کراچی کی دردناک صورتحال

روشنیوں آج کل ٹارگٹ کلرز،بھتہ خوروں ، انتہا پسندوں اور فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں ملوث عناصر کے رحم و کرم پر ہے۔


Editorial February 07, 2013
18سال سے کراچی میں رینجرز تعینات ہے، بھاری بجٹ بھی خرچ ہورہا ہے پھر بھی قیام امن میں ناکامی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ جس شہر میں شہریوں کا خوف کے باعث گھر سے نکلنا مشکل ہو وہاں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کیسے ممکن ہیں، حکومت کو اشتہار دیدینا چاہیے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتی ، شہری امام ضامن باندھ کر گھر سے نکلیں، جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں4 رکنی لارجر بنچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی، عدالت نے آبزرویشن دی کہ آئین شفاف انتخابات کاتقاضا کرتا ہے ، ان حالات میں منصفانہ انتخابات نظر نہیں آتے ۔

یہ ریماکس حقیقت میں ایک مقتل نما شہر قائد کے مستقبل کی ہولناکی کی عکاسی کرتے ہیں جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اور آج کل ٹارگٹ کلرز،گینگ وار کارندوں ،بھتہ خوروں ، انتہا پسندوں اور فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں ملوث عناصر کے رحم و کرم پر ہے، ڈیڑھ کروڑ آبادی کا یہ بندہ نواز ، دل کشاشہرجو ملک کا معاشی حب ہے اور اس کی تکلیف کو وطن عزیز کا ہر شہری اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ سیاسی طور پر اس قدر باشعور شہری آبادی کے بیچ قانون شکن عناصر اپنی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

یہ سب ایک طلسم ہوشربا لگتاہے ، چنانچہ کراچی میں بدامنی کے حوالے سے سپریم کورٹ کی آبزرویشن چشم کشا اور اندیشہ ہائے دور دراز کے ادراک کی ایک درد مندانہ صدا ہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں جاری قتل و غارت اور بدامنی پر جو ریمارکس دیے ہیں وہ شہر آشوب ہے، فریاد ہے کہ حکمراں آنکھیں کھولیں ورنہ بدامنی کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا ۔ بار بار کی عدالتی یاد دہانی سے ارباب اختیار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کوبے بسی کی تصویر بن جانے اور عذر خواہی کے ہزار بہانے تراشنے کے بجائے حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ قاتلوں ،مجرموں اور نامعلوم مسلح افراد کو موقع پر پکڑنے کی حکمت عملی، بروقت کارروائی اور عقاب کی طرح ان پر جھپٹنے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جب اسلحہ کے غیر قانونی استعمال اور اس کی فراوانی کے خلاف قانون سازی 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اب صوبائی معاملہ ہے تو قانونی سفارشات وفاقی وزیر داخلہ کوارسال کرنا چہ معنی دارد ۔

سپریم کورٹ کا اس ضمن میں استفسار مسئلہ کی تہہ تک جانے کا عندیہ دیتا ہے کہ یہ تساہل ہے ، مجرمانہ غفلت یا قاتلوں کو ڈھیل دینے کی کاریگری۔اس امر کا جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ قانون شکن عناصر کو حکومتی رٹ قبول کرنے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جائے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے اعتراف کیاکہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں امن وامان کے لیے مکمل ہدایات ہیں لیکن کچھ ''سیاسی مجبوریوں''کے باعث حکومت قانون سازی نہیں کرسکی، آئی جی سندھ عدلیہ کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکے ۔جسٹس امیرہانی مسلم نے ممبر انسپکشن ٹیم سندھ ہائیکورٹ کی ایک رپورٹ کی نشاندہی کی جس کے مطابق کراچی میں 22,535مفرور اور اشتہاری ہیں، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ عوام ان کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہیں ،شاید حکومت نے طے کرلیا ہے کہ لوگوں کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے والوں کوگرفتارنہیں کیاجائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے حکومتی تاخیر کے تناظر میں آبزروکیا کہ نومبر2011میں فیصلہ سنایا تھا مگر اس پرعمل ہوا ، اب انتخابات کے قریب پولیس میں سیاسی مقاصد کے لیے بھرتیاں کی جارہی ہیں، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 9پر عملدرآمد چاہتی ہے، کراچی میں لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں تو حکومت ذمے دار ہے ۔ 18سال سے شہر میں رینجرز تعینات ہے، بھاری بجٹ بھی خرچ ہورہا ہے پھر بھی قیام امن میں ناکامی ہے۔ جسٹس ہانی نے کہا کہ پولیس خاک فرانزک تربیت کافائدہ اٹھائے گی ، یہاں تو رفاعی اداروں کی ایمبولینس زخمیوں اور بوری بندلاشوں کواسپتال پہنچاتی ہیں ۔ سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آیندہ انتخابات کے لیے تو اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو 5 ارب75 کروڑ روپے دیے جاچکے ہیں اور یہ پیسہ گلی کوچوں میں سڑکوں کی ہنگامی تعمیر و جزوی مرمت میں پانی کی طرح بہایا جارہا ہے مگر انسانی خون جو پانی کی شہر میں بہہ رہا ہے اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ اسی سمت سپریم کورٹ نے توجہ دینے کا حکم دیا ہے۔

صدرزرداری نے وزیراعلیٰ سندھ کوہدایت کی ہے کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹارگیٹڈکارروائیاں جاری رکھی جائیں، ادھر وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے پاکستان رینجرزکوہدایت کی کہ کراچی میں رینجرکی پٹرولنگ بڑھایا جائے جب کہ تاجر برادری کو درپیش مسائل کا یہاں ذکر از حد ضروری ہے ۔ کراچی تاجر اتحاد کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی شناخت اس کی تجارت ہے جو بھتہ خوری کے ذریعے ختم کی جارہی ہے، تاجر برادری کراچی میں بدامنی اور بھتہ خوری کے خلاف لانگ مارچ اور اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر احتجاجی دھرنا دیں گی ۔ ان رہنمائوں کے مطابق پہلے بھتہ خور پرچی دیا کرتے تھے اب وہ سامنے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بھتے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، بھتہ خور دیدہ دلیری سے خود کہتے ہیں کہ ہم ہرماہ ایک سسٹم کے تحت بھتہ لیا کریں گے ۔ بھتہ خوری سے الیکٹرانک مارکیٹ ٹھپ ہوگئی، ڈیفنس مارکیٹ تک ان عناسر کی چیرہ دستیاں جاری ہیں ۔

لیاری میں گینگ وار کارندوں کی عملاً بادشاہت قائم ہے ، منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی علاقے میں داخل نہیں ہوسکتے، جب کہ دیگر نوگو ایریازدہشت گردوں اور طالبان کمانڈروں کے ماتحت آچکے ہیں۔دوسال میں پچیس سے تیس ہزار تاجر کراچی سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں شفٹ ہوگئے ہیں کبھی کراچی بزنس حب ہوا کرتا تھا اب لاہور بزنس حب بننے جارہا ہے۔تاجر رہنمائوں کے مطابق کراچی میں بھتہ خوری اور بدامنی کی ذمے دار حکومت میں شامل جماعتیں ہیں ۔ کیا امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار سپریم کورٹ کے حکم پر لبیک کہیں گے؟

مقبول خبریں