مشرف کی واپسی جمہوریت کا حسن؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 7 مارچ 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

سابق صدر پرویز مشرف نے ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے کہ میں نگراں سیٹ اپ آنے کے ایک ہفتے کے اندر پاکستان واپس آجاؤں گا، مجھے سیکیورٹی دی جائے گی اور میری اپنی بھی سکیورٹی ہوگی، اتنا کمزور نہیں ہوں کہ اپنا دفاع نہ کرسکوں، صرف اﷲ کی گارنٹی چاہیے، اپنی صلاحیتوں پر ترقی کی دو جنگیں لڑیں، خطرات دیکھے ہیں، واپس آکر ان کا سامنا کرنے کو تیار ہوں، ہم نے اصل جمہوریت چلائی، میں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے۔

ملک کو معاشی طور پر مستحکم اور امن وامان کی صورت کو بہتر بنایا، پاکستان کو تیسری متبادل سوچ کی ضرورت ہے، میں اسی لیے واپس آرہا ہوں، آئین کے آرٹیکل 62-63 اصل روح کے مطابق بحال کیے جائیں، اگر عدالت مجھے سزا دیتی ہے تو ملنی چاہیے کیونکہ میں نے پاکستان کیلے بہت کچھ کیا ہے، میں نے امن وامان کی صورت حال بہتر کی ہے، سزا ملنی چاہیے، میں نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کیا ہے، اس کی سزا ملنی چاہیے، انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ان کی جماعت تمام حلقوں سے الیکشن لڑے گی۔

پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے عہدیداروں اور خود ان کی طرف سے اپنی آمد کے تازہ اعلان کے بعد اس خبر پر تبصروں کا آغاز ہوگیا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ مشرف کا اس ملک میں کردار ختم ہوچکا ہے، تمام مسائل ان کے عطا کردہ ہیں، واپسی پر جیل اور سزا  ان کی منتظر ہے۔ انھوں نے 12 اکتوبر 1997 کو ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا، نومبر 2007 میں دوبارہ ایمرجنسی نافذ کی، دو مرتبہ آئین توڑا، لال مسجد آپریشن کیا، بگٹی کو قتل کرایا، بے نظیر کے قتل میں بھی ان کا ہاتھ ہے، ڈرون حملے، لاپتہ افراد، کارگل ایشو، عدالتوں پر دو مرتبہ ڈرون حملے اور ججز اور ان کے اہل خانہ کو قید کیا جس کی بنا پر وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل ہوگئے ہیں۔

پرویز مشرف کی پارٹی کے عہدے دار کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے اور پرویز مشرف کی واپسی جمہوریت کا حسن ہے، وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے سے نہیں گھبراتے، ان کے دفاع کے لیے ملکی اور غیرملکی وکلا پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی ہے، اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو جو لوگ شریک اقتدار تھے خواہ وزیر اعظم ہو یا وزیراعلیٰ ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی، ان کے خلاف کارروائی سے شریک مجرم بھی سامنے آئیں گے۔

سابق صدر پرویز مشرف اور ان کے حاشیہ نویس انھیں پاکستان اور پاکستانیوں کا بہت بڑا محسن، مسیحا اور مربی اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے والی واحد ہستی کے طور پر پیش کر رہے ہیں جن کے کردار سے ہر باشعور پاکستانی بخوبی واقف ہے۔بعض حلقوں کا الزام ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے اپنے ریٹائرمنٹ کے حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے محکمے کے قانون کی خلاف ورزی کی، پھر ایک ری شیڈول فلائٹ کو بہ زور طاقت اپنی منشا کے مطابق پرواز کرنے پر مجبور کیا اور کمال ہوشیاری سے ہائی جیکنگ کا الزام زمین پر بیٹھے ایک شخص کے سر پر تھوپ کر دنیا میں ہائی جیکنگ کی نئی تعریف متعارف کرائی۔

آئین کو کوڑے دان میں پھینک کر قانون اور جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا، خادم لیگیوں کی پارلیمنٹ کو جاہل اور غیر شائستہ کہہ کر اس کی توقیر بڑھائی اس سے خطاب کرنا بھی گوارا نہیں کیا، وردی کو اپنی کھال قرار دیا تو خادم لیگیوں نے انھیں 10 مرتبہ وردی میں صدر منتخب کرانے کا پیمان کیا، بار بار وردی اتارنے کی تاریخ کا اعلان اور اس پر عمل نہ کرکے اپنے عہد کے پکا ہونے کا ثبوت دیا، تین وزرائے اعظم کے کاندھوں پر اپنے اقتدار کی اننگز کھیلی، تاریخ کی بھاری بھرکم کابینہ بناکر ایوان صدر کے اخراجات پہلے سے بڑھا کر، اسٹاک ایکسچینج کا تاریخی بھٹہ بٹھا کر این آر او جیسے تبرکات سے قوم کو مستفیض کرا کر انھوں نے پاکستان کی مثبت اور عوام کی حالت زار کو سنبھالا دینے کا بہت بڑا احسان بھی کیا۔

