پاکستان؛ یو این پیس آپریشنز کیلئے افرادی قوت مہیا کرنے والا تیسرا بڑا ملک

محمد عاطف شیخ  اتوار 21 مئ 2017
شہادتیں دینے میں بھی پاک فوج تیسرے نمبر پر ہے‘ ایک لاکھ 69 ہزار پاکستانی امن کیلئے خدمات ادا کر چکے۔ فوٹو : فائل

شہادتیں دینے میں بھی پاک فوج تیسرے نمبر پر ہے‘ ایک لاکھ 69 ہزار پاکستانی امن کیلئے خدمات ادا کر چکے۔ فوٹو : فائل

انسانی جھگڑوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے انسان کی خود۔ ہابیل اور قابیل سے آغاز ہونے والے اس عمل نے انسانی تاریخ کے ہر دور میں اپنا وجود برقرار رکھاہے۔

دو انسانوں کے درمیان اختلافات، دو قبائل اور دو ممالک کے درمیان رنجش امن اور بھائی چارہ کی راہ میںہمیشہ سے حائل رہے ہیں۔ ان ہی جھگڑوں اور رنجشوں کے تصفیہ کیلئے کبھی انسانوں نے کسی کو منصف مقرر کیا تو کبھی قبائلی جرگوں کا اہتمام کیا۔

کبھی سفارتی وفود کے ذریعے قیام امن کی کوششیں کیں تو کبھی کسی غیر جانبدار فریق کے ذریعے مصالحتی کو ششوں کو آگے بڑھایا۔ غرض باہمی کدورتوں کے خاتمے کیلئے ہمیشہ سے انسان نے کسی تیسرے فریق کا استعمال کیاہے۔جو غیر جانبداری سے دونوں فریقین کے مابین صلح کے عمل کا آغاز کرے۔ قیام امن کے لئے دونوں فریقین کی کو ششوں کی نگرانی کرے اور حق دار کو اُس کا حق دلانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔

اسی ضرورت اور سوچ نے جنگ عظیم اول کے وقت شدت اختیار کی جب دنیا میں جنگ کی ہولناکیوں نے انسانی وجودوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواتھا۔ اور دنیا میں ایک ایسے ادارے کی ضرورت کو محسوس کی جانے لگا جو ممالک اور اقوام کے درمیان اختلافات کے حل کیلئے غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے اور ایک نگران کی حیثیت میں باہمی امن کو فروغ دے۔

اس خیال نے 1919 میں لیگ آف نیشن کی بنیاد ڈالی لیکن یہ تنظیم اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہ کر سکی اور باہمی اختلافات کے حل کی بجائے خود اختلافات کا شکار ہو کر ٹوٹ گئی۔جس کے بعد دنیا ایک بحرانی کیفیت کا شکار رہی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کا ریوں نے جلد ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جب جنگ کے شعلے ماند پڑنا شروع ہوئے تو دنیا بھر میں اس بات کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ جنگ اور تنازعات سے صرف اور صرف انسانی، معاشرتی ،معاشی اور ماحولیاتی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ تو 1945 میں اقوام متحدہ کے نام سے ایک کثیر التعداد ( ممالک کی رکنیت کے حوالے سے) اور وسیع المقاصد بین الاقوامی آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا۔

جس نے سماجی، معاشی اورماحولیاتی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ تنازعات، جنگوں کی روک تھام اور باہمی اختلافات کے حل کیلئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت سے کام شروع کیا اور دنیا کے متنازعہ معاملات اور شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کی بحالی کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے پہلا پیس کیپنگ مشن 1948 میں عرب اسرائیل کی عارضی جنگ بندی(UNTSO – UN Truce Supervision Organization) پر نظر رکھنے کے لئے تعینات کیا۔اور اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور آج تک اقوام متحدہ کی زیر نگرانی71پیس آپریشنز ہو چکے ہیں اور 16ابھی جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کے زیر انتظام امن کے ان آپریشنز کے لئے 31 مارچ 2017 تک ایک لاکھ 13 ہزار 3 سو 94 پیس کیپرز دنیا کے مختلف خطوں میں تعینات ہیں جن میں سے11944سویلین پولیس اہلکار،1821 اقوام متحدہ کے فوجی مبصر(Military Observers) ، 82 ہزار 7سو 12 فوجی(Troops)، 5062بین الاقوامی سویلین، 10278 مقامی سویلین اور1577 اقوام متحدہ کے رضا کاراپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ان اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کر نے کیلئے جو اپنی زندگی دوسروں کے لئے خطرے میں ڈال کر ان شورش زدہ علاقوں میں امن کے قیام اور اس کی بحالی کیلئے دن رات سرگرداں ہیں۔

