پاکستان کے 70 سنہری حقائق (گیارہویں قسط)

ایکسپریس اردو بلاگ  جمعـء 11 اگست 2017
پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔ 


پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (نویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دسویں قسط)

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، پی سی ایس آئی آر اور نیم

پاکستان کے ممتاز کیمیاداں، مصور اور ادبی ناقد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بھارتی ضلع بارہ بنکی میں 19 اکتوبر 1897ء کو پیدا ہوئے اور جرمنی میں یونیورسٹی آف فرینکفرٹ سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد انڈین کونسل فار سائنس اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے وابستہ ہوئے۔ ہجرت کے بعد پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور ملک میں صنعتی ترقی کے لیے بہترین ادارے قائم کئے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی زندگی میں 300 سے زائد تحقیقی مقالے لکھے اور 40 سے زائد ادویہ یا مرکبات کی پیٹنٹ اپنے نام کیں جن میں نیم سے حاصل ہونے والے اجزاء سرِفہرست ہیں۔ انہوں نے ہولرینا پودوں پر غیرمعمولی تحقیق کی جن سے دل، دماغ اور بلڈ پریشر کے امراض کی علاج کی راہیں ہموار ہوئیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں نے اِس دریافت سے خطیر رقم کمائی۔ ڈاکٹر صاحب کی انہی خدمات کے نتیجے میں 1966ء میں انہیں ’بابائے ہولرینا کیمیا‘ کا خطاب دیا گیا۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے انتخابات میں استعمال ہونے والی انمِٹ سیاہی کا فارمولا بھی بنایا جو آج تک استعمال ہورہا ہے۔ ملک کو سائنسی بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا یہ درویش صفت سائنسداں جب 14 اپریل 1994ء کو اِس دنیا سے رخصت ہوا تو رہائش کے لیے اپنا ذاتی مکان تک نہ تھا۔

 

ڈیرہ غازی خان کی شاہراہِ حیرت

ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جانے والی شاہراہ لگ بھگ 80 کلومیٹر طویل ہے لیکن ارضیاتی اور معدنی خزانوں سے مالا مال ہے۔ جیسے ہی آپ ڈیرہ غازی خان سے روانہ ہوتے ہیں تو پہلے اِس روڈ کے دونوں اطراف چھوٹی مشینیں دکھائی دیتی ہیں جو سڑک اور عمارات تعمیر کرنے والے اہم کنسٹرکشن مٹیریل کو چھوٹے پتھروں میں ڈھالتی ہیں۔ یہ معیاری مٹیریل عمارت، سڑکیں اور پل وغیرہ بنانے میں استعمال ہورہے ہیں۔

اسی پہاڑی سلسلے میں سیمنٹ بنانے کا اہم جزو جپسم بکثرت موجود ہے جو قریبی سیمنٹ فیکٹریوں کوفراہم کیا جارہا ہے۔ اِس کے علاوہ چونے کے پتھر کے اہم ذخائر بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔

یہ علاقہ پاکستان بھر میں یورینیم کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اگرچہ اِس روڈ پر یورینیم کی کم مقدار والی سرمئی مٹی دکھائی دیتی ہے تاہم اِس سے قریب بغل چُور کے علاقے میں اعلیٰ یورینیم کے ذخائر موجود ہیں۔ اِس سے آگے بڑھیں تو اِسی روڈ پر تیل و گیس کے ذخائر بھی اپنی شان دکھاتے نظر آتے ہیں۔

ایک مقام پر پہاڑ کے درمیان میں کتھئی رنگ کی ایک پٹی دیکھی جاسکتی ہے جسے ’کے ٹی‘ یعنی (کرے ٹیشیئس-ٹیریٹری) باؤنڈری کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو اب سے ساڑھے چھ (6.5) کروڑ سال قبل ایک عظیم سانحے کی یاد دلاتا ہے جس سے ڈائنوسار صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق آسمان سے گرنے والے ایک شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسار ختم ہوئے تھے۔ کے ٹی باؤنڈری کے آثار پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن فورٹ منرو میں یہ بہت اچھی طرح نمایاں ہیں۔ یہ روڈ دنیا کا ایک عجوبہ ہے جہاں ایک ہی مقام پر اتنی ساری معدنیات اور ارضیاتی خزانے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ماربل، کوارٹز اور دیگر اہم معدنیات بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔

 

