- ممبئی میں مٹی کا طوفان، 100 فٹ لمبا بل بورڈ گرنے سے 14 افراد ہلاک
- غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں ہو رہی ، امریکا
- بولرز کی خراب فارم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
- محمد رضوان نے اپنی ’سادہ‘ فلاسفی بیان کردی
- شاہین سے بدتمیزی، افغان شائق کو اسٹیڈیم سے باہر نکال دیا گیا
- کامیاب کپتان بننے پر بابراعظم کو چیئرمین کی جانب سے شرٹ کا تحفہ
- بجٹ، بزنس فورم کی لسٹڈ کمپنیوں کیلیے کم ازکم ٹیکس ختم کرنے سمیت مختلف تجاویز
- پاکستان سے توانائی، ڈیجیٹل ٹرانسفرمیشن دیگرشعبوں میں تعاون کرینگے، عالمی بینک
- غیرملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھنے لگا
- 5 سال میں صرف 65 ارب روپے مختص، اعلیٰ تعلیم کا شعبہ شدید مشکلات کا شکار
- 4 سال میں مہنگائی کم، ترقی، سرکاری ذخائربڑھیں گے، آئی ایم ایف
- نااہل حکومتیں پہلے بھی تھیں، آج بھی ہے:فیصل واوڈا
- ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا انتظام 10 سال کیلئے بھارت کے حوالے کردیا
- مظفرآباد صورت حال بدستور کشیدہ، فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق اور متعدد زخمی
- پاکستان اور امریکا کا ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم
- سینٹرل ایشین والی بال لیگ میں پاکستان کی مسلسل تیسری کامیابی
- نئے قرض پروگرام کیلیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات شروع
- آئین معطل یا ختم کرنے والا کوئی بھی شخص سنگین غداری کا مرتکب ہے، عمر ایوب
- آئی سی سی نے پلیئر آف دی منتھ کا اعلان کردیا
- آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن دیکھنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
کیا مرنے والے شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرچکا ہے؟
نیویارک: نئی سائنسی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طبّی طور پر انسان کی موت واقع ہونے کے کچھ دیر بعد بھی دماغ کام کرتا رہتا ہے اور مرنے والے شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرچکا ہے۔
یہ دعویٰ نیویارک کے لینگون اسکول آف میڈیسن کے ڈائریکٹر برائے انتہائی نگہداشت ڈاکٹر سام پارنیا کی جانب سے کیا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ جب انسانی جسم میں زندگی کے تمام آثار ختم ہوجاتے ہیں تب بھی انسانی شعور کچھ دیر تک فعال رہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرچکا ہے اور جب ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ مریض مرچکا ہے تو وہ یہ الفاظ بھی ممکنہ طور پر سن رہا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سام پارنیا اور ان کی ٹیم اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ان لوگوں پر تحقیق کررہی ہے جنہیں دل کے دورے پڑے اور تکنیکی اعتبار سے وہ مرچکے تھے تاہم بعد میں انہیں بچالیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔
تحقیق میں شامل چند لوگوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز کی جانب سے انہیں مردہ قرار دیے جانے کے بعد بھی وہ ارد گرد ہونے والی باتیں سن سکتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ مریضوں کی جانب سے بتائی جانے والی باتوں کی تصدیق ان ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے بھی کی جو اس وقت کمرے میں موجود تھے۔
طبی طور پر ایک شخص کو اس وقت مردہ قرار دے دیا جاتا ہے جب اس کا دل دھڑکنا بند کردیتا ہے اور اس کی وجہ سے دماغ تک خون کی رسائی معطل ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر سام پارنیا کہتے ہیں کہ تکنیکی طور پر جیسے ہی دل دھڑکنا بند کرتا ہے انسان کو مردہ قرار دے دیا جاتا ہے، ایسا ہونے کے بعد خون دماغ تک نہیں پہنچتا اور دماغ فوری طور پر کام کرنا بند کردیتا ہے، انسان قوت سماعت، گویائی اور بصارت سے محروم ہوتا جاتا ہے لیکن دماغی خلیے کچھ دیر تک کام کرتے رہتے ہیں۔
اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ جب کسی انسان کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے دماغ سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ 2013 میں سائنسدانوں نے مشی گن یونیورسٹی میں 9 چوہوں پر ایک تحقیق کی تھی۔ ان چوہوں کو بے ہوش کرکے دوائی کے ذریعے ہارٹ اٹیک کرایا گیا تھا اور طبی طور پر مردہ ہونے کے کافی دیر بعد تک ان کے دماغ میں برقی سگنلز دیکھے گئے تھے۔
ڈاکٹر سام پارنیا کا کہنا ہے کہ جس طرح بعض محققین انسانوں میں محبت کے احساس کی پیمائش پر تحقیق کررہے ہیں اسی طرح وہ بھی یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب انسان موت کے عمل سے گزررہا ہوتا ہے تو اسے کیسا محسوس ہوتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