29 مئی کو پوری دنیا میں اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کے آغاز کا فیصلہ 2002 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے کیا گیا اور29 مئی 2003 کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کا پہلابین الاقوامی دن منا یا گیا۔اس دن کے لئے 29 مئی کے روزکا انتخاب اقوام متحدہ کے پہلے پیس کیپنگ مشن ( جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے) کے آغاز کی تاریخ پر کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ آپریشنزکے تحت تصادم اور تنازعات کے شکار علاقوں میں امن کی بحالی اور اس کے تحفظ کیلئے سفارتی، سیاسی اور کسی حد تک نیم فوجی امداد مہیا کی جاتی ہے۔لیکن یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کے تحت ہیں۔یہ وہ روایتی طریقہ کار ہے جو اقوام متحدہ کے امن مشن کے بارے میں موجود تھا۔ لیکن 1990 کے عشرے کے اوائل میںاقوام متحدہ کے کچھ پیس آپریشنز کے روایتی طریقہ کار میں چند ایک نئی چیزیں متعارف ہوئیں جن میں الیکشن کی نگرانی، انسانی حقوق کی نگرانی، پولیس کی تربیت اور سول انتظامیہ کی نگرانی وغیرہ جیسے امور بھی شامل تھے۔

اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ آپریشن میں صرف اور صرف فوجی ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ سویلین لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو فوجی مبصر مشن میں کام کرتے ہیں تقریباً غیر مسلح ہوتے ہیں اور جو امن فوج میں شامل ہوتے ہیںان کے پاس ہلکا اسلحہ ہوتا ہے لیکن وہ اس کے استعمال نہ کرنے کے پابند ہوتے ہیں تا وقت کی ان کی اپنی جا نوں کو خطرہ نہ ہو۔

ماہرین کے مطابق پیس کیپنگ بہت ذہنی تناؤ کا کام ہے اور پیس کیپرز میں ذہنی مسائل کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ماضی میں پیس کیپنگ میں نشہ آور چیزوں اور ادویات کا استعمال بھی زیادہ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کے خلاف تشدد کے واقعات سے ان کی اموات کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف پیس کیپنگ آپریشنز کے مطابق دنیا میں1948 سے31مارچ 2017 تک3553پیس کیپرز اپنے فرائض کی انجام دہی میں جاںبحق ہوئے۔1993 کے سال میںسب سے زیادہ پیس کیپرز کی اموات واقع ہوئیں جن کی تعداد 252 تھی۔اسی طرح پاکستان سے تعلق رکھنے والے 140 پیس کیپرز دنیا کے مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے شہید ہوئے۔

ماضی میں اقوام متحدہ کے امن آپریشنزکے بنیادی ارکان میں کنیڈا، سویڈن، آئرلینڈ، فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک، انڈیا، اٹلی اور آسٹریلیا تھے جبکہ کینڈا سب سے زیادہ رقم اور افرادی قوت قیام امن کیلئے اقوام متحدہ کے امن آپریشنزکے واسطہ مہیا کرتا تھا۔ لیکن ماضی قریب سے صورتحال میں تبدیلی واقعہ ہوئی ہے اور اب ایتھوپیا، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، رونڈا، نیپال، برکینا فاسو، مصر، سنیگال اور گھانا جیسے ممالک قیام امن کی کوششوں کیلئے زیادہ افرادی قوت (ملٹری اور پولیس) کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ان ممالک کی شرکت سے غیر جانبداری کا طرز عمل نمایاں ہوا ہے جس سے قیام امن کی کوششوں کو زیادہ تقویت حاصل ہورہی ہے۔ بانسبت ایسے ممالک کے جن کا کردار قیام امن کے لئے متنازعہ ہے جو ایک طرف تو امن کے قیام کی باتیں کر تے ہیں اور دوسری طرف اس کو تہہ و بالا بھی کرتے ہیں۔

پاکستان جس پر مغربی ذرائع ابلاغ نام نہاد الزامات کی ایک طویل فہرست کے ساتھ اس کے تشخص کو متاثر کرنے کے لئے متحرک رہتا ہے۔لیکن ان پہلوؤں کو وہ قصدہً فراموش کر دیتا ہے کہ اس وقت پاکستان اقوام متحدہ کے دنیا بھر میں جاری پیس آپریشنز کے لئے پیس کیپرز کی تیسری بڑی تعداد مہیا کرنے والا ملک ہے اور پاکستان ہی دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کے پیس آپریشنز کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

