جمہوری انداز درست کرنا ہوں گے

فرح ناز  ہفتہ 21 اکتوبر 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

نہ ہی مارشل لا لگے گا اور نہ ہی ٹیکنوکریٹ حکومت آئے گی، جمہوری حکومت کو اپنے جمہوری انداز صحیح کرنا ہوں گے، بات آسان ہوگئی گوکہ مشکل پہلے بھی نہ تھی سمجھنے والے سمجھ گئے اور انتشار پھیلانے والے ابھی تک شر میں مبتلا ہیں اور اپنی ’’میں‘‘ کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں، اللہ پاک نے عقل بھی بڑی نعمت دی ہے مگر جب اس پر پتھر پڑنے لگتے ہیں تو اللہ کی ذات کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ اور FPCCI کا سیمینار ایک کامیاب سیمینار رہا۔ جنرل قمر باجوہ نے بہت حکمت سے بات کی اور جناب آصف غفور نے بہت حکمت سے پریس کانفرنس کی۔ شکر اللہ پاک کا کہ اب قوم بھی سمجھتی ہے، کروڑوں کی آبادی جاہل رکھنے کے باوجود سمجھداری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اپنی افواج کے ساتھ، عدلیہ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہوئی ہے۔

مگر دشمن ہے کہ اپنی چالاکی دکھاتے دکھاتے بلاشبہ اپنی جاہلیت کے ہاتھوں شکست کھائے گا، جو افواج سرحدوں پر کھڑی ہے ، چاروں طرف سے سازشوں سے نمٹ رہی ہے جو انٹیلی جنس دنیا بھر میں نمبر 1 کی پوزیشن پر ہے کیا وہ چند سیاسی کٹھ پتلیوں کے دباؤ میں آئے گی؟ سوچنے اور سمجھنے والی بات ہے کہ کیسے نادان ہیں یہ لوگ جو اپنی چند سالوں کی پالیسی پر اتنے بدگمان ہوئے بیٹھے ہیں کہ ان کے وہ ادارے نظر نہیں آرہے جہاں شخصیت نہیں پالیسیز ہی رواں دواں رہتی ہیں۔

سرحدوں سے لے کر اندرون دیہاتوں تک تمام دھڑکنیں انھی کے ساتھ دھڑکتی ہیں اور ناگہانی مصیبت میں بھی تمام قوم دامن پھیلا پھیلا کر رب سے ان کے خیر اور ان کی جزا کے لیے دعائیں مانگتی نہیں تھکتی مگر کیا کیجیے پریشان عقل کا کہ جب دروازے بند ہونے لگتے ہیں تو پھر گھبرا کر سامنے والوں پر حملے پر تل جاتی ہے، اور نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہونا چاہیے ہوتا ہے۔ خیر اور صرف خیر ہی اللہ سے ہمیں مانگنی چاہیے سب کے لیے۔ اور اللہ پاک کبھی کسی کی عقل خراب نہ کرے۔ مگر جب جب گندم بوئیں گے تو گندم کاٹیں گے، جیسی نیت ویسے اعمال اور اسی کے مطابق نتیجہ بھی ملے گا۔

نجانے کیسے لوگ ہیں یہ باتیں حضرت عمر فاروقؓ کی کرتے ہیں، انصاف حضرت عمر فاروقؓ کا چاہتے ہیں، حیات طیبہ رسول پاکؐ کی مثالیں دیتے ہیں سادگی کی بات کرتے ہیں، نبیوں کے قصے بیان کرتے ہیں، حضرت عثمانؓ کے سخی ہونے کی بات کرتے ہیں ان کی سخاوت کی بات کرتے ہیں فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں پر یہی بدنصیبی ہے کہ صرف بات کرتے ہیں تاکہ عوام ان کو ہمدرد، نیک دل سمجھے۔

