کچھ جان اور لفظ خان کے بارے میں

جب ہندو نام بکتے تھے تو مسلمان ’’کمار‘‘ بن جاتے تھے۔ آج ’’خان‘‘ کی مارکیٹ ہے تو ملائیکہ اورگوری بھی’’خان‘‘بن گئی ہیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq February 12, 2013
[email protected]

ہمارے ایک کرم فرما جناب قاسم جان نے بڑے اچھے موقعے پر ایک بڑا اچھا سوال ہم سے پوچھا۔ لکھتے ہیں، ہمارے پشتونوں کے ناموں کے آگے پیچھے لفظ ''خان'' بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر کام کیا جا سکتا ہے حالانکہ آپ کے اور میرے نام کے ساتھ ''جان'' کا لاحقہ ہے، اگر اس لفظ خان پر بھی آپ ذرا کوشش کریں تو، جس موقع اور محل کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، وہ پڑوسی ملک کے ایک ''خان'' کے لیے ہمارے پاکستانیوں کے جگر میں اٹھنے والا ''درد'' ہے۔ خیر پاکستانی تو جدی پشتی اور سدا کے امیر مینائی ہیں۔

برچھی چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

دراصل ہم پاکستانیوں کی قریب کی بینائی اور شنوائی دونوں کم زور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں کہ ہم بہت دور کی ''اف اور آہ'' بھی سن لیتے ہیں لیکن قریب کی چیخیں بھی سن نہیں پاتے یا یوں کہیے کہ دور کے ڈھول پر یہ ناچنے لگتے ہیں اور قریب کی طوطی کی گردن مروڑ دیتے ہیں ورنہ ہم بھارت جاتے رہتے ہیں اور وہاں کے شو بزنس میں موجود ''خانوں'' اور ''خانیوں'' کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ان کی ذات، ان کی نسل، سب کچھ شوبز ہے۔ یہ شاہ رخ خان جو اس وقت بالی وڈ کا مالدار ترین اداکار ہے، اس نے کبھی پشاور میں اپنے عزیزوں کے بارے میں یہ تک جاننے کی کوشش نہیں کی ہے کہ مر گئے یا زندہ ہیں اور اگر زندہ ہیں تو کیسے زندہ ہیں ۔کچھ مدد امداد تو ایک طرف کبھی دو انگل کے خط میں حال چال بھی نہیں پوچھا ہے اور جس ''پشاور'' کی نسبت سے وہ مونچھوں کو (نہ ہونے کے باوجود ) تاؤ دیتا رہتا ہے، اس کی طرف پلٹ کر دیکھا تک نہیں ہے حالانکہ دنیا بھر میں گھومتا رہتا ہے، خیر اسے چھوڑیئے کہ فلمی دنیا کمرشل دنیا ہے جب یہاں ہندو نام بکتے تھے تو اچھے اچھے مسلمان ''کمار'' بن جاتے تھے۔

خاندانی اور نحیب الطرفین خواتین مدھو بالا بن جاتی تھیں اور آج ''خان'' کی مارکیٹ ہے تو ملائیکہ اروڑا، سوزانے اور گوری بھی ''خان'' بن گئی ہیں۔ لفظ ''خان'' کیا ہے، دائرۃ المعارف اسلامیہ کے مطابق اس کی اصل ''قآن'' ہے جو ''خاقان'' بن گیا تھا ۔ قآن ایک چینی زبان کے الفاظ ''زوآن زوآن'' سے نکلا ہے جس کے معنی ''مسلح'' کے ہوتے ہیں۔ اس نے ترکی زبان میں ''قآن'' کی صورت اختیار کر لی اور خاقان سے ہوتا ہوا ''خان'' تک پہنچا لیکن یہ ایک اور سمت میں بھی جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ چینی لفظ زوآن زوآن کا مفہوم ''جوان'' اور جوانی میں بھی ہے۔ ''جوان'' بھی قوت اور مسلح کا مفہوم رکھتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چینی لفظ ''زوآن زوآن'' اب بھی پشتو میں ''زوان'' ہی بولا جاتا ہے۔

اصل بحث ہمیں لفظ خان سے کرنی ہے، قآن سے معرب ہونے والے لفظ ''خاقان'' کو جب وسعت ملی تو اسے سردار یا حاکم کے مفہوم میں بولا جانے لگا اور پھر آہستہ آہستہ ''خان'' بن گیا۔ دائرۃ المعارف اسلامیہ میں لکھا ہے ''خان ایک ترکی لقب جو دراصل قاغان کا مخفف ہے جس کی عربی صورت ''خاقان'' ہے۔ ان معنوں میں یہ لفظ ''قان قاغان'' کے ساتھ اورخون (ORKNUN) کے آٹھویں صدی کے قدیم کتبوں میں آیا ہے'' ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی زمانے میں لفظ ''خان'' کا استعمال پہلے چوتھی صدی ہجری (دسویں عیسوی) میں ''ایلک خان'' کے سکوں پر ہوا۔ پانچوں صدی کی ان کتابوں میں جو اس خاندان سے متعلق ہیں، تاتاریوں کے زمانے تک قآن اور قاغان اور خان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جا سکتا مگر اس دور کے بعد قآن یا قآغان حاکم اعلیٰ کے لیے استعمال ہونے لگا جو معرب شکل میں خاقان تھا اور خان سلطنت کے ایک علیحدہ صوبے کے حاکم کے لیے مخصوص ہو گیا۔

