیا ہوا ہے۔ کمرے میں گھسا ہوا تھا، اِسے پولیس کے حوالے کروں گا۔

ڈرائیور عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ کون سا شخص سر؟ اُس نے پوچھا۔ میں نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا تو وہ مزید حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔

مخمصے سے نکلنے کے لئے میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور باہر کی طرف روانہ ہوگیا۔ رات کے اِس پہر ٹریفک بہت کم تھی۔ تین چار منٹ چلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ ہیولا گاڑی کی پچھلی سیٹ پر براجماں مسکرا رہا ہے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

تم گاڑی میں کب بیٹھ گئے؟

وہ خاموش رہا۔

میں نے کہا لاڑکانہ بہت دور ہے۔ نہیں چلا سکوں گا، پیٹرول نہیں ہے، راستہ خراب ہے۔ وغیرہ وغیرہ

اُس کی خاموشی نہ ٹوٹی۔

بلا سوچے سمجھے میں لاڑکانہ کی طرف روانہ ہوگیا، کیونکہ جس انداز میں یہ شخص کمرے میں داخل ہوا تھا یا کار میں بیٹھا تھا، مجھے اُس کے انسان ہونے پر شک ہونے لگا تھا۔

لمبا سفر ہے۔ آپ آکر آگے بیٹھ جائیں، میں نے پیچھے دیکھے بغیر کہا۔ اگلے ہی لمحے پِریسٹ کنگ میرے بائیں جانب فرنٹ سیٹ پر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔

اپنے بارے میں مزید بتائیں مجھے، آپ کتنے عرصے سے موہن جو ڈرو کی خاک میں قید تھے؟ میں نے پوچھا۔

میں قید نہیں ہوں، روح کو قید نہیں کیا جاسکتا، جواب ملا۔

اگر آپ ایک روح ہیں تو آپ کو گاڑی میں واپس جانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ اُڑ کر کیوں نہیں جاتے؟ یہ گاڑیاں وغیرہ تو ہم جیسے خاکی بندوں کے لئے ہیں، میں نے طنزیہ جملہ گھسیٹ کر مارا۔

مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، میں تمہیں موہن جو ڈرو ایک بار پھر دکھانا چاہتا ہوں۔ اِس لئے تمہیں لے جارہا ہوں، اُس نے کہا۔

لیکن میں تو دو دفعہ موہن جو ڈرو جاچکا ہوں، میں نے دیکھ لی ہے وہ جگہ۔ اب دوبارہ نہیں دیکھنا مجھے، میں نے کہا اور اپنا موبائل نکالنے لگا۔ موبائل نکال کر میں نے اُسے تصویریں دکھائیں جن میں موہن جو ڈرو پر سورج غروب ہورہا تھا اور میں ہاتھ پھیلائے معبد کے سامنے موجود تھا۔ میں ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میں موہن جو ڈرو دیکھ چکا ہوں۔ دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اُس نے تصویریں دیکھیں اور مجھے گاڑی چلاتے رہنے کا حکم دیا۔

اِس کے بعد گاڑی میں خاموشی چھائی رہی۔ 6 گھنٹے بعد ہم لاڑکانہ میں داخل ہوئے اور موہن جو ڈرو کی جانب چل پڑے۔ میوزیم کے سامنے پارکنگ ایریا میں گاڑی روکی، پو پھٹنے میں شاید ایک گھنٹہ رہتا تھا۔

پریسٹ کنگ گاڑی سے اُترا اور تیزی سے موہن جو ڈرو کے کھنڈرات کی طرف چل پڑا۔ میں چھوٹی سی مورتی ہاتھ میں لئے پیچھے چل پڑا۔ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد پریسٹ کنگ گول معبد کے سامنے آکر رک گیا۔ دیوار میں ایک روزن سا بنا ہوا تھا۔ پریسٹ کنگ نے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور روزن میں دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد مجھے بھی دیکھنے کی دعوت دی اور خود پیچھے ہٹ گیا۔

میں نے روزن میں دیکھا تو گویا ایک فلم سی چل رہی تھی۔ میرے سامنے ایک عظیم الشان قدیم شہر تھا۔ بیل گاڑیوں اور گھوڑوں کے چلنے سے اُٹھتی گرد تھی۔ گھروں کی چھتوں پر پھول اُگائے گئے تھے۔ نکاسیِ آب کا شاندار نظام تھا۔ گلیاں صاف و شفاف اور سیدھی تھیں۔ جا بجا کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لئے مخصوص جگہ بنائی گئی تھی۔