اس وقت دنیا کے124 ممالک سے تعلق رکھنے والی اقوام متحدہ کی پیس کیپنگ فورس( فوجی، سویلین پولیس اور فوجی مبصر) کے7.29 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔اور31 مارچ2017 تک وطن عزیز کے 7 ہزار ایک سو 32 پیس کیپرز اقوام متحدہ کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ جس میں 278 سویلین پولیس اہلکار، 98 ملٹری آبزرور اور6 ہزار7 سو 56 امن فوجیوں کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان نے1960 میں کانگو میں اپنا پہلا امن دستہ بھیجا تب سے اب تک وہ دنیا کے23 ممالک میں اقوام متحدہ کے42 پیس آپریشنز میں شرکت کر چکا ہے جن کے لئے وطن عزیزاپنے ایک لاکھ 69 ہزار سے زائد پیس کیپرز کی خدمات مہیا کر چکا ہے۔

پاکستان آج بھی اقوام متحدہ کے 8 پیس آپریشنز میں شامل ہے۔ یعنی اس وقت اقوام متحدہ کے آدھے آپریشنز میں پاکستان اپنی افرادی قوت کے ساتھ شریک ہے۔جوکہ ملک کی مدبرانہ سوچ کی واضح عکاسی کرتا ہے۔اور عالمی امن میں پاکستان کی مثبت شرکت کی دلیل ہے۔

اس کے برعکس امریکہ اور برطانیہ جو کہ آج دنیا بھر میں قیام امن کے چمپئن بننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے صرف 503افراد اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ آپریشنز میں شامل ہیں جو کہ مجموعی عالمی پیس کیپرز کی تعداد کا محض عشاریہ51  (0.51)فیصد ہے جبکہ اگر ہم سلامتی کونسل کے مستقل ارکان سے تعلق رکھنے والے پیس کیپرز کی تعداد دیکھیں تو وہ صرف4008ہے جوکے عالمی مجموعی تعداد کا ( فوجی، سویلین پولیس اور فوجی مبصر) محض4.09فیصد ہے۔

اس کے علاوہ اگر ہم جنوب ایشیائی ممالک کا عالمی امن کے قیام میں پیس کیپرز کی تعداد کے حوالے سے شرکت کا جائزہ لیں تو خطہ کے6ممالک بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش، نیپال،سری لنکا اور بھوٹان سے تعلق رکنے والے پیس کیپرز دنیا میں متعین پیس کیپرز کے.11 28 فیصدحصہ پرمشتمل ہیں۔

27 ہزار4 سو 94 افراد پر مشتمل جنوب ایشیا کے ان پیس کیپرز کے 26 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ سارک ممالک سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے پیس کیپرز دنیا خصوصاً خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے ایک تقویت آمیز رجحان ہے ۔پیس کیپرز ( فوجی، سویلین پولیس اور فوجی مبصر) کی افرادی قوت کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں خطے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کا نمبر کچھ یوں ہیں۔ انڈیا دوسرے، پاکستان تیسرے، بنگلہ دیش چوتھے،نیپال چھٹے،سری لنکا 42 ویں اوربھوٹان85 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ چین 12 ویں، فرانس31 ویں، برطانیہ 48 ویں، روس 68 ویں اورامریکہ75 ویں نمبر پر ہیں۔

اقوام متحدہ کی پیس کیپنگ سرگرمیوں کا بجٹ امن کو سبوتاژ کرنے والے دنیا کے فوجی اخراجات کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ۔موجودہ مالی سال کے لئے یہ بجٹ 7.87 ارب ڈالر ہے جوعالمی فوجی اخراجات کے مقابلے میں محض عشاریہ 46 (0.46 )فیصد ہے ۔اس وقت اقوام متحدہ کے امن منصوبوں کے لئے سب سے زیادہ بجٹ امریکہ فراہم کر رہا ہے۔ جو پیس کیپرز کے بجٹ کا 28.57 فیصدمہیاکرتا ہے۔10.29 فیصدکیساتھ چین دوسرے اور 9.68فیصد کے ساتھ جاپان تیسرے نمبر پر ہے۔دنیا میں انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے اقوام متحدہ کے پیس آپریشنز کا مہنگا ترین آپریشن اقوام متحدہ کی عارضی فوج ثابت ہوا ہے جو لبنان(UNIFIL – UN Interim Force in Lebanon) میں تعینات ہے۔ جہاں اب تک 312 پیس کیپرز اپنے فرائض کی راہ میں جان بحق ہوچکے ہیں۔

اس کے علاوہ پیس کیپرز کی زیادہ تعداد کے حوالے سے یواین او کا مشن برائے عوامی جمہوریہ کانگو (MONUSCO – United Nations Organization Stabilization Mission in the Democratic Republic of the Congo)ہے جہاں22 ہزار 4 سو68 (فوجی، فوجی مبصر،سویلین پولیس، انٹرنیشنل سویلین، لوکل سویلین، اقوام متحدہ کے رضاکار)ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کا مشن برائے جنوبی سوڈان ہے جس کا آغاز جولائی 2011 میں ہوا تھا اس وقت سب سے زیادہ ممالک کی تعداد کے حوالے سے پیس  کیپرز کا حامل ہے جس میں63 ممالک کے 15 ہزار 7 سو77 پیس کیپرز خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ جمہوریہ وسطی افریقہ(MINUSCA – United Nations Multidimensional Integrated Stabilization Mission in the Central African Republic) میں تعینات امن آپریشن تازہ ترین ہے۔جس کا آغاز اپریل2014میں ہوا۔

اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ کا عمل جاری رہتا ہے۔جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ مثلاً 1995 سے1999 کے دوران پیس کیپرز کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی جو68 ہزار سے کم ہوکر 18 ہزار 4 سو رہ گئی۔جس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو نیٹو کا سابقہ یو گو سلویہ میںپیس کیپنگ کی ذمہ داری اٹھانا اور دوسرا عنصر موزنگبیک میں اقوام متحدہ کے آپریشن کو ختم کرنا تھا۔

اقوام متحدہ کے پیس آپریشن جہاں کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں وہیں انہیں نا کامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔جیسا کہ بو سنیا میں ڈچ پیس میکرز کی شہریوں کے لئے محفوظ علاقہ بنانے کی کوشش کی ناکامی تھی تاکہ سربین جارحیت سے انھیں بچایا جا سکے۔لیکن پیس کیپرز کے پاس ہتھیار یا ایسا اور کوئی ذریعہ نہ تھا کہ وہ سربوں کے سامنے کھڑے ہوتے جس کے باعث محفوظ علاقہ بھی غیر محفوظ ہو گیا اور سر بینیکا کے مقام پر 7 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

اس طرح ان پیس آپریشنز کی ناکامی کی ایک اور وجہ غیر جانبداری کے عمل کا فقدان اور قول و فعل میں تضاد کا عمل بھی ہے۔ یعنی دنیا کے کچھ ممالک نے اپنے اہداف اور بین الاقوامی تشخص کو بہتر بنانے کے لئے پیس کیپنگ کا سہارا لیا۔ ان میں سے سویڈن ، اٹلی اور ہالینڈ جیسے ممالک پر خاص کر نکتہ چینی کی گئی کہ وہ اُن ممالک کو اسلحہ فراہم کرنے میں نمایاں ہیں جہاں وہ اکثر قیام امن کے لئے کام کرتے ہیں۔

امریکہ کا کردار بھی پیس کیپنگ کے حوالے سے خاصی تنقید کا نشانہ بنتا آرہا ہے۔وہ ایک طرف امن کے نام پر جنگ مسلط کرتا ہے تودوسری طرف انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔دنیا کے ہر فرد کو قانون کا پابند قرار دیتا ہے۔ لیکن خود اپنے فوجیوں کے لئے جنیوا کنونشن پر عملدر آمد نہیں کرتا۔اس کے علاوہ شورش زدہ علاقوں میں کسی ایک مسلح گروہ کو ہتھیار فراہم کرنا اور کہنا کہ یہ سب وہ دنیا کہ امن کے لئے کر رہا ہے اُس کاپرانا وطیرہ ہے۔اُس کی یہ دوہری پالیسی دنیا میں امریکہ کے تشخص کوبری طرح متاثر کر رہی ہے۔اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام قیام امن کی کوششوں میں رکاوٹ کا پیش خیمہ بھی بنتی ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کابعض معاملات میں اپنا کردار بھی قابل بحث ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جن مقاصد کے لئے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا وہ پوری طرح حاصل نہیں ہو پا رہے۔اقوام متحدہ کا ادارہ ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے جہاں تقریریں تو خوب ہوتی ہیں اور قرار دادیں بھی پاس کی جاتی ہیں لیکن اکثر کے نتائج (عملدرآمد کے حوالے سے) تقریباً صفر سوائے چند منتخب سلسلوں میں۔کیونکہ آج بھی کشمیر اور فلسطین کے مسائل اقوام متحدہ کے امن چارٹر پر ایک طویل عرصہ سے تصفیہ طلب ہیں لیکن ان مسائل کی موجودگی میں مشرقی تیمور اور سوڈان کے مسئلے کو جس تیزی سے حل کرنے کی کوشش کی گئی وہ ذہنوں میں مختلف سوالات ابھارنے کا پیش خیمہ بن رہے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقوام متحدہ کے پاس کامیاب مثا لیں موجود نہیں۔ اس کی انسانیت کے لئے خدمات کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا خصو صاً افریقہ میں اس کا کردار انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی عکاسی کرتا ہے لیکن تنازعات کے حل اور امن کے قیام کے لئے غیر جانبداری بہر حال ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