پاکستان کی ہوائی شاہراہ

سندھ میں جھمپیر اور گھارو کے اطراف میں پاکستان کی سب سے تیز ہوا چلتی ہے جسے سندھ شاہراہِ باد (وِنڈ کوریڈور) کا نام دیا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں اب تک 50 سے زائد ہوائی ٹربائن لگائی جاچکی ہیں اور ہر ٹربائن اوسطاً ایک سے ڈیڑھ میگا واٹ بجلی بناتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے یہاں ترک کمپنی زورلو انرجی نے ٹربائن لگانے کا آغاز کیا اور اب قریباً تین چار کمپنیاں ٹربائن لگارہی ہیں۔ تمام تر سست رفتاری اور عدم تشہیر کے باوجود سندھ ونڈ کوریڈور کو دنیا بھر میں صاف اور سستی بجلی بنانے کا ایک اہم مرکز تسلیم کرلیا گیا ہے۔

 

قدیم مہر گڑھ کی قدیم ٹیکنالوجی جو آج بھی استعمال ہورہی ہے

گزشتہ برس سائنسی حلقوں میں ایک خبر نے پاکستان کی زبردست اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ فرانس کے ماہرین نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سبی کے مقام پر مہر گڑھ کے آثار سے ایک پینڈنٹ نما شے 25 برس قبل دریافت ہوئی تھی۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دنیا کا اولین نمونہ ہے جو دھات کاری (میٹالرجی) کی ایک خاص تکنیک ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔

مندرجہ ذیل تصویر میں دکھائی دینے والی یہ چیز شاید نظرِ بد سے بچنے کے لیے یا پھر زیور کے طور پر بنائی گئی تھی۔ خالص تانبے سے بنی اِس شے کو پہلے موم سے بنایا گیا پھر اِس سخت موم کو نرم گارے کے دو ٹکڑوں کے درمیان سینڈوچ کی طرح دبا دیا گیا اور مٹی کے ٹھیکرے کو دھوپ میں سکھا کر سخت کردیا گیا تھا۔ اِس طرح موم خدوخال کا ایک سانچہ وجود میں آگیا ۔ آخری مرحلے میں ایک باریک سوراخ کرکے پگھلا ہوا تانبا اندر ڈالا گیا جس نے موم کو پگھلا کر غائب کردیا اور یوں تانبے کا بے جوڑ لیکن پیچیدہ پینڈنٹ وجود میں آگیا۔

یہ ٹیکنالوجی ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کہلاتی ہے جو ’انویسٹمنٹ کاسٹنگ‘ کے نام سے اب بھی استعمال ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی یہ تکنیک استعمال کررہا ہے۔

 

پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کا دائرہ

اگرآپ جامعہ کراچی میں واقع حسین ابراہیم جمال (ایچ ای جی) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سے تین کلومیٹر کا ایک دائرہ کھینچیں تو اُس میں چار سے پانچ اہم سائنسی تحقیقی ادارے ایسے آجائیں گے جو مخیرحضرات کی جانب سے عطیہ کردہ رقم سے بنائے گئے ہیں اور اب تمام ادارے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔

اِن اداروں میں سب سے پہلے خود ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری شامل ہے جو کراچی کے ایک صنعتکار لطیف ابراہیم جمال کی جانب سے 50 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے (1970 کے عشرے میں) تعمیر کیا گیا۔ اب یہ ادارہ دنیا بھر میں کیمیا پر اعلیٰ ترین تحقیق کے حوالے سے مشہور ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس کے پہلو میں ایک اور مخیر پاکستانی کے عطیے سے ’’ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ‘‘ قائم کیا گیا۔ ان دونوں اداروں کو کچھ ہی عرصے میں یکجا کرکے ’’انٹرنیشنل سینٹر فار دی کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز‘‘ (آئی سی سی بی ایس) قرار دے دیا گیا جو نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ دنیا بھر میں حیاتی و کیمیائی تحقیق کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ صرف ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں یہاں کے ماہرین نے 24 کے قریب پیٹنٹ اپنے نام کی ہیں اور پاکستان بھر میں 350 سے زائد صنعتیں اِس ادارے کی تحقیقات سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔

ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ (کے آئی بی جے آئی) واقعہ ہے جسے پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذاتی کاوشوں اور مالی امداد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اِسی طرح این ای ڈی یونیورسٹی میں کاوس جی ارتھ اسٹڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے جسے ممتاز کالم نگار اور دانشور اردشیر کاوس جی کی ذاتی مالی مدد کے بعد قائم کیا گیا ہے۔ اِس مرکز میں زلزلہ برداشت کرنے والی عمارتوں اور مختلف مادوں پر بھی تحقیق کی جارہی ہے۔

یہ ادارے پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کی زبردست مثال ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