پریکٹیکلی طور پر دیکھیں تو یہ فرعون نظر آتے ہیں، خزانے ایسے جمع کرنا چاہتے ہیں کہ قارون بن جائیں، اللہ کی پناہ، ظلم دیکھیے کہ لاہور کے ایک اسپتال کے سامنے مین سڑک پر ایک خاتون بچے کو پیدا کرتی ہے کہ اسپتال میں جگہ نہیں، عملے نے اسپتال میں داخل ہی نہ ہونے دیا ، کیا اللہ کا خوف نہیں، انصاف غریبوں کے لیے نہیں، اپنا زکام، لندن علاج، نفسیاتی بیماریاں لندن علاج، اور مزے کی بات کہ جس پیسے سے لندن و امریکا میں علاج کروایا جاتا ہے وہ عوام غریب ترین عوام کے ٹیکسز سے پیسہ وصول کیا جاتا ہے، الیکٹرک کے ٹیرف بار بار بڑھا چڑھا کر کئی ارب روپے فائدہ حاصل کیا گیا، گویا کہ اللہ کے پاس بھی شاید اربوں کی آفر لے کر جائیں گے، اللہ کا پیغام تو بہت واضح ہے کہ انصاف نہیں کرو گے حقوق العباد نہیں ادا کرو گے تو پکڑے جاؤگے، بے شک اللہ پاک بہترین علم رکھنے والا ہے۔

21 ویں صدی کی خوبصورتی و رعنائی لاہور کی سڑک پر نظر آئی ترقی یافتہ، کروڑوں روپے کے غیر ملکی قرضوں سے لاہور کی ترقی ایسی نظر آئی کہ پاکستان کی ایک شہری خاتون کو بھری سڑک پر جہاں لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے وہ کتنے شرم اور بے بسی کے ساتھ اس خاتون نے اولاد پیدا کی، بے شک اللہ پاک سب دیکھنے والا ہے، لیکن دیکھیے تو سہی، محسوس تو کیجیے کہ اس زبردست فراڈ اور لوٹ مار کے دور میں جہاں اربوں کے بیرونی قرضے کہاں جا رہے ہیں، اسپتال نہیں، کم ازکم موجودہ 50 سال پرانے اسپتالوں پر بھی توجہ دی جاتی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کو بھی اپ ڈیٹ کیا جاتا تو کم ازکم کچھ اسپتال ضرور موجود ہوتے جہاں ڈلیوری جیسی سہولیات بہت اعلیٰ ہوتیں، انگریزوں کو جتنا بھی برا بھلا کہہ لیجیے، یہودیوں کو جو چاہے برے الفاظ نکالیے مگر اعمال تو دیکھیے کہ ہمارے اچھے یا ان کے؟ مذہب کی آڑ لے کر، دین کا پرچار کرکے اگر اعمال میں تضاد ہے تو کیا حاصل نہ دین نہ دنیا۔

جب خاتون کا معاملہ میڈیا پر آگیا تو جناب سوتے ہوئے بھی اٹھ گئے اب بتائیں کہ اس سے کیا پاکستان کی بدنامی نہ ہوئی؟ مگر افسوس حکمرانوں کا کوئی بیان نہیں آیا۔ کیا یہ بات ملک کی بدنامی کا باعث نہیں کہ اسحق ڈار صاحب پر مقدمے بھی بنے عدالتوں میں وہ ملزم بن کر پیش بھی ہوں اور وزیر خزانہ جیسی ایک اہم وزارت بھی ان کے پاس ہو، کیا کوئی اس لائق اور قابل نہیں کہ وزیر خزانہ بن سکے۔

کیا یہ بات بھی ملک کے لیے باعث بدنامی نہیں کہ ایک اسلامی جمہوریہ ریاست میں ایک خاتون کو اسپتال میں داخلہ نہ دیا جائے گوکہ اب لگتا یہ ہے کہ ظلم حد سے بڑھ چکا ہے اور اتنا بڑھ چکا ہے کہ احساس اور عقل دونوں کی حدود ختم ہوتی نظر آتی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں جون 2016 سے لے کر اب تک تمام اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں ڈبل اضافہ کردیا گیا ہے، مزید الاؤنس اور پرانے الاؤنسز میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اور اکتوبر 2017 کے مہینے میں جون 2016 سے لے کر تمام واجبات ادا ہوں گے۔

کمال ہے کمال ہے، اسمبلی ممبران کہتے ہیں کہ مہنگائی دیکھیے کتنی ہوگئی ہے گزارا کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اب سوچیں عام آدمی کس کس کو روئے اور کہاں کہاں اپنا سر پھوڑے۔ ایسوں کو راجہ بنا دیں گے تو شاید یہی ہوگا مگر یہ وہ ہیں جن کو اپنا آپ اور اپنے لوگ صرف نظر آتے ہیں باقی اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

امریکا کے تمام شہریوں میں سے بہت سے ابھی تک ٹرمپ کو صدر تسلیم نہیں کرپائے انھیں لگتا ہے کہ ٹرمپ میں وہ خصوصیات نہیں جو ایک امریکی صدر میں ہونی چاہئیں حالانکہ ٹرمپ بذات خود بہت مالدار آدمی ہیں۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے لے کر آج تک ان کی مخالفت کی جا رہی ہے مگر ٹرمپ جانتا ہے کہ امریکی صدر کا عہدہ ایک عہدہ ہے یہ اس کی جاگیر نہیں اور میعاد پوری ہونے پر یا اس کی مخالفت زیادہ ہونے پر اس کو جانا ہوگا۔ وہ اپنے عہدے کو بچانے کے لیے نہ سیاسی جوڑ توڑ کرے گا نہ عدالتوں میں جائے گا۔ موجودہ طریقہ کار کو اپنائے گا جس کو فالو کیا جاتا ہے، لندن کے وزیر اعظم کیمرون پر جب اسکینڈل بنا تو انھوں نے دیر کیے بغیر استعفیٰ دیا اور اپنا سامان ڈبوں میں بھرا اور چل دیے۔

عزت اور خیر کی سیاست کو پاکستان میں پروان کیوں نہیں چڑھایا گیا، علاج و معالجہ و رہائش اگر لندن و امریکا میں پسند ہے تو وہ ان کے قانون وہاں کی اچھائیاں کیوں نہیں اپنائی جاتیں؟ جو جاہل وزیر تھے اب تو ان کی اولادیں بھی لندن و امریکا سے پڑھ کر واپس آگئیں مگر فرق کیا رہا کیا وہ پڑھی لکھی اولادیں بھی واپس آکر اپنی روایتی جہالتوں کو اپناتی ہیں یا وہ انھیں بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں؟

جب سب کچھ بہت آرام سے سونے کی تھالیوں میں مل رہا ہو تو جدوجہد کون کرے گا؟ صرف نظریاتی لوگ ہی ہوتے ہیں۔ مضبوط سوچ کے لوگ ہی ہوتے ہیں جو سر اٹھا کر جینا جانتے ہیں۔ جو قدم قدم پر جدوجہد کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ فائٹر ہوتے ہیں یہ لوگ جو ناانصافی پسند نہیں کرتے، حق اور سچ کے لیے لڑتے ہیں مرتے ہیں اور بالآخر ایک مقام بنا لیتے ہیں اور تاریخ میں سنہرے الفاظوں سے لکھے جاتے ہیں، آئیڈیل بنتے ہیں لاکھوں لوگوں کے، ہزاروں ان کے نظریات اپناتے ہیں اور اس طرح وہ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

کون بھولا ہے ٹیپو سلطان کو، کون بھولا ہے محمد بن قاسم کو، کون یاد نہیں کرتا صلاح الدین ایوبی کو۔ بانی پاکستان قائد اعظم تک کو اس ملک میں متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، علامہ اقبال کے اوپر بھی بیانات داغے جاتے ہیں مگر حقیقت بہرحال حقیقت ہے جھٹلایا یا بدلا نہیں جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