رفتہ رفتہ قاغان اور خاقان دونوں لفظ متروک ہو گئے اور ان کی جگہ ''خان'' نے لے لی، مغل فتوحات سے پہلے کی چند صدیوں میں عربی ''ملک'' اور فارسی ''شاہ'' کی طرح یہ ترکی لفظ ''خان'' امراء کے لیے استعمال ہوتا تھا اور ''سلطان'' حاکم اعلیٰ کے لیے مگر سلطان کا یہ مفہوم صرف مغربی ایشیاء اور مصر میں باقی رہا، وسطی ایشیاء میں جب منگول سلطنت مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوئی تو ان علاقوں میں ''خان'' کا لقب اصل( ترک) حکم ران کے لیے استعمال ہونے لگا اور ''سلطان'' کا لفظ ان تمام خاندانوں کے افراد کے لیے جو چنگیز خان کی نسل سے تھے۔ ایران کی صفوی سلطنت کے نظام حکومت میں( ایران اور وسط ایشیا ) میں سلطان ایک چھوٹے صوبے کے حاکم یا گورنر کو کہتے تھے جو ''خان'' کے ماتحت ہوتا تھا (دائرۃ المعارف اسلامیہ جلد 8)، لفظوں کا سفر ایسے ہی ہوتا ہے کہ زمانوں اور زبانوں سے گزرتے گزرتے بہت کچھ کم ہو جاتا ہے اور بہت کچھ ان میں مل جاتا ہے۔

لفظ زوآن سے قاغان، قآن، خاقان اور خان تک کا یہ سفر اس کا آئینہ دار ہے، کبھی کبھی تو اتنا بدل جاتا ہے کہ اصل لفظ سے اس کا رشتہ انتہائی کم زوررہ جاتا ہے لیکن ہوتا بہرحال ہے اور پھر ایک لفظ جب چینی سے چل کر ہند یورپی اور پھر سامی زبانوں میں چلتا ہے تو کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے کیوں کہ ان تینوں لسانی گروپوں کے نظام قطعی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ لفظ یاجوج ماجوج جو انگریزی میں گاگ می گاگ ہیں، مغول اور یوچی سے بنے ہیں اور افغان کی بنیادی شکل ''اپہ گان'' (پانی میں رہنے والے) ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ پشتونوں میں یہ نام کیوں رائج ہوا کہ صرف ان ہی کے لیے مختص ہو گیا تو اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پشتونوں میں اپنے آپ کو کسی دوسرے سے کم سمجھا ہی نہیں جاتا، اگر ''خان'' وسط ایشیا میں حاکم یا سردار یا بادشاہ کو کہا جاتا ہے تو ہوا کرے لیکن اگر وہ خان ہے تو میں بھی ''خان'' ہوں۔

یہ محاورہ تو ہر قوم و نسل میں ہے کہ بھئی ہم خود اپنے گھر کے بادشاہ ہیں، چاہے دو وقت کی روٹی بھی نصیب میں نہ ہو، لیکن بادشاہ اور خان تو ضرور ہیں اور پشتونوں میں تو یہ صفت یا عیب انتہائی شدت سے موجود ہے جسے واضح کرنے کے لیے بے شمار کہاوتوں اور اقوال کا استعمال کیا جاتا ہے مثلاً گدھا اگر گدھے سے کم ہو تو اس کے کان کاٹنے چاہیں اور تربور اگر تربور سے کم ہو تو اس کا سر اڑا دینا چاہیے اور صرف کہتے نہیں بلکہ اڑاتے رہتے بھی ہیں بلکہ پشتونوں کا سب سے محبوب مشغلہ ہی یہی ہے کہ اپنے سے اونچے سر کو اڑا دیا جائے چاہے اس میں اپنا ہی سر کیوں نہ اڑ جائے۔ اب بھلا ایسے لوگ بھی اپنے آپ کو ''خان'' نہ کہیں تو کون کہے گا، اسی لیے تو باقی اقوام خصوصاً وسط ایشیاء اقوام نے یہ تاج پھینک دیا ہے، صرف پشتون ہی اسے سر پر رکھے ہوئے ہیں اور اس وقت رکھے گا جب تک یہ سر ہی اڑ نہ جائے۔

مقبول خبریں