جس طرح انھوں نے اپنے ریٹائرمنٹ کے قانونی حکم کو نہیں مانا اسی طرح کارگل آپریشن کرتے وقت حکومت اور اپنے ساتھیوں کو اعتماد میں نہیں لیا، جس سے ملک اور اس کے وزیراعظم کو بین الاقوامی طور پر ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اس کا الزام بھی حسن کمال سے انھوں نے وزیراعظم کے سر پر تھوپ کر اپنے آپ کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا، اپنی فوجی بغاوت اور آمریت کا جواز یہ پیش کیا کہ انھیں تو دھکا دیا گیا تھا۔ آمریت قائم کرنے کے بعد عوام کو ایک پرفریب نعرہ مستانہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ دیا۔ دختر ملت ڈاکٹر عافیہ کو تین بچوں سمیت غیرملکیوں کے حوالے کرکے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا جب کہ وزیر اعظم جمالی نے بتایا تھا کہ انھیں اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرنے کا کہا گیا تھا۔

پاکستان کے اس خودساختہ مسیحا محسن نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کبھی ہیرو، کبھی غدار، کبھی اسمگلر اور کبھی اخلاق سے عاری کہہ کر اخلاقیات اور شرافت کا جنازہ نکالا تو کبھی لال مسجد کی بچیوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے ان کا قتل عام کرایا۔ عدالت پر دو مرتبہ ڈرون حملے اور ججز اور ان کے اہل خانہ کو کئی ہفتے قید رکھ کر انھوں نے قانون اور آئین پسند ہونے کا ثبوت دیا۔ ڈرونز حملے، پاکستانیوں کی غیرملکیوں کو حوالگی، ملک میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیاں انھی کے شخصی و خفیہ معاہدات کی دین ہیں۔ پرویز مشرف نے اقتدار میں رہتے ہوئے بھی بیرونی طاقتوں کے ہدف پورے کیے اور اقتدار سے باہر رہ کر بھی اس ایجنڈے پر کاربند ہیں۔

انھوں نے پاکستان پر کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف عسکریت پسند گروپ بنانے کا الزام عائد کیا تو کبھی کشمیر سے پہلے سرکریک اور سیاچن کے تنازعات حل کرنے کا مشورہ دلایا۔ کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی تو کبھی ان سے خفیہ ملاقاتیں کی، بھارت اور اسرائیل کی زبان بولنے والے آمر کا خود ساختہ فرار کے دوران بیرون ممالک میں گھیراؤ کیا گیا مظاہرے ہوئے، جوتے اچھلے، جس کی وجہ سے اس نڈر کمانڈو کو پروگراموں میں شرکت کے لیے ہوٹلوں کے خفیہ دروازوں سے اندر داخل ہونا پڑا۔

ایسا فوجی جس نے دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست بناکر اداروں کے لیے اپنے عوام سے لڑنے کا یوٹرن لیا اب شاید اس کے اس سفر میں کبھی بھی وطن کی راہداریاں نہ آئیں۔ البتہ قانون کی کتابوں کے وہ صفحات بھی خود بخود کھل جائیں گے جن میں سری لنکا کے سابق آرمی چیف ، ارجنٹائن کے سابق چیف اور صدر، پنامہ کے فوجی حکمران، بوسنیا کے سابق آرمی چیف، روانڈا کے آرمی چیف، یوگوسلاویہ کے سابق آرمی چیف اور خود ساختہ مشرقی پاکستان کے صدر اور آرمی چیف ارشاد حسین عوامی مقبولیت اور پانچ انتخابی حلقوں سے کامیابی کے باوجود چھ سال قید کی مثالیں ہوں گی۔

ڈاکٹر طاہر القادری سے پرویز مشرف کی خوش فہمیاں و خوش گمانیاں اور ان کے سابقہ رفیق نائب وزیر اعظم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کی حمایت و تائید ملک کے انتخابی نتائج میں کوئی بہت بڑا اپ سیٹ یا انارکی تو پھیلاسکتی ہیں لیکن پاکستان کے سیاسی نظام میں پرویز مشرف کے لیے اب کوئی جگہ نہیں بناسکتیں۔ آئین کی دیگر شقوں کے علاوہ شق نمبر 6، 62  اور 63 ان کے حقیقی مقام کا تعین کرتی ہیں، اس سلسلے میں اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد بھی موجود ہے جس میں آئین کی پامالی اور قومی سلامتی کے خلاف بیانات کے ارتکاب پر پرویز مشرف کو انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لاکر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ بار پہلے ہی ان کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ پرویز مشرف بغیر کسی بڑی ڈیل، یقین دہانی اور مداخلت کے وطن واپس آکر جمہوریت کے حسن کو چار چاند لگاتے ہیں یا قانون کی بالادستی کی مثال بنتے یا پھر ملک سے باہر بیٹھ کر ملک کے سیاسی و انتخابی ماحول پر بیرونی ایجنڈے کے مطابق اثرانداز و عمل پیرا ہوتے ہیں اس کا نتیجہ چند ہفتوں یا مہینوں میں سامنے آجائے گا، ان کی شخصیت پاکستانیوں کے لیے نہ سہی لیکن بعض عالمی قوتوں کے لیے آج بھی اہم و ناگزیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