شہر میں ہزاروں گھر تھے۔ گھروں کی ساخت ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ کچھ گھر بڑے تھے اور آرائش و زیبائش سے امراء کے گھر لگ رہے تھے۔ ایک طرف چھوٹے گھر تھے، جن میں مزدور اور محنت کش طبقات تھے۔ ہم شہر کی سب سے اونچی جگہ پر کھڑے تھے، جہاں سے پورا شہر نظر آتا تھا۔

غالباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر لشکارے مارتا دریائے سندھ رواں تھا۔ دریا میں کشتیوں پر مچھیرے گا رہے تھے اور مچھلیوں کا شکار کررہے تھے۔ بعض مقامات پر بڑی کشتیوں سے اجناس سے بھرے مٹکے اُتارے جارہے تھے۔ ایک شخص مٹکوں پر لگی مہریں دیکھ کر سامان کی تصدیق کر رہا تھا۔

ایک گھر کی چھت پر کچھ بچے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، بیل گاڑی کی شکل کے کھلونے مٹی کے بنے ہوئے تھے، پاس بیٹھی عورت کے گلے میں سیپیوں اور موتیوں کا ہار جگمگا رہا تھا۔ بعض عورتوں کے گلوں میں سُرخ مٹی سے بنے ہوئے ہار تھے۔

شہر کے ایک چوراہے میں فوارہ سا بنا ہوا تھا، جس کے گِرد لوگوں کا ایک جھمگٹا لگا تھا۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی اسٹیج پر ایک خوبصورت رقاصہ کھڑی محوِ رقص تھی۔ لوگ رقص دیکھ رہے تھے اور رقاصہ کے بے نقص حُسن اور دل رُبا اداؤں کو داد دے رہے تھے۔

شہر بہت بڑا تھا اور ہر طرف کوئی نہ کوئی دلچسپ سرگرمی جاری تھی۔ ہر طرف چہل پہل تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ شہرِ طلسم ہے، جہاں غم اور فکر نہیں، پریشانی نہیں، میں دیکھتا گیا۔ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔

کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ میں نے روزن سے نظریں ہٹالیں۔ پریسٹ کنگ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

آپ تو سائیں بالکل کھو گئے ہیں موہن جو ڈرو میں، اُس نے کہا، اور میں احمقوں کی طرح دانت نکال کر مسکرانے لگا۔

جی سائیں! شاندار شہر ہے، میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی سندھی میں جواب دیتے ہوئے شہر کی تعریف کی۔

’ہزاروں سال پہلے بہت یہ شہر خوبصورت تھا سائیں، لیکن ہر خوبصورت شے کی طرح اِس کا حُسن بھی دائمی نہیں۔ سندھو دریا دھیرے دھیرے رخ بدل کر دور چلا گیا۔ کشتیاں دور رُکنے لگیں، کاروبار کم ہوگیا اور پھر نہ جانے کب یہ ویران ہوگیا،‘ پریسٹ کنگ بولا۔

مجھے واپس جانا ہے اب۔ آپ اور آپ کی مورتی یہاں پہنچ گئے ہیں، میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔

اچھا، تھوڑی دیر اِس کمرے میں آرام کرلو سائیں، پریسٹ کنگ نے صلاح دی۔ میں بھی تھکا ہوا تھا، لیٹ گیا اور لیٹتے ہی سوگیا۔

تھوڑی دیر بعد دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ نیند کا غلبہ سخت تھا۔ دستک کی آوازیں کان میں پڑ رہی تھیں، لیکن آنکھ نہیں کھول پا رہا تھا۔

دستک تیز ہوگئی تو میں چونک کر اُٹھ گیا۔

کمرے میں دھیمی سی روشنی تھی۔ پریسٹ کنگ اور رقاصہ کی مورتیاں ٹیبل پر پڑی تھیں۔

سر اُٹھ جائیں۔ کھانے کا وقت ہوگیا ہے، آپ کے ساتھی انتظار کر رہے ہیں۔ کسی نے آواز دی۔

میں مسکرا کر کھڑا ہوگیا۔ پریسٹ کنگ سے ملاقات ہوگئی تھی، کاش خواب جلدی ختم نہ ہوتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کےساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

نور پامیری

نور پامیری

مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ایک بین الاقومی غیر سرکاری ادارے میں کمیونیکیش ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ سے ٹوئٹر @noorpamiri پر کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