وہ نوکرانی نہیں میری ماں تھی

جب بھی مجھے پیسے چاہیئے ہوتے تو میں اُسی سلائی مشین کا رُخ کرتا جس سے مجھے چڑ تھی۔


جب مجھے معمول سے ہٹ کر زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی تو گھر میں سلائی مشین کے چلنے کا دورانیہ 16 گھنٹے تک جاپہنچتا تھا۔ فوٹو: فائل

ایک روز میں اور زاہد صاحب آفس کینٹین میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ میں نے اُن کے ہمہ وقت کے بجھے بجھے سے رویے کی وجہ پوچھی۔ وہ کہنے لگے،
''مجھے آج مرے ہوئے تین سال ہوگئے''

میں نے نظریں اُٹھا کر اُن کی آنکھوں میں دیکھا، جہاں اِس جملے کے ساتھ ہی دنیا بھر کی نقاہت اتر آئی تھی۔ پھر کہنے لگے کہ،

میں ہمیشہ سے بدتمیز رہا ہوں، بچپن میں اسکول جاتے ہوئے ضد، کھانا کھاتے ہوئے نخرے، وہ نہیں یہ کھانا ہے، یہ نہیں وہ کھانا ہے، مجھے نہیں یاد کہ پانچویں جماعت تک میں کب خود نہایا، کھانا کھایا، کپڑے پہنے یا جوتوں کے تسمے بند کیے ہوں۔ باپ کا تو مجھے صرف نام ہی ملا۔ نہ کبھی اُس کی صورت دیکھی اور نہ پیار۔ بھائی کا سہارا کیا ہوتا ہے اور بہن کی محبت کیا ہوتی ہے کچھ معلوم نہیں۔ پرائمری، مڈل اور پھر میٹرک تک یہی عادت رہی کہ رات کو سونے سے قبل کتابیں، کاپیاں، بستہ غرض تمام چیزیں اِدھر اُدھر بکھری چھوڑ کر سوجاتا تھا، مگر صبح آنکھ کھلتے ہی دیکھتا کہ تمام چیزیں بہت سلیقے سے بستے میں پڑی ہیں اور بستہ بڑی نفاست سے میز پر پڑا ہے۔

مجھے لاکھ بار کہا جاتا کہ دودھ پی کر سونا مگر میں نہیں پیتا تھا، جب صبح اٹھتا تو لب شیریں اور منہ کا ذائقہ بدلا ہوتا۔ پہلے پہل تو پتہ نہیں چلتا تھا مگر آہستہ آہستہ معلوم ہوگیا کہ رات کو نیند میں ہی دودھ پلادیا جاتا ہے۔ رات کو کبھی آنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ بارش ہورہی ہے اور مجھ پر کمبل ڈال دیا گیا ہے کہ سردی نہ لگے۔

مجھے ہمیشہ گھر میں دو ہی چیزوں سے چڑ رہی۔ ایک 11 سے 13 گھنٹے تک ہاتھ سے چلائی جانے والی سلائی مشین سے اور دوسری روٹی کے کناروں سے جن پر اکثر گھی لگنے سے رہ جاتا تھا مگر روٹی کے وہ سوکھے ٹکڑے جو میں اتار دیتا تھا نہ تو کبھی گھر سے باہر فروخت ہوتے دیکھے اور نہ ہی کوڑا دان میں کبھی نظر آئے اور جب بھی مجھے پیسے چاہیئے ہوتے تو میں اُسی سلائی مشین کا رُخ کرتا جس سے مجھے چڑ تھی۔

جب بھی مجھے کبھی معمول سے ہٹ کر زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی تو دیکھتا کہ گھر میں سلائی مشین کے چلنے کا دورانیہ 16 گھنٹے تک جاپہنچتا تھا۔ مجھے یاد ہے کالج میں داخلے کے وقت مجھے 1500 روپے چاہیئے تھے، میں نے گھر آکر بتادیا۔ اُسی رات 2 بجے کے قریب میری آنکھ کُھلی تو گھر کے برآمدے میں کچھ کھٹ پٹ ہوتی محسوس ہوئی۔ ذرا مزید غور کرنے پر یہ بھی محسوس ہوا کہ جیسے کوئی گھٹی گھٹی سسکیوں کے ساتھ رو رہا ہو۔ چپکے سے برآمدے میں جا کر دیکھا تو موٹے شیشے کا چشمہ لگائے میری ماں جانے کب سے مشین میں دھاگہ ڈالنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ آنسو بھی گر رہے ہیں۔

میں نے پوچھا، کیا کر رہی ہیں ماں جی؟

ماں نے چونک کر میری طرف دیکھا اور جلدی سے آنسو صاف کرکے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بالکل صاف آواز میں کہنے لگی۔ وہ سامنے والی ثریا کے بھائی کی شادی ہے تو اُس نے کہا کہ صبح تک دو سوٹ سلائی کردو اِس لئے بیٹھی ہوں لیکن دھاگا سوئی میں نہیں ڈل رہا۔

اُس دن مجھے ماں کی حالت اور آنسو دیکھ کر احساس ہوا کہ مجھے کوئی چھوٹا موٹا کام کرنا چاہیئے۔ میں مناسب کام بھی ڈھونڈتا رہا اور پڑھتا بھی رہا۔ اُدھر ایف اے مکمل ہوا اور اِدھر آفس میں کام مل گیا۔ میں نے گھر جا کر ماں کو بتایا تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی، فوری شکر پارے لاکر محلے میں بانٹے۔

ایک دن دفتر میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے گھر پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔ تھکاوٹ کی وجہ سے پاؤں چارپائی سے لٹکائے ہی سوگیا۔ جب اُٹھا تو دیکھا کہ خلافِ معمول آج نہ جوتے میرے پاؤں سے اترے تھے اور نہ ہی کھانا بنا تھا۔

ماں کو آواز دی، ''ماں جی، ماں جی، ماں اُٹھیں بھوک لگی ہے، ماں جی''

چیخ چیخ کر رویا، ہزار منتیں اور ترلے کیے مگر شاید ماں اب کی بار اُٹھنے کے لئے نہیں سوئی تھی۔ ماں کے بعد وہ گھر چھوڑ دیا کیونکہ گھر اب قبرستان لگتا تھا۔ یہاں دیارِ غیر میں آکر میں اپنا سارا کام خود کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں نے کبھی جس کی خدمت نہ کی اور نہ کبھی آسائش و سکوں دیا
''وہ نوکرانی نہیں، میری ماں تھی!''

یہ کہتے ہوئے زاہد کے دو موٹے موٹے آنسو رخساروں پر بہہ گئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

مقبول خبریں