منشور پر عملدرآمد کی ضمانت

الیکشن اب تھوڑے سے فاصلے پر رہ گئے ہیں


Zaheer Akhter Bedari May 11, 2017
[email protected]

الیکشن اب تھوڑے سے فاصلے پر رہ گئے ہیں، نئے اور پرانے فرشتے اپنی گپھاؤں سے کروڑوں بلکہ اربوں کے سرمائے کے ساتھ باہر نکل آئے ہیں اور جہنم کی زندگی گزارنے والوں کو جنت کی سیر کروا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ 70 سال سے جاری ہے، عوام ہر پانچ سال بعد جھوٹے وعدوں پر اس لیے گزارا کرتے آ رہے ہیں کہ اس ملک میں سچ کا قحط ہے، جب عوام کے پاس جھوٹ کا کوئی متبادل نہیں ہوتا تو وہ جھوٹ کے نہ صرف عادی ہو جاتے ہیں بلکہ جھوٹ پر قناعت کرنے پر مجبور بھی ہو جاتے ہیں۔ کسی ایک جماعت سے جھوٹے وعدوں کی شکایت نہیں، یہاں تو پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہر جماعت عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے، اگر مسائل ہی حل نہ ہوتے ہوں تو بے چارے سیاستدانوں کا کیا قصور؟

حکومت پچھلے چار سال سے سڑکیں، پل، اوورہیڈ برج، انڈرپاس، موٹروے، اورنج لائن، گرین لائن بنانے میں دن رات ایک کر رہی ہے لیکن ہماری اپوزیشن ہے کہ گو نواز گو کے نعروں سے اس کی کارکردگی میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہی ہے۔

حکومت نے اقتصادی راہداری کے معاہدے کی شکل میں ایک وننگ چھکا لگایا تھا لیکن احسان فراموش اپوزیشن اس میں بھی سو چھید نکال رہی ہے، اس پر قیامت یہ کہ ایک نہیں دو دو لیکس ہاتھ میں ننگی تلواریں لیے حکومت کے سامنے کھڑے ہیں اور اپوزیشن ایک ایک ہاتھ میں ایک ایک لیکس تھامے حکومت کے سامنے بھنگڑا ڈال رہی ہے۔ حکومت بے چاری جو ''خاموشی سے ترقیاتی کام'' کرنا چاہتی ہے، ان بھنگڑوں کے بے ہنگم شور و غوغا سے پریشان ہے۔ مخالفین حیرت سے پتھر ہو رہے ہیں کہ کوئی لیکس، کوئی آف شور حکومت کا کچھ بگاڑ نہیں پا رہے ہیں۔ اپوزیشن کی اس سادگی پر ''کون نہ مر جائے اے خدا'' کہنے کو دل چاہتا ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت میں جھوٹے وعدے جمہوری اخلاق کا حصہ ہوتے ہیں۔ پچھلے 70 سال سے پاکستانی عوام کا گزارا سیاست کاروں کے جھوٹے وعدوں پر ہی ہو رہا ہے، ہر پانچ سال بعد جھوٹے وعدوں کا سیزن آتا ہے، عوام جانتے بوجھتے جھوٹے وعدوں کی سچی مکھی نگلتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ اس لیے جاری ہے کہ جھوٹوں کی اس بستی میں سچ کا گزر ہی نہیں ہوتا۔ ہر اپوزیشن رہنما برسر اقتدار طبقے کو ان کے جھوٹے وعدوں پر تبریٰ بھیجتا ہے، لیکن جب یہ تبریٰ بھیجنے والے خود برسر اقتدار آتے ہیں تو پچھلوں سے زیادہ جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔

ایک جھوٹ کم علمی اور نادانستگی کا ہوتا ہے، مثلاً کلیسائی دور میں کلیسائی اکابرین فرماتے تھے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، یہ جھوٹ کم علمی اور نادانستگی پر مبنی تھا لیکن ہماری کلیسائی سیاست کے پوپ اور پادری سچ جانتے ہوئے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور دھڑلے سے بولتے ہیں، کیونکہ اس چالو جمہوریت میں جھوٹ سیاسی محور کی طرح کام کرتا ہے۔

پاناما لیکس جیسے درجنوں اسکینڈل ہماری سیاست کے اسٹور میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ پاناما اسکینڈل اس لیے عوامی ہوگیا کہ میڈیا نے اسے عوامی بنادیا۔ پاناما اسکینڈل کی مشہوری کے بعد عوام کی بھاری اکثریت کا اعتماد اہل سیاست پر سے اٹھ گیا ہے، لیکن ہمارے ملک کے نظام میں انصاف چونکہ قانون اور آئین کے مطابق ہوتا ہے لہٰذا عوام کے فیصلے ردی کی نذر ہوتے ہیں۔ سوئس کیس ہو یا پاناما اسکینڈل، سب ہمارے سیاستدانوں کی میراث ہیں۔ اس حوالے سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے لکھاریوں کا ایک حصہ اس اشرافیائی جمہوریت کو قومی زندگی کا ناگزیر حصہ سمجھتا ہے، حالانکہ یہ دوست پورے جمہوری دور میں سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں سے پوری طرح واقف ہیں، لیکن۔۔۔۔۔!

جمہوریت کا بیانیہ سیاسی جماعتوں کا منشور ہوتا ہے اور ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام سیاسی جماعتوں کے منشور سے واقف ہی نہیں۔ کیونکہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو عوام تک پہنچاتی ہی نہیں۔ انتخابی نعروں کو ہی پارٹی منشور گردانتی ہیں۔ مثلاً 60 کی دہائی میں یعنی لگ بھگ 50 سال پہلے پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا اور اسی نعرے کو منشور کے طور پر متعارف کرایا۔ یہ نعرہ اب تک زندہ ہے کیونکہ عوام اب تک روٹی کپڑا اور مکان کے پیچھے ہی بھاگ رہے ہیں۔ اور اس منشور سے اس وقت تک کام لیا جاسکتا ہے جب تک عوام روٹی کپڑا اور مکان کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔

اہل سیاست ہوسکتا ہے اپنے منشور اور انتخابی وعدوں میں مخلص ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو اپنے منشور اور انتخابی وعدوں کو پورا کرنے پر کس طرح مجبور کیا جائے؟ ہمارا خیال ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے منشور کی ایک کاپی سپریم کورٹ میں جمع کروائیں اور اس کے ساتھ یہ تفصیل بھی مہیا کریں کہ وہ اپنے منشور پر عملدرآمد کتنی مدت میں کریں گے؟

سپریم کورٹ اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائے جو برسر اقتدار جماعت کے منشور پر عملدرآمد کا جائزہ لیتی رہے اگر اس طرح کا کوئی بندو بست نہ ہو تو سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر عملدرآمد سے اسی طرح آزاد رہیں گی جس طرح وہ 70 سال سے آزاد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کے ٹاک شوز اور اخبارات کی خبروں اور تجزیوں کا جائزہ لیں اور اپنا ووٹ کاسٹ کرتے وقت ایماندار اور بے ایمان اور بدنام سیاستدانوں کے فرق کو سمجھیں اور اسی کی روشنی میں اپنا ووٹ دیں۔

مقبول خبریں